ColumnM Riaz Advocate

جمہور کی فتح

محمد ریاض ایڈووکیٹ
پاکستان کا شمار ان چند بدقسمت ریاستوں میں کیا جاسکتا ہے جو اپنے وجود میں آنے کے بعد ہی سے محلاتی سازشوں کا شکار رہی۔ سول اور خاکی بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ منصفوں نے ریاست کی بربادی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پاکستان کی حقیقی سیاسی لیڈرشپ کو منظر ِعام سے ہٹانے کے لئے نت نئے طور طریقے اپنائے اور آزمائے گئے۔ حقیقی عوامی سیاسی لیڈرشپ کو مسند اقتدار پر براجمان ہونے سے روکنے اور ہٹانے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا گیا کبھی براہ راست مارشل لاء کا نفاذ تو کبھی ایوان عدل میں بیٹھے نام نہاد منصفوں کے ذریعہ جوازِ اقتدار حاصل کیا گیا۔ مگر جمہوریت کی آبیاری کے لئے سیاسی لیڈرشپ نے پھانسی، جلاوطنی اور قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کیا۔ غیر آئینی غاصبوں نے اپنے اقتدار کو طُول دینے کیلئے آئین پاکستان کا حُلیہ بگاڑنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مگر جمہوریت پر یقین رکھنے والی سیاسی لیڈرشپ نے ہرمرتبہ آئین پاکستان کو اس کی اصل حالت میں لانے کے لئے تگ و دو جاری رکھی۔ آمر ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی آئین پاکستان میں شامل کی گئی متعدد غلاظتوں کو اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعہ پاک کیا گیا۔
پرویز مشرف کے بعد بظاہر آمروں کی آمد کا سلسلہ رک چکا مگر پس پردہ نادیدہ قوتوں کے ایماء پر جمہوری حکومتوں پر شب خون مارنے کی ذمہ داری ہماری عدلیہ میں بیٹھے منصفوں نے لے لی۔ کبھی یوسف رضا گیلانی کو سوئس بینکوں کو خط نہ لکھنے کے جرم میں تو کبھی میاں نواز شریف کو اپنے بیٹے سے وصول نہ کردہ تنخواہ کی بناء پر مسند اقتدار سے ہٹانے کے لئے بابے رحمتے نے اپنی خصوصی خدمات پیش کیں۔ پرویز مشرف کے بعد جوڈیشل ایکٹو ازم اور استحصال اپنے عروج پر پہنچ چکا۔ عدالتی فیصلوں میں آئینی و قانونی حوالات کی بجائے غیر ملکی مصنفوں کے ناولوں کے تذکرے کرنا۔ آمروں کے ادوار میں چُپ کا روزہ رکھ کر آمروں کے غیر آئینی و غیر قانونی اقدامات کو جواز بخشنے والے بابے رحمتے جمہوری ادوار میں عوامی نمائندوں کے بنائے ہوئے قوانین کے خلاف ننگی تلواریں نکال لیتے ہیں۔ جمہوریت پسند سیاسی لیڈرشپ کو ذلیل و خوار کرنا مگر دوسری جانب اپنی من پسند سیاسی لیڈرشپ کو عدالت میں گڈ ٹو سی یو کہتے وقت کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرنا۔
من مرضی آئینی تشریحات کرنا بابے رحمتے کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا۔ اپنی پسندیدہ اور ناپسندیدہ جماعت کے لئے آرٹیکل 63۔Aکی مختلف تشریحات کرنا۔ کبھی ڈیم فنڈ کے نام پر پاکستانی قوم
کو بیوقوف بنانا تو کبھی ہسپتالوں میں چھاپے مار کر ڈاکٹروں کی تنخواہوں و کارکردگی بارے پوچھنا۔ عدالتی اُمور چھوڑ کر انتظامی اُمور میں دخل اندازی کو معیوب نہ سمجھنا۔ ناک کے نیچے ہونے والی کرپشن سے آنکھیں چُرا کر حکومتی عہدیداروں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا عام سی بات ہے۔ اعلیٰ و ماتحت عدالتوں میں بائیس لاکھ سے زائد مقدمات زیر التواء ہیں مگر بابے رحمتے کو دوسرے محکموں کی کارکردگی کو جانچنے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ کئی سال حتی کہ دہائیوں تک عام سائلین کے مقدمات کی شنوائی نہیں ہو پاتی مگر آئینی و سیاسی مقدمات کے لئے ججز کے فل بینچ بھی دستیاب ہوجاتے ہیں اور ایسے تمام مقدمات کی روزانہ کی بنیاد پر سماعتیں بھی ہوجاتی ہیں۔ اس دوران عوام الناس جن کے ٹیکسوں سے عدلیہ کے ججز کو تنخواہیں دی جاتی ہیں، ان کے مقدمات مزید تاخیر کا شکار ہوجاتے ہیں۔
عوامی نمائندوں کو احتساب کے نام پر ذلیل و خوار کرنے والے بابے رحمتے اپنے سنگی ساتھیوں کے برخلاف کرپشن درخواستوں کو سپریم جوڈیشل کونسل کے صندوقوں میں چھپا کر رکھتے ہیں۔ عوامی نمائندوں کی پچھلی تین نسلوں تک کے احتساب کے لئے چاک و چوبند بابے رحمتے اپنی فیملی کی غیر قانونی، سیاسی و کرپشن سرگرمیوں پر سٹے آرڈر جاری کرتے ہوئے کوئی شرم بھی محسوس نہیں کرتے۔ اور کرپشن کہانیاں منظر عام آنے پر فون ٹیپ کرنے والوں کو ہی مورد الزام ٹھہرا دیتے ہیں۔ سال 2008تا2024ریاست پاکستان میں پھیلے ہوئے جوڈیشل ایکٹو ازم کے سدباب کے لئے ضروری تھا کہ عدلیہ میں رائج کارٹل کا خاتمہ کیا جائے اور عدلیہ کے اوپر چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم کیا جائے اور سب سے بڑھ کر عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کو عدلیہ کے تسلط سے آزاد کرایا جائے۔ بحیثیت قانون کے طالب علم مجھے یہ کہتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوگی کہ پارلیمنٹ یعنی عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کے بنائے ہوئے آئین و قوانین کی بدولت ہی بابے رحمتے کے اختیارات، ان کی تعداد، ان کی تنخواہوں اور ان کی مراعات کا تعین کیا جاتا ہے تو پھر پارلیمنٹ کو یہ حق کیوں نہیں مل سکتا ہے وہ بابے رحمتے کی تعیناتی کرے۔
26ویں آئینی ترمیم کے بعد اُمید کی جاسکتی ہے کہ بابے رحمتے کی من مانیوں کے سلسلے کا خاتمہ نہیں تو کم از کم بریک ضرور لگ جائے گی۔ یاد رہے پارلیمنٹ ہی سپریم ادارہ ہے، جس کے بطن سے آئین و قوانین پیدا ہوتے ہیں، جس کی بدولت ریاست کے انتظام کو چلانے کے لئے ادارے و محکمے قائم کئے جاتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ تنخواہ و مراعات تو عوام الناس سے لیں مگر عوام الناس کے حقیقی نمائندوں سے حق حکمرانی چھین لیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری جمہور کی فتح ہے۔ یاد رہے 1973ء کے آئین بناتے وقت حکمران و حزب اختلاف کی جماعتوں میں شدید اختلافات تھے مگر آئین کو ترتیب دینے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں نے پاکستانی قوم کو متفقہ آئین کا تحفہ دیا۔ پاکستانی جمہوری نظام کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا خوش آئند ہوگا کہ 18ویں اور 26ویں آئینی ترامیم بھی ماضی کی حریف سیاسی جماعتوں نے مل کر منظور کرایا۔ اُمید یہی کی جاسکتی ہے کہ جس طرح پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے ماضی سے سبق حاصل کیا، مستقبل میں بھی وہ کسی کا دُم چھلا بننے کی بجائے باہم مل کر ریاست پاکستان کو لاحق مسائل سے نکال باہر کریں گی۔ جمہوریت زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔

جواب دیں

Back to top button