Column

نوجوانوں کا غصہ: اسباب اور شافی علاج

تحریر : حافظ محمد قاسم مغیرہ
یہ بات کہ نوجوان بہت بدتمیز، غصیلے اور منہ پھٹ ہیں ، ضرورت سے کچھ زیادہ ہی گھس پٹ گئی ہے۔ نوجوانوں کے لہجے کی اس تلخی کا سبب کیا ہے؟ اس موضوع پر اگر کسی دانش ور کو اظہار خیال کی دعوت دی جائے تو چند بوسیدہ جملے بولنے کے بعد ہانپنے لگتا ہے۔ دانش ور ان عوامل جو نوجوانوں کو بدتمیز بنارہے ہیں، پر غیر جانب داری سے بات نہیں کرتا۔ نوجوانوں کے اس لہجے کا سب سے بڑا سبب سیاسی جماعتوں کا وہ کلچر ہے جو انہوں نے گزشتہ پچہتر برسوں میں پروان چڑھایا۔ مسئلہ یہ ہی کہ صرف نوجوان ہی نہیں ، بلا تخصیص جماعت، وطن عزیز کے سینیئر سیاست دان بھی اسی لہجے میں بات کرتے ہیں۔ سیاست میں پانچ پانچ دہائیاں گزارنے والے سیاسی رہنما بھی دشنام طرازی پر فخر کرتے ہیں۔ ایوان میں کی گئیں ان کی تقریروں کے کلپس جب ان کی سوشل میڈیا ٹیم تک پہنچتے ہیں تو وہ انہیں ’’دیدہ زیب‘‘ عنوانات سے سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں۔ فلاں نے فلاں کی منجی ٹھوک دی، فلاں نے فلاں کی بولتی بند کردی ، فلاں نے فلاں کو خوب لتاڑا۔نوجوانوں کے غصے کی ایک بڑی وجہ اشرافیہ کا ان سے روا رکھے جانے والا ظالمانہ سلوک بھی ہے۔ نوجوانوں کا غصہ اشرافیہ کے مظالم کا رد عمل ہے۔ ظلم کے اسباب ختم کر دیجئے، نوجوانوں کا غصہ ختم ہو جائے گا۔
نوجوانوں کی بدتمیزی کے ضمن میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ دانشور طبقے کی طرف سے یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ سوال اٹھانے والا، مزاحمت کرنے کرنے والا اور شعور کی رمق رکھنے والا ہر شخص بدتمیز ہے۔ دانشوروں کو یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جتنی بری شے گالی اور دشنام ہے ، اتنی ہی بری شے ظالموں کی حمایت ہے خواہ اس کے لیے کتنی ہی عمدہ نثر لکھی جائے۔ نوجوان کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اسے پراپیگنڈا کا شکار کہنا ایک قبیح عمل ہے۔ دانشوروں کو وطن عزیز کے لاکھوں نوجوانوں کے بجائے سیاسی قائدین کے بچوں کا مفاد زیادہ عزیز ہے۔ ترقی کے خواب دیکھنے والے ہر شخص کو سوشل میڈیا کی پیداوار کہہ کر تضحیک کرنا ایک گھٹیا حرکت ہے۔
ایک روز ایک یونیورسٹی پروفیسر اور ایک طالب علم کے درمیان مکالمہ دیکھا۔ نوجوان وطن عزیز کی ترقی کا خواہاں تھا، جبکہ یونیورسٹی پروفیسر موجودہ صورتحال کو جوں کا توں قبول کرنے کے لیے رضا مند تھے۔ پھر پروفیسر صاحب نے نوجوان سے کہا ’’ آپ پاکستان میں اور کس چیز کی توقع رکھتے ہیں؟‘‘۔
گویا ترقی اور خوش حالی ہمارا حق نہیں ہے۔ ہم ترقی کی بات بھی نہیں کر سکتے۔ ہم اس فرسودہ نظام کا ایندھن بننے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔
دانشوروں کی ’’ عقلیت پسندی‘‘ کے برعکس نوجوانوں کا غصے اور بدتمیزی قابل علاج امراض ہیں۔ اس سلسلے میں درج ذیل اقدامات کی شدید ضرورت ہے۔
سب سے پہلا اور سب سے ضروری قدم یہ ہے کہ وطن عزیز کی اشرافیہ اپنے عمل سے یہ ثابت کرے کہ پاکستان کسی کی چراگاہ نہیں ہے بل کہ اس پر نوجوانوں کا حق بھی ہے۔
سیاسی جماعتوں کے بزرگ سیاست دان رضا کارانہ طور پر سیاست سے الگ ہو جائیں اور نوجوانوں کو موقع دیں۔ سیاسی جماعتیں نوجوانوں کے لیی اپنے دروازے کھولیں۔ نوجوانوں کو یہ یقین دلایا جائے کہ سیاست صرف سیاسی قائدین کا بچوں کا حق نہیں ہے۔ انٹرا پارٹی الیکشنز کے ذریعے متبادل قیادت سامنے لائی جائے۔ بلدیاتی انتخابات کے ذریعے نوجوانوں کو سیاست کی جولاں گاہ میں اپنے گھوڑے دوڑانے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ سٹوڈنٹ یونینز بحال کی جائیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کی تربیت کریں۔
سیاست دان نوجوانوں کے لیے شائستگی کا نمونہ بنیں۔ نوجوان ان کی تقلید کریں گے۔
سرکاری اداروں میں ہزاروں اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ ان پر جلد از جلد نئی بھرتیاں کی جائیں۔
کھیل کے میدان آباد کیے جائیں۔ ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام شروع کرکے تمام کھیلوں میں نیا ٹیلنٹ سامنے لایا جائے۔
نوجوانوں کو کاروبار کے لیے آسان اقساط پر بلاسود قرضے فراہم کیے جائیں۔
تعلیمی اداروں میں تربیتی نظام کو بہتر بنایا جائے تاکہ ہر پڑھا لکھا شخص لازماً اچھے اخلاق و کردار کا حامل اور ایک ذمہ دار شہری بن کر معاشرے کی تعمیر کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
قوانین کے موثر نفاذ سے نجی اداروں میں کام کرنے والوں کو بھی تحفظ کا پورا ماحول دیا جائے۔
نوجوانوں کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ٹریفک وارڈنز غریب نوجوانوں کا نہیں بل کہ با اثر افراد کا چالان بھی کر سکتے ہیں۔ قوانین کے یکساں اور موثر نفاذ سے نوجوانوں کو جب یہ یقین ہو جائے گا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے تو ان کے غصے اور جارحانہ پن میں کمی آئے گی۔
اشرافیہ کو اپنے رویے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ اشرافیہ کا رویہ نوجوانوں کے ذہنی امراض میں اضافہ کر رہا ہے۔ اشرافیہ کے پیدا کردہ حالات کی وجہ سے نوجوانوں میں دل کے امراض کی شرح بڑھ رہی ہے۔ اس لیے ہر بات میں نوجوانوں کو کوستے رہنا قرین انصاف نہیں ہے۔ نوجوانوں کو درپیش مسائل حل کریں، انہیں مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ نوجوانوں کے لیے عزت نفس، روزگار، علاج معالجے اور انصاف کو یقینی بنائے۔ نوجوانوں اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے جس جماعت کا بھی انتخاب کریں، ادارے ان کے مینڈیٹ کا احترام کریں۔ ان کی آواز دبانے کی کوشش نہ کریں۔ مختصر یہ کہ نوجوانوں کو درپیش تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ اشرافیہ اپنی روش درست کرے۔ نوجوان، پاکستان کا مستقبل ہیں۔ انہیں آگے بڑھنے دیں۔ طرز کہن پہ اڑی ہوئی قوتیں نوجوانوں کے رستے میں روڑے نہ اٹکائیں۔

جواب دیں

Back to top button