
سی ایم رضوان
بھارتی ریاست اتر پردیش میں گھریلو ملازمہ کی جانب سے گھر والوں کو پیشاب سے تیار کردہ کھانا کھلانے کا پردہ فاش ہوگیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس نے بتایا کہ غازی آباد کی کراسنگ ریپبلک رہائشی سوسائٹی کے ایک فلیٹ میں پیشاب سے کھانا تیار کرنے والی گھریلو ملازمہ کو گرفتار کر لیا۔
پولیس کو دو روز قبل سوسائٹی کی رہائشی خاتون کی طرف سے تحریری شکایت موصول ہوئی تھی کہ ان کی گھریلو ملازمہ آٹے میں پیشاب ملا کر روٹیاں تیار کر کے پیش کرتی ہے۔ تحریری شکایت پر ملازمہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ پولیس نے ملزمہ کی شناخت رینا کے نام سے ظاہر کی جو مذکورہ فیملی کے گھر میں پچھلے 8 سالوں سے ملازمہ ہے۔ غازی آباد ویو سٹی کے اے سی پی لیپی ناگایچ نے بتایا کہ 14 اکتوبر کو شکایت موصول ہونے کے بعد گرفتاری کے لئے ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں، ملزمہ کو جی ایچ 7 سوسائٹی سے حراست میں لیا گیا۔ تحریری شکایت میں کہا گیا تھا کہ کیمرے کی ریکارڈنگ کے ذریعے انکشاف ہوا کہ ملازمہ نے کچن میں پیالے میں پیشاب کیا اور پھر اسے آٹا گوندھنے کے لئے استعمال کیا۔ خاتون نے پولیس کو بتایا کہ فیملی کے افراد جگر کی بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں اس لئے وہ یہ کام ان کی ہمدردی میں کر رہی تھی، شبہ ہے کہ ملازمہ یہ کام کافی عرصے سے کر رہی تھی۔ یہ تو ہے ہندو معاشرے کی ایک بدنما تصویر اور دوسری طرف ہمارے مسلم معاشرے کی بدنما تصویر یہ ہے کہ مبینہ طور پر لاہور میں نجی کالج کی طالبہ کے مبینہ ریپ کا واقعہ ہوا۔ احتجاجی طلبہ کا الزام ہے کہ کالج کی انتظامیہ جنسی زیادتی کا واقعہ چھپا رہی ہے تاہم کالج انتظامیہ اور پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس نوعیت کا کوئی واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا۔ جنسی زیادتی کے اس مبینہ واقعے کے خلاف پاکستان کے متعدد شہروں کے طلبا و طالبات اور سول سوسائٹی کے لوگ پچھلے پانچ چھ روز سے مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ مبینہ طور پر کسی بڑی شخصیت یا مذکورہ کالج کے سکیورٹی گارڈ کی مبینہ جنسی زیادتی کے واقعے کی فیک خبر کے سوشل میڈیا پر وائرل ہو جانے کے بعد سے دن بدن ملک کے حالات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں اور احتجاج کا سلسلہ دوسرے علاقوں تک بھی پھیلتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس مبینہ واقعے کے خلاف لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں کے طلبا اور طالبات کے مسلسل احتجاج کے باعث پنجاب حکومت نے صوبہ بھر کے سرکاری و نجی تعلیمی ادارے بند کر دیئے ہیں۔ دوسری طرف دو روز قبل مظاہرین بڑی تعداد میں کالج کی گلبرگ میں واقع برانچ کے قریب اکٹھے ہو کر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا۔ حکومت اور کالج انتظامیہ کے خلاف نعرے لگائے اور مبینہ طور پر جنسی تشدد کا شکار ہونے والی طالبہ کے لئے انصاف کا مطالبہ کیا۔ طلبا کا کہنا تھا کہ کالج کی با اثر انتظامیہ اس واقعے کو چھپانے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہی ہے۔ اس سے قبل اسی طرح طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد پنجاب اسمبلی کے سامنے بھی جمع ہوئی اور اس واقعے کی شفاف تحقیقات کے حق میں احتجاجی مظاہرہ کیا اور مال روڈ پر دھرنا بھی دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب کے دیگر شہروں اوکاڑہ، بہاولپور، جہانیاں، ملتان، ظفر وال، چشتیاں اور گجرات سمیت کئی دیگر علاقوں سے بھی احتجاج کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ واضح رہے کہ خود مذکورہ کالج کے طلبہ نے بھی اس واقعے کے خلاف شدید احتجاج کیا تھا، جس پر پولیس نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا، جس سے دو درجن سے زائد طلبا زخمی ہو گئے تھے۔ اس موقع پر بعض پولیس والوں نے طالبات کے ساتھ نامناسب رویہ بھی اپنایا تھا۔ نیز لاہور کے علاقے گلبرگ میں غالب روڈ پر واقع نجی کالج کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔ کالج کو جانے والے سارے راستے رکاوٹیں کھڑی کرکے ٹریفک کے لئے بھی بند کر دیئے گئے ہیں، کالج کے ارد گرد خاردار تاریں بھی لگا دی گئیں۔ کالج کے آس پاس کے علاقوں میں سیکڑوں مسلح پولیس اہلکار تعینات ہیں۔ قیدیوں کو لے جانے والی بسیں، پولیس ڈالے اور شیلنگ کا سامان بھی موجود ہے، دوسری طرف کالج کے احاطے کو دھو کر احتجاجی نشانات بھی مٹا دیئے گئے ہیں اور پردے تان کر کالج کے ٹوٹے گیٹ کی مرمت کی جا رہی ہے۔ کالج کے نزدیک ڈیوٹی پر مامور ایک پولیس اہلکار سے جب پوچھا گیا کہ آیا طلبہ احتجاج کرنے اس طرف تو نہیں آئے؟ اس کے جواب میں اس پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ ’’ آپ ہماری تیاریاں نہیں دیکھ رہے، یہاں اب کوئی نہیں آ سکتا‘‘۔ واضح رہے کہ طلبا نے اس مبینہ واقعے کے خلاف لاہور میں پنجاب اسمبلی کے باہر بھی احتجاج کیا۔کالج کے احتجاجی طلبہ نے الزام لگایا ہے کہ چند روز قبل کالج کے ایک سکیورٹی گارڈ نے ڈرائیور کے ذریعے فرسٹ ایئر کی ایک طالبہ کو دھوکے سے تہ خانے میں بلا کر مبینہ طور پر اس کا ریپ کیا تھا۔ اس پر انتظامیہ نے مناسب کارروائی کرنے کی بجائے اس واقعے کو دبانے اور اس واقعے کے خلاف آواز اٹھانے والی طالبات کو سختی کے ساتھ روکنے کی کوشش کی۔ ایک طالب علم نے صحافیوں کو بتایا کہ اگر کالج انتظامیہ اس واقعے کو چھپانے کے لئے سختی کرنے کی بجائے ملزم سکیورٹی گارڈ اور پرنسپل سمیت اس واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرتی تو طلبہ مشتعل نہ ہوتے۔ دوسری طرف لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ اس طرح کا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں ہے۔ ان کے مطابق انہیں کوشش کے باوجود اس واقعے کے ابھی تک کوئی شواہد نہیں مل سکے۔ لاہور پولیس کے ترجمان حافظ قیصر عباس کے مطابق کسی نے ایف آئی آر کے اندراج کے لئے پولیس سے رابطہ کیا اور نہ ہی کوئی متاثرہ فریق سامنے آیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے کچھ فوٹیجز بھی دیکھی ہیں۔ ہسپتالوں کا ریکارڈ بھی چیک کیا ہے اور کالج سے بھی معلومات لی ہیں لیکن اس واقعے کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ یاد رہے کہ پولیس نے مبینہ واقعے میں ملوث سکیورٹی گارڈ کو بھی حراست میں لیا، پولیس کی جانب سے دو افراد کو متاثرہ بچی کے والد اور چچا ظاہر کر کے ایک ویڈیو بیان بھی جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کی بچی کی ٹانگ گرنے کی وجہ سے زخمی ہوئی ہے۔ تاہم احتجاجی طلبہ اس دعوے سے اتفاق نہیں کر رہے ان کے بقول یہ کوئی اور لوگ تھے اور ان کی شکلیں اور ان کی باڈی لینگوئج بھی ان کے دعووں کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ بعض احتجاجی طلبا کے مطابق اگر یہ حقیقت میں بھی متاثرہ بچی کے والد اور چچا ہوں تو بھی یہ عین ممکن ہے کہ ان پر نادیدہ طاقتوں کا دبائو ہو سکتا ہے جس کے تحت انہوں نے یہ بیان جاری کیا۔ اپنے ایک بیان میں نجی کالج کی انتظامیہ نے بھی کالج کے احاطے میں کسی ایسے واقعے کی تردید کی ہے۔
احتجاج میں شامل طلبہ اور طالبات کا کہنا ہے کہ مذکورہ کالج ایک بہت با اثر شخصیت کی ملکیت ہے، جو حکمران خاندان سے بھی روابط رکھتی ہے اور حکومت میں بھی اثر رسوخ کی حامل ہے۔ ایک طالبعلم نے کہا کہ پاکستان جیسے ملک میں کسی غریب آدمی کو ایسے شخص کے مقابلے میں کہاں انصاف مل سکتا ہے اوپر سے متاثرہ بچیوں کے والدین یہ سوچ کر چپ رہتے ہیں کہ ان کی بدنامی نہ ہو۔ ایک دیگر احتجاجی نوجوان نے بتایا کہ ان کی بہن اسی کالج میں پڑھتی ہے اور اس نے بھی اس واقعے کی تصدیق کی ہے۔ ابراہیم نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ کالج انتظامیہ بچوں کے گھروں میں رابطے کر کے ان کو کالج سے نکالنے اور ان کا کیریئر خراب کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ تاہم ان تمام باتوں کے باوجود اگر یہ واقعہ ہوا ہی نہیں ہے تو پھر وزیر تعلیم نے اس کالج کی رجسٹریشن کیوں معطل کی۔ سکیورٹی گارڈ کو کیوں گرفتار کیا گیا، کالج کے کیمرے کیوں ہٹائے گئے، اگر دامن صاف ہے تو احتجاج کو سختی سے کیوں کچلا جا رہا ہے۔ بچوں کو دھمکا کر خاموش رہنے پر کیوں مجبور کیا جا ریا ہے۔ طلبا کے احتجاج کو روکنے کے لئے پولیس کی بھاری نفری کیوں تعینات کی گئی ہے اور صوبے بھر کے سکول کیوں بند کئے گئے ہیں۔ احتجاجی طالبات کا کہنا تھا کہ حکومت ایسے واقعات میں ملوث افراد کو سخت سزا دے اور تعلیمی اداروں میں بنائی جانے والی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں میں طالبات کو بھی موثر نمائندگی دے اور طالبات کے تعلیمی اداروں میں مرد حضرات کی وسیع پیمانے پر بھرتیوں کو روکا جائے۔
دوسری جانب اگر حقائق کی دنیا میں جھانکا جائے تو پھر یہ امر پتھر کی دیوار بن کر سامنے آ جاتا ہے کہ جس واقعے کی کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی، کوئی میڈیکل رپورٹ سامنے نہیں آئی، کوئی مدعی سامنے نہیں آیا، تو پھر ایک مخمصے اور فرضی واقعے پر مبنی خبر پر ملک گیر خطرناک احتجاج ملک کو بدامنی سے دوچار کر دینے والے اقدام سے کسی طرح بھی کم نہیں۔