ColumnImtiaz Aasi

جمہوریت کے لئے بڑھنے کی ضرورت

امتیاز عاصی
صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے جمہوریت کیلئے آگے بڑھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ دونوں کے نزدیک جمہوریت شائد اسی کا نام ہے آئین پاکستان میں من پسند ترامیم کرکے اپنے مقاصد کے حصول کو پورا کیا جائے۔ ملکی آئین میں ترامیم کوئی بری بات نہیں تاہم اگر آئین میں ایسی ترامیم کرکے اقتدار کو طوالت دی جائے یا بعض حلقوں کو نوازنے کے لئے آئین کا حلیہ بگاڑا جائے تو مملکت کو فائدے کی بجائے ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ سوال ہے پانچ عشرے گزرنے کے بعد ہمیں آئین میں ردوبدل کی کیوں ضرورت پیش آئی ہے ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار کو بدل کر وزیراعظم کو بااختیار کرنے کا مقصد ججوں کی تقرری کا معاملہ فرد واحد کی صوابدید پر چھوڑنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ ججوں کی تقرری میں جوڈیشل کمیشن میں حکومتی نمائندوں کی پوری نمائندگی ہونے کے باوجود اس معاملے کو فرد واحد کو اختیار دینے کا کیا مقصد ہے؟ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کو غیر ضروری اور بعض حلقوں کو مشکور کرنے کی خاطر آئین میں ایک غیر آئینی شق کو شامل کرنے سے کیا مقصود ہے؟ ریاست پاکستان کو جن مشکلات کا سامنا ہے ایسے اقدامات کا کیا دھرا ہے مختلف حلقوں کے لئے علیحدہ علیحدہ قانون ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے بعض سیاسی رہنما جمہوریت پر بدنما داغ ہیں سیاسی جماعتوں کے قائدین میں ملک اور عوام کی حب ہوتی وہ آئین سے کھلواڑ کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ آئین میں تبدیلیاں کرنے والوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے۔ مجوزہ آئینی ترامیم میں فوجی عدالتوں کے قیام پر اتفاق رائے نہ ہونے کا سبب یہی ہے سیاست دانوں کو علم ہے ایک نہ ایک دن انہیں انہی عدالتوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وہ سیاست دان جو آج عمران خان کو جیل میں دیکھ کر شادیانے بجا رہے ہیں وہ وقت دور نہیں جب وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ مملکت میں عدم استحکام کیسے آسکتا ہے جب آئین کے ساتھ کھلواڑ کی کوشش کی جائے گی۔ جمہوریت کا ادراک رکھنے والے سیاست دان اور عوام آئین کا حلیہ بگاڑنے کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں۔ ایک شخص
کو اس کے حق سے محروم کرنے کی خاطر چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری تین سنیئر ترین ججوں سے کرنے کا مقصد کیا ہے؟، ملکی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو عدلیہ کے ججوں کی تقرری میں پہلے کون سی شفافیت تھی جو اب چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ کار بدلنے سے معاملات سدھر جائیں گے۔ جے یو آئی کے امیر جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں کے اتحادی رہ چکے ہیں شور غوغا ایسے نہیں کر رہے ہیں انہیں مستقبل میں پیش آنے والے خطرات کا ادراک ہے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی ہیں جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر کمپرومائز کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ ملک اور عوام کی بدقسمتی ہے قومی دولت لوٹنے والوں کو کسی نے پوچھا تک نہیں وہ ملک کے اندر یا بیرون ملک جائیدادیں اور بینک اکائونٹس رکھیں احتساب سے بالاتر ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کی نالش ویسے نہیں تھی ضمیر رکھنے والے جج اصولوں پر کبھی سودے بازی نہیں کرتے۔ جسٹس ( ر) شوکت صدیقی نے جابر حکمران کے آگے جھکنے سے انکار کرکے اعلیٰ عدلیہ کے قد کاٹھ میں اضافہ کیا۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔ وکلا کا ایک گروپ آئینی ترامیم کے خلاف ہے ملک کے عوام آئے روز سڑکوں پر کیوں آرہے ہیں کبھی کسی نے اس طرف دھیان دیا ہے۔ آخر کوئی وجہ تو ہے عوام سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ پی ٹی آئی اور جے یو آئی اور دیگر جماعتیں انتخابات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں اس کے باوجود حکومت آئین کی شکل بگاڑنے کی طرف گامزن ہے۔ حکومت اور طاقتور حلقوں کسی چیز کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے بلکہ ملکی مفاد کو فوقیت دینی چاہیے۔ آئینی ترامیم کی آڑ میں عوام اور عدلیہ کی آزادی سلب کرنے کی کوشش
سے ہمارا ملک ترقی کر سکے گا؟ سیاسی رہنمائوں سے امتیازی سلوک کا یہ عالم ہے توشہ خانہ سے کون سا سیاست دان ایسا ہے جس نے قیمتی اشیاء حاصل نہیں کیں ایک عمران خان ہے جسے توشہ خانہ کو رکھ کر تختہ مشق بنانے کی کوشش جاری ہے۔ آئینی ترامیم کے لئے مطلوبہ اکثریت پورا کرنے کی خاطر ارکان اسمبلی کا اغوا اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کرکے آئینی ترامیم کے حق میں حمایت حاصل کرنے کو جمہوریت کہا جاتا ہے؟ ملک کی سب سے بڑی جماعت اپنے بانی کی رہائی کو بھول کر آئینی ترامیم کے خلاف سڑکوں پر ہے۔ سانحہ نو مئی کے ملزمان کو جیلوں میں رکھنے کا مقصد واضح ہے آئینی ترامیم سے فوجی عدالتوں کو قانونی حیثیت دے کر سزائیں دینے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ہے۔ اپوزیشن کے ارکان کو جہاں اغوا کرنے کی باز گشت ہے وہاں کئی حکومتی ارکان کا آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ نہ دینے کی شنید ہے۔ سیاسی رہنمائوں میں با ضمیر لوگوں کی کمی نہیں ہے یہ علیحدہ بات ہے بعض طالع آزما سیاست دان آئین کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش میں ہیں۔ اس وقت جو صورت حال ہے اس کے تناظر میں ذمہ داروں کو چاہیے وہ سانحہ نو مئی کے ملزمان کے مقدمات کا فیصلہ ہونے دیں۔ عمران خان کے خلاف جو مقدمات ہیں عدالتوں کو بغیر کسی دبائو ان کا تسویہ کرنے دیں تاکہ ملک میں سیاسی استحکام کی فضا ہموار ہو سکے۔ اس مقصد کے لئے عمران خان اور ذمہ داروں کو اپنے رویے میں لچک پیدا کرنی چاہیے۔ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں عمران خان اقتدار سے ہٹنے کے بعد اپوزیشن میں میں بیٹھ جاتا تو شائد جیل میں نہیں ہوتا۔ ملکی مفاد کی خاطر فریقین کو کسی بات کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ گو صدر اور وزیراعظم جمہوریت کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو آگے بڑھنے کے خواہاں ہیں اس مقصد کے لئے انہیں سیاسی فضا کو ابر آلود ہونے کی بجائے مطلع صاف رکھنے کیلئے آگے بڑھنا چاہیے۔ ہمیں اس وقت سب سے زیادہ ضرورت جس بات کی ہے وہ بلوچستان اور کے پی کے حالات کو سازگار بنانے میں ملکی اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button