ColumnHabib Ullah Qamar

کشمیریوں کی آزادی غصب کرنے کا دن

حبیب اللہ قمر
ستائیس اکتوبر مظلوم کشمیری مسلمانوں کو اس دن کی یاد دلاتا ہے کہ جب بھارتی فوج نے سری نگر کے چھوٹے سے ایئر پورٹ پر اترنا شروع کیا اور پھر تمام تر بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے طاقت و قوت کے بل بوتے پر سرزمین کشمیر پر قبضہ کر کے ایک پرامن آزاد قوم کو غلامی کی زنجیروں میں دھکیل دیا گیا۔ اس دن کے بعد سے آج تک کشمیری عوام آٹھ لاکھ بھارتی فوج کے ظلم و بربریت کا شکار ہیں۔ ان کی عزتیں، جانیں اور املاک کچھ محفوظ نہیں ہے۔ آئے دن نہتے کشمیریوں پر مظالم کی نئی داستانیں رقم کی جارہی ہیں۔77برس گزر چکے مگر غاصب بھارتی فوج کے ظلم و دہشت گردی میں ذرہ بھر کمی نہیں آئی۔ بھارت سرکار کی جانب سے اس کی فوج کی آمد کو اگرچہ مہاراجہ ہری سنگھ کی درخواست کے ساتھ جوڑا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت وہ آئینی طور پر ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے بے دخل ہوچکے تھے ۔ لوگوں نے اس کے خلاف بغاوت کر رکھی تھی اور دوسرا یہ کہ ایک فردِ واحد کو کسی طرح بھی یہ حق نہیں پہنچتا تھا کہ وہ لاکھوں کشمیریوں کی تقدیر کا فیصلہ ان کی رائے جاننے کے بغیر ازخود کرکے ان کے حقِ خودارادیت کو کالعدم کرتا، اس لئے بھارت کے اس فوجی قبضہ کا کوئی آئینی اور اخلاقی جواز نہیں تھا۔27اکتوبر 1947ء میں کئے جانے والے بھارتی فوجی قبضہ کے نتیجہ میں ساڑھے چھ لاکھ سے زائد کشمیری شہید، ہزاروں خواتین بیوہ اور لاکھوں افراد زخمی و معذور ہو چکے ہیں ۔ بھارتی فوج کشمیر داخل نہ ہوتی تو اس خونی لکیر کا کوئی وجود نہ ہوتا، سرحدوں پر آئے دن فائرنگ، جھڑپیں اور نہتے عوام کی شہادتیں ہوتیں اور نہ ہی اس پورے خطہ کے لوگ مسلسل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوتے۔
بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے مگر کشمیریوں کیلئے وہ ایک ایسے جارح ملک کی حیثیت رکھتا ہے جس نے فوجی قوت کے بل بوتے پر کشمیریوں کے حقوق سلب کر رکھے ہیں اور انہیں آزادی سے جینے کا حق نہیں دیا جارہا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ تقسیم ہند کے وقت اس بات کا فیصلہ کیا گیا تھا کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کا حصہ بنیں گے۔ اس طرح کشمیر جس کی واضح اکثریت مسلمانوں کی تھی، اسے پاکستان میں شامل ہوتا تھا مگر بھارت نے انگریز کی ملی بھگت سے اس پر فوجی قبضہ کر لیا۔ بعد ازاں جب قائداعظم کے کہنے پر جنرل گریسی نے بھارتی فو ج کا غاصبانہ قبضہ ختم کیلئے پاکستانی فوج بھیجنے سے انکار کیا تو مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی کی قیادت میں پاکستان کے قبائل اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے مجاہدین کی بڑی تعداد نے کشمیر کار خ کیا، اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کیلئے وہاں پہنچے اور قربانیوں و شہادتوں کی نئی تاریخ رقم کی گئی۔ اس موقع پر مجاہدین سری نگر تک پہنچ چکے تھے کہ نہرو بھاگا ہوا اس مسئلہ کو اقوام متحدہ لے گیا اور دہائیاں دیں کہ کسی طرح ان مجاہدین کو روکا جائے وگرنہ ان کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنا مشکل ہو گا اور یہ کشمیر کے بعد بھارت کیلئے سخت خطرات کا باعث بن سکتے ہیں۔ یوں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 21اپریل1948ئ میں کشمیر کے حوالے سے ایک قرارداد منظور کی جس میں کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا اور واضح طور پر کہا گیا کہ کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیا جائے گا۔ وہ اپنی مرضی سے فیصلہ کریں گے کہ انہوںنے پاکستان کے ساتھ رہنا ہے یا بھارت کے ساتھ۔ یوں یہ قرارداد پاس کر کے کشمیری و پاکستانی قوم سمیت پوری دنیا کو دھوکہ دیا گیا اور پھر لیاقت علی خاں کے کہنے پر مجاہدین کے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے جس پر نہرو نے خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے یہ معاہدہ کر کے بھارت کو بچالیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اس وقت کی حکومت سازشوں اور دبا کا شکار نہ ہوتی تو آزاد کشمیر کی طرح مقبوضہ کشمیر بھی جسے پاکستان کی شہ رگ کی حیثیت حاصل ہے آج ہندو بنئے کی غلامی سے آزاد ہوتا۔ بہرحال بھارت سرکار نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا ۔ دن بدن کشمیر پر اپنے فوجی قبضہ کو مستحکم کیا اور پھر سرے سے کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دینے سے انکار کرکے اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دینا شروع کر دیا۔ اس دوران بھارتی فوج نے کشمیریوں کا جذبہ حریت دبانے کیلئے ہر حربہ اختیار کیا لیکن وہ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا اور ہر آنے والے دن نہتے کشمیریوں میں بھارت سرکار کے خلاف نفرت بھرے جذبات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ بھارت خود اس مسئلہ کو اقوام متحدہ میں لیکر گیا مگر وہ مسلسل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یو این کی قراردادوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک کر چانکیائی سیاست کا مظاہرہ کر رہا ہے اور کسی طور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مخلص نہیں ہے۔ بھارت اپنی نو لاکھ فوج کے ذریعہ کشمیر کو ہر صورت اپنے قبضہ میں رکھنا چاہتا ہے۔ وہ مقبوضہ کشمیر سے بہنے والے دریاں پر جنگی بنیادوں پر غیر قانونی ڈیم تعمیر کر رہا ہے تاکہ جب چاہے پاکستان کو خشک سالی اور جب چاہے سیلاب کی صورتحال سے دوچار کر دے۔ اسے معلوم ہے کہ کشمیر قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمان کے مطابق پاکستان کیلئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے وہ ہر صورت اسے وطن عزیز سے کاٹ کر رکھنا چاہتا ہے ۔
غاصب بھارت کی طرف سے محض مسلمان ہونے کی بنا پر کشمیری مسلمانوں کا جس طرح بے دردی سے خون بہایا جارہا ہے وہ تاریخ کا سیاہ ترین باب بن چکا ہے۔ بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد بھارت میں ہندو انتہا پسند تنظیموں اور کشمیر میں ہندوستانی فوج اور حکومت کا بہیمانہ کردار ایک بار پھر کھل کر دنیا کے سامنے بے نقاب ہوا ہے۔ بھارتی فوج کشمیر میں چن چن کر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو فرضی جھڑپوں میں شہید کر رہی ہے۔ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے جانے کے بعد سے پوری حریت قیادت گھروں میں نظربند یا جیلوں میں قید ہے۔ بھارتی حکومت کشمیری قیادت کو خوفزدہ کرنے کیلئے ہندوستانی تحقیقاتی ادارے این آئی اے کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ سرگرم کشمیری نوجوانوں کو گھروں سے زبردستی اٹھا کر جیلوں میں ڈالا جارہا ہے۔ بھارتی فوج کی جانب سے ترقیاں و تمغے حاصل کرنے کیلئے فرضی جھڑپیں معمول بنتی جارہی ہیں۔ کشمیر میں اس وقت جیلوں کی حالت زار بھی ناگفتہ بہ ہے۔ حریت رہنماں اور سرگرم کشمیریوں کو بھارتی جیلوں کی طرح سری نگر اور جموں میں بھی بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انہیں ناقص غذائیں فراہم کی جارہی ہیں اور نماز اور قرآن پاک کی تلاوت سے بھی روکا جارہا ہے۔ دختران ملت کی چیئرمین سیدہ آسیہ اندرابی سمیت دیگر متعدد کشمیری رہنما نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔ اسی طرح متعدد کشمیری رہنمائوں کو تاحیات عمر قید کی سزائیں سنا دی گئی ہیں تاکہ وہ عمر بھر کیلئے قید رہیں اور جیلوں سے باہر ہی نہ آسکیں۔ سیدہ آسیہ اندرابی کے شوہر ڈاکٹر محمد قاسم اور بعض دیگر لیڈروں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ پہلے انہیں جھوٹے مقدمات کے تحت جیلوں میں ڈالا گیا اور پھر انہی بے بنیاد مقدمات میں سزائیں سناتے ہوئے ہمیشہ کیلئے جیلوں میں قید کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ برسوں کی طرح امسال بھی آج 27اکتوبر کو کشمیریوں کی طرف سے دنیا بھر میں یوم سیاہ منایا جارہا ہے۔ یہ دن جس طرح کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضہ کی یاد دلاتا ہے اسی طرح اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں کا دوہرا معیار بھی ظاہر کرتا ہے۔ مشرقی تیمور اور سوڈان کا مسئلہ ہو تو اقوام متحدہ جیسے ادارے فوری حرکت میں آجاتے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر جس کے حوالہ سے اقوام متحدہ کی درجنوں قراردادیں موجود ہیں ان پر عمل درآمد کروانے کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی۔ اگر اسکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم کروایا جاسکتا ہے تو مقبوضہ کشمیر میں کیوں نہیں؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان بھارتی ریاستی دہشت گردی بے نقاب کرنے کیلئے سفارتی مہم بھرپور انداز میں جاری رکھے اور دنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں کو متحرک کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری پر زور دیا جائے کہ وہ غاصب بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کیلئے مجبور کرے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو مظلوم کشمیریوں کی آزادی کیلئے ہر ممکن راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ تنازع کشمیر حل کئے بغیر کسی صورت خطہ میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔

جواب دیں

Back to top button