CM RizwanColumn

آئینی ترامیم اور غیر جمہوری رجیم

سی ایم رضوان
پچھلے چند روز سے جاری سوشل و مین سٹریم میڈیا پر منظور شدہ آئینی ترامیم کے غلغلے کو سن کر عام شہری یہ پوچھتے سنے گئے کہ یہ آئینی ترامیم کیا ہیں اور ان سے ملک میں کیا تبدیلیاں رونما ہوں گی نیز اگر بعض حکومت مخالف سیاستدان اور اینکر خواتین و حضرات ان ترامیم کو ظلم اور ناجائز قرار دے رہے ہیں تو اس امر سے کیا مزید مہنگائی ہو گی اور کیا جمہوریت مزید کمزور ہو گی تو ان حضرات کے لئے خبر یہ ہے کہ ان ترامیم کے بعد بھی مہنگائی اور جمہوری تباہی تو اسی طرح ہوتی رہے گی جس طرح کہ پہلے سے جاری ہے مگر یہ تبدیلی ضرور آئی ہے کہ ترمیم میں چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججوں میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی۔ چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت تین سال ہوگی۔ چیف جسٹس کے لئے عمر کی بالائی حد 65سال مقرر کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ حکومت کی طرف سے پیش کی گئی یہ 26 ویں آئینی ترمیم سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے بھی دو تہائی اکثریت سے منظور کر لی گئی ہے جس میں زیادہ تر ترامیم کا تعلق عدلیہ سے ہے۔ ان آئینی ترمیم کے تحت اب چیف جسٹس سپریم کورٹ کا تقرر سینیارٹی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اعلیٰ عدالت کے سربراہ کا تقرر ایک کمیٹی کرے گی۔ یہ کمیٹی بھی سینئر ترین تین ججوں میں سے کسی ایک جج کو چیف جسٹس کے تقرر کی تجویز دے سکتی ہے۔ کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام وزیرِ اعظم صدر کو ارسال کریں گے۔ کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا۔ یہ 12رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی ہو گی۔ آئینی ترامیم کی منظوری کے بعد پہلی مرتبہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے تین دن قبل نام بھجوایا جائے گا۔ بعد ازاں چیف جسٹس کے تقرر کے لئے پارلیمانی کمیٹی 14روز قبل نام بھجوائے گی۔ پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی متناسب نمائندگی ہوگی۔ اس کمیٹی میں آٹھ ارکان قومی اسمبلی جبکہ چار ارکان سینیٹ سے ہوں گے۔ ترمیم کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی مدت تین سال ہوگی۔ چیف جسٹس کے لئے عمر کی بالائی حد 65سال مقرر کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ اور صوبوں میں قائم ہائی کورٹس میں آئینی بینچ تشکیل دیئے جائیں گے۔
آئین کی شق 16میں بھی مزید ترمیم کی گئی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئین سے متعلق بینچوں کی تشکیل کے لئے مجلس شوریٰ ( قومی اسمبلی) سے قرارداد منظور کرانا ہوگی۔ اسی طرح صوبائی ہائی کورٹس میں آئینی بینچوں کی تشکیل کے لئے صوبائی اسمبلیاں قرارداد منظور کریں گی۔ جوڈیشل کمیشن آئینی بینچوں اور ججوں کی تعداد کا تعین کرے گا۔ کسی بھی آئینی بینچ میں شامل سینئر ترین جج اس آئینی بینچ کا سربراہ ہوگا۔ آئینی بینچوں میں جہاں تک ممکن ہو گا تمام صوبوں سے مساوی ججوں کو تعینات کیا جائے گا۔ آرٹیکل 184کے تحت از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچوں کے پاس ہوگا۔ آرٹیکل 185کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیس آئینی بینچوں کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔ آرٹیکل 186کے تحت عدالت کے ایڈوائزری اختیارات بھی آئینی بینچوں کے پاس ہوں گے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل صدرِ پاکستان کسی بھی عوامی اہمیت کے معاملے پر سپریم کورٹ سے قانونی رائے طلب کر سکتے تھے تاہم اب صدر سے مشاورت کا یہ اختیار صرف آئینی بینچ کو دے دیا گیا ہے۔ نیز آرٹیکل 184تین کے تحت سپریم کورٹ اپنے طور پر کوئی ہدایت یا ڈیکلریشن نہیں دے سکتی۔ آرٹیکل 186اے کے تحت سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے کسی بھی کیس کو کسی دوسری ہائی کورٹ یا اپنے پاس منتقل کر سکتی ہے۔ اس آئینی ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن ہائی کورٹ کے ججوں کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لے گا۔ سپریم کورٹ کے ججوں کا تقرر کمیشن کرے گا۔ چیف جسٹس کی زیرِ صدارت کمیشن میں آئینی بینچوں کا سینئر ترین جج بھی شامل ہوگا۔ کمیشن میں سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین جج شامل ہوں گے۔ وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل بھی کمیشن کے ارکان ہوں گے۔ کم سے کم 15سال تجربے کا حامل پاکستان بار کونسل کا نامزد کردہ وکیل دو سال کے لئے کمیشن کا رکن ہوگا۔ دو ارکان قومی اسمبلی اور دو ارکان سینٹ کمیشن کا حصہ ہوں گے۔ سینیٹ میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت کی حامل خاتون یا غیر مسلم کو بھی دو سال کے لئے کمیشن کا رکن بنایا جائے گا۔
پاکستان میں بینکنگ اور کسی بھی قسم کے لین دین سے سود کے خاتمے کے لئے بھی آئین میں ترمیم کی گئی ہے۔ آرٹیکل 38میں کی گئی ترمیم کے تحت اب یکم جنوری 2028تک ملک سے سود کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ وزیرِ اعظم یا کابینہ کی صدر کو تجویز پر کوئی سوال نہیں ہو سکتا۔ آرٹیکل 48میں کی گئی ترمیم کے تحت وزیرِ اعظم یا کابینہ کی جانب سے صدر کو ارسال کی گئی تجویز پر کوئی عدالت، ٹربیونل یا اتھارٹی سوال نہیں اٹھا سکتی۔ چیف الیکشن کمشنر یا رکن ریٹائرمنٹ کے بعد نئے تقرر تک کام جاری رکھے گا۔ آرٹیکل 229اور 230میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں میں ہونے والی قانون سازی پر اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے لی جا سکے گی۔ کوئی بھی معاملہ 25فیصد ارکان کی حمایت سے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایا جا سکے گا۔ ائین میں ایک نئی شق آرٹیکل نو اے بھی متعارف کرائی گئی ہے جس کے تحت ماحولیاتی تحفظ کو بنیادی شہری حقوق میں شامل کر دیا گیا ہے۔
یہ تو ہے ان ترامیم کی تفصیل جو کہ ان قارئین کے لئے پیش کی گئی ہے جو آج تک ان ترامیم کے متعلق مختلف سوالات رکھتے ہیں، باقی رہ گیا آئین پاکستان اور عوام پاکستان کا معاملہ تو ان ترامیم کا کیا فائدہ جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین مجریہ 1974میں ہمارے ملک کے لئے پارلیمانی جمہوریت کا جو نظام تجویز کیا گیا ہے اس کے مطابق ملک عزیز میں عوام کی حکومت ہو گی، عوام میں سے ہو گی اور عوام کے لئے ہو گی لیکن ہمارے یہاں عملی طور پر جو بھی حکومت آتی ہے وہ ہمیشہ سے خواص کی حکومت ہوتی ہے، خواص ہی اسے منتخب کرتے ہیں اور یہ حکومت ان خواص کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہی کام کرتی ہے۔ خواص سے مراد وہ چند خاندان ہیں جو پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لے کر آج تک کسی نہ کسی صورت میں اقتدار پر قابض ہیں اور ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ ہمارے آئین کے آرٹیکل۔ 17(1)کے مطابق ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سیاسی پارٹی بنائے یا اس کا رکن بنے۔ آرٹیکل 17(2) کے مطابق ہر سیاسی پارٹی کے لئے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے عہدے داروں کے لئے اپنی پارٹی کے اندر انتخابات کروائے۔ پولیٹیکل پارٹی آرڈر 2024کی شق 12(2)کی رو سے ہر سیاسی پارٹی کے لئے ضروری ہے کہ وہ مرکز، صوبائی اور لوکل سطح پر عہدیداران کا انتخاب کروائے۔ اس کی شق نمبر 13 (4)کی رو سے یہ انتخابات خفیہ رائے دہی کے تحت ہوں گے۔ شق نمبر 13(3) میں الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ تمام سیاسی پارٹیوں کے انٹرا پارٹی انتخابات کی مانیٹرنگ کرے۔ لیکن اگر ہم وطن عزیز کی بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کے اندر کی جمہوریت کا احوال ملاحظہ کریں تو جماعت اسلامی پاکستان کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام، پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان تحریک انصاف، تحریک لبیک پاکستان جیسی ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت کے اندر جمہوریت نہیں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے لے کر تحریک لبیک پاکستان تک جماعتوں کی سر براہی ایک ہی خاندان کے افراد کے گرد گھوم رہی ہے۔ کیا ان جماعتوں میں قحط الرجال ہے کہ کوئی ایک بھی سیاستدان پارٹی کا سربراہ بننے کے قابل نہیں؟ اب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہمارے بزرگ، تجربہ کار اور سینئر سیاستدان اقتدار کی خاطر اپنے بچوں سے بھی چھوٹے اور نا تجربہ کار پارٹی سربراہان کی ہر سچی جھوٹی بات پر واہ واہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کوئی سیاستدان ایسے اغوا شدہ ماحول میں آواز اٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے ایک مثال بنا دیا جاتا ہے۔ کیا اسی کا نام جمہوریت ہے؟ کیا ہمارے آئین میں ایسی ہی جمہوریت کا تذکرہ ہے؟ اگر اسے جمہوریت کہتے ہیں تو آمریت کس شے کا نام ہے؟ یہاں پر ہی بس نہیں جب ہماری یہ سیاسی پارٹیاں اقتدار میں آتی ہیں تو اندھوں کی طرح شیرینی صرف اپنوں ہی میں بانٹتی ہیں۔ ہماری ہر ایک بڑی سیاسی جماعت کے نزدیک طاقتور حلقوں کا اشیر باد حاصل ہونا ہی سب سے بڑی کوالیفیکیشن ہے۔ ایک اور بڑی سیاسی پارٹی کے چیئرمین کے سارے رشتہ دار اور دوست یار جب تک مستفید نہ ہو جائیں دوسروں کے لئے کوئی جگہ نہیں بچتی۔ ایک اور قومی سطح کی سیاسی جماعت جو اتنی جمہوری ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں آئی اور اب بھی جمہوری قوتوں سے نہیں نادیدہ اور طاقت ور قوتوں سے مذاکرات کرنے کی خواہاں ہے۔
ان سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشن کس طرح ہوتے ہیں ابھی تک سمجھ نہیں آ سکی؟ دراصل ان کے یونین کونسل، تحصیل اور ڈسٹرکٹ لیول پر الیکشن ہوتے ہی نہیں، صرف نامزدگیاں ہوتی ہیں۔ ان حالات میں ان کے مرکزی عہدیداران کا انتخاب کیسے ہو سکتا ہے؟ الیکشن کمیشن آف پاکستان کس بنیاد پر ان کے انٹرا پارٹی انتخابات کو قانون کے مطابق قرار دے کر سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے؟ کیا الیکشن کمیشن نے کبھی ان سیاسی پارٹیوں کے یونین کونسل، تحصیل، ضلعی اور مرکزی لیول کے انتخابات کی صحیح معنوں میں مانیٹرنگ کی ہے یقینا اس کا جواب نفی میں ہے۔ کیونکہ الیکشن کمیشن کو سب معلوم ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے انتخابات آنکھوں میں دھول جھونکنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ کیا کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس ممبران کی فہرست ہے؟ کیا ان تمام لیول کے انتخابات کا ریکارڈ ان کے پاس ہے؟ کیا واقعی ان کے انتخابات خفیہ حق دہی کے اصول کے تحت ہوتے ہیں؟ ان سوالات کا جواب نہ تو الیکشن کمیشن کے پاس ہے اور نہ ہی ان نام نہاد جمہوریت پسند سیاسی جماعتوں کے پاس ہے۔ ان حالات میں موجودہ آئینی ترامیم کی کوئی اہمیت نہیں جو غیر جمہوری رجیم کے ساتھ چلیں گی۔

جواب دیں

Back to top button