ColumnImtiaz Aasi

آئینی عدالت کا کنفیوژن اور ملاقاتوں پر پابندی

امتیاز عاصی
آئینی ترامیم کے مسودے پر صدر مملکت کے حتمی دستخطوں کے بعد حکومت نے چیف جسٹس آف پاکستان کے تقرر اور آئینی بینچ کے لئے پیش رفت شروع کر دی ہے۔ آئینی بینچ کے قیام سے ذہین میں سوال بار بار آرہا ہے آئینی بینچ کا مقصد صرف سیاسی مقدمات کی سماعت کرے گایا آئین کے تحت جو اپیلیں سپریم کورٹ کے روبرو سنی جاتی ہیں وہ تمام آئینی بینچ سنے گا۔ یہ ابہام ابھی تک باقی ہے آیا آئین کے تحت دائر ہونے والی فوجداری مقدمات کی تمام اپیلیں آئینی بینچ سنے گا گویا یہ کنفیوژن باقی ہے۔ سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 184(3)اور 185کے تحت دائر ہوتی ہیں وہ کریمنل اپیلیں آئینی ہوتی ہیں، آئینی بینچ کے روبرو لگائی جائیں گی۔ ایک عام خیال یہ ہے آئینی عدالت صرف سیاسی رہنمائوں کے خلاف ہونے والے فیصلوں کے خلاف دائر ہونے والی اپیلیوں کی سماعت کرے گا۔ اگر آئینی بینچ آئین کے تحت دائر ہونے والی تمام فوجداری اپیلوں کی سماعت کا مجاز ہو گا تو کیا ایک بینچ تمام اپیلوں کی سماعت مقررہ وقت میں کر سکے گا یا ماضی کی طرح فوجداری مقدمات کے فیصلوں کے خلاف دائر ہونے والی اپیلوں کے فیصلوں میں کئی سال تک انتظار کرنا پڑے گا؟ توقع کی جاسکتی ہے حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں بہت جلد وضاحت آنے سے یہ ابہام دور ہو جائے گا۔ حکومت نے شنگھائی کانفرنس کے موقع پر سکیورٹی خطرات کے پیش نظر سینٹرل جیل راولپنڈی میں قیدیوں اور حوالاتیوں کی ملاقات پر پابندی عائد کی تھی۔ اگرچہ جیلوں میں قیدیوں سے ملاقات اور شنگھائی کانفرنس کے انعقاد کا براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا قیدیوں اور حوالاتیوں سے ملاقات کرنے والے ان کے اہل و عیال نے کانفرنس کے عذر کو بادل نخواستہ قبول کر لیا تھا۔ پنجاب حکومت نے قیدیوں کی ملاقات پر پابندی میں مزید توسیع کر دی ہے۔ یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کانفرنس کے اختتام کو کئی روز گزرنے کے باوجود قیدیوں کی ملاقات پر پابندی کا کوئی قانونی جواز ہے؟ پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ سیکورٹی خدشات کے پیش نظر قیدیوں اور حوالاتیوں کی ملاقاتوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہو۔ پاکستان کے عوام اتنے بھی سادہ نہیں جو قیدیوں کی ملاقات پر
پابندی کے معاملے کو سمجھ نہیں سکے۔ سوال ہے حکومت نے سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے بانی کی ملاقاتوں پر پابندی عائد کرنا ہے تو واضح طور پر احکامات جاری کرنے چاہیں نہ ایک شخص کو قیدی تنہائی میں رکھنے کے سزا سات ہزار سے زیادہ قیدیوں اور حوالاتیوں کے لواحقین کو دی جائے۔ حکومت کو علم تھا صرف عمران خان کی ملاقاتوں پر پابندی عائد کی تو معاملہ عدالتوں میں چلا جائے گا جہاں حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا لہذا عمران خان کی ملاقات پر پابندی کی سزا کئی ہزار قیدیوں اور حوالاتیوں کے ساتھ ان کے گھر والوں کو بھی دی جا رہی ہے۔ آئینی ترامیم کا اصل مقصد اعلیٰ عدالتوں کے پر کاٹنا تھا جو حکومت نے آئینی اصلاحات کی آڑ میں کاٹ دیئے ہیں۔ آئینی ترامیم کے بعد اعلیٰ عدلیہ سے سوموٹو لینے کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے لہذا نہ رہے گا بانس نہ بجے کی بانسری والی بات ہو گئی ہے۔ سکیورٹی خدشات تو ایک بہانہ ہے آخر جڑواں شہروں کے پولیس سٹیشنوں میں ملزمان کو حوالات میں بھی رکھا جاتا ہے جہاں ان کے ملاقاتی آتے جاتے رہتے ہیں کیا وہاں سکیورٹی خدشات نہیں تھے؟۔ حکومت نے سنٹرل جیل سے متصل جگہ پر ہائی سیکورٹی جیل کی تعمیر کی تھی جسے سیکورٹی اداروں نے کئی سال قبل حفاظتی نقطہ نظر کے تحت غیر محفوظ قرار دے دیا تھا جس کے بعد پنجاب حکومت نے سنٹرل جیل ساہیوال سے ملحقہ کئی ہزار ایکٹر زمین پر ہائی پروفائل سکیورٹی جیل کی تعمیر کی جہاں چاروں صوبوں سے لائے گے دہشت گردوں کو رکھا گیا ہے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق ساٹھ سے زیادہ دہشت گرد موت کے منتظر ہیں حکومت نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے دبائو میں آکر ان کی پھانسی پر عمل درآمد روکا ہوا ہے حالانکہ ان تمام کی رحم کی اپیلیں
صدر مملکت سے مسترد ہوچکی ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی حکومتیں معمولی سا بین الاقوامی دبائو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتیں۔ اسامہ بن لادن کی مخبری کرنے کے الزام میں قید ڈاکٹر شکیل آفریدی کو اسی جیل میں رکھا گیا ہے جہاں دہشت گردی میں سزا پانے والے کم ازکم اڑھائی سو قیدی اپنی سزائیں بھگت رہے ہیں۔ گو حکومت نے آئینی ترامیم کر لی ہیں اس ضمن میں تمام اسٹیک ہولڈر کو اعتماد میں لیا جاتا تو بہتر تھا لیکن اب وکلاء کے کئی گروپوں نے ان آئینی ترامیم کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے جس سے ملک میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہونا یقینی ہی۔ ایک طرف ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور دوسری طرف وکلا کا آئینی ترامیم کے خلاف سڑکوں پر آنے سے ملک میں سیاسی عدم استحکام میں اضافہ کا امکان نہیں ہے۔ یہ جانتے ہوئے جن اقوام میں انصاف نہیں ہوتا وہ قومیں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ ہماری تباہی میں کون سی کسر باقی ہے۔ قوم کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوتی جن ججوں نے عوام کو انصاف کی فراہمی کا حلف اٹھایا ہو وہ معاشرے کے طبقات کو انصاف مہیا کرنے کی بجائے حکومتی خواہشات کے طابع ہوئے ہوئے مقدمات کے فیصلے کرنے کی طرف گامزن ہوں وہ حق تعالیٰ کے روبرو اپنی صفائی کیسے پیش کر سکیں گے۔ یوم حساب انہیں کوئی حکمران بچا نہیں سکے گا۔ ججوں کی تقرری کے لئے مقررہ پارلیمانی کمیٹی میں حکومتی ارکان کی اکثریت سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا حکومت اعلیٰ عدلیہ میں من پسند وکلاء کو جج مقرر کرکے اپنی مرضی کے فیصلے لے سکے گی جسے قانون کی زبان میں انصاف کا قتل کہا جاتا ہے۔ دراصل اقتدار میں آنے کے بعد حکمرانوں میں خوف خدا اور آخرت کی جواب دہی کا احساس ختم ہو جاتا ہے۔ آخر انسان کب تک اقتدار میں رہتا ہے ایک نہ ایک دن اسے اقتدار چھوڑنا ہی پڑتا ہے۔ تحریک انصاف نے آئینی ترامیم کے خلاف تحریک کا اعلان کر دیا ہے۔ چنانچہ وکلا اور تحریک انصاف کی بیک وقت آئینی ترامیم کے خلاف تحریک فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button