Column

وزیر تعلیم کا ’’ اگر‘‘ اور کچھ آنکھوں دیکھا حال

محمد نور الھدیٰ
لوگ اعتراض کر رہے ہیں کہ پنجاب کے وزیر تعلیم رانا سکندر حیات ٹارزن بنتے ہوئے احتجاجی طلبہ کے سمندر میں کیوں کود پڑے؟۔ وہ وہاں کیا لینے گئے اور کیا کچھ کہہ آئے؟۔ میڈیا رپورٹس چل پڑیں، ٹاک شوز میں رانا سکندر حیات کی طلبہ اور میڈیا سے گفتگو کا نہ رکنے والا ذکر چل پڑا۔ اخبارات اور سوشل میڈیا کے لکھاریوں اور وی لاگرز کے ہاتھ بحث کیلئے ایک نیا موضوع آگیا جس کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ غرض ایک ایسا ماحول بنا دیا گیا کہ پنجاب کی انتظامی مشینری کو حرکت میں آنا پڑا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کو خود بھی میدان میں کودنا پڑا اور حساس معاملے کی نوعیت پر انکوائری کمیٹی، جے آئی ٹی اور ایک ہائی پاور کمیٹی بھی بنا دی جس نے تحقیقات کرتے ہوئے ان تمام واقعات کی تردید کی، جن کی بنیاد پر تعلیمی اداروں کے طلباء احتجاج پر مجبور ہوئے۔
ایک ایسا واقعہ جو صرف افواہوں کی بنیاد پر بنا اور دیکھتے ہی دیکھتے تحریک کی صورت اختیار کرنے کو تھا، ایسے میں صوبے کا وزیر تعلیم بڑا رسک لے کر، بغیر کسی سیکورٹی کے، ایک تعلیمی ادارے میں پہنچتا ہے۔ جہاں وہ اکیلا، سیکڑوں کی تعداد میں جمع احتجاجی طلبا کو امن و امان برقرار رکھنے کی اپیل کرتا ہے، توڑ
پھوڑ سے روکتا ہے اور پرامن احتجاج پر قائل کرتا ہے۔ ان سے واقعہ کی تفصیلات معلوم کرتا ہے۔ جو طلباء پولیس کے تشدد کا شکار ہوتے ہیں، وہ رانا سکندر حیات سے شکایت کرتے ہیں۔ وزیر تعلیم انہیں تسلی دیتا ہے اور موقع پر موجود پولیس حکام کو ہدایت کرتا ہے کہ طلبہ پر کسی قسم کا تشدد نہ کیا جائے۔ دوسری جانب وہ طلباء کو بھی تسلی دیتے ہوئے ’’ اگر‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر ایسا واقعہ ثابت ہوا تو ذمہ داروں کو خود سزا دلوائے گا۔ سیاسیات کا طالبعلم ہونے کے ناطے میں نے کئی احتجاج، کئی مظاہرے دیکھے، لیکن میں نے کسی وزیر کو کبھی مظاہرین کو سینے سے لگا کر حوصلہ دیتے، اس سے بڑے بھائی جیسی شفقت کا مظاہرہ کرتے نہیں دیکھا۔ وزراء اور دیگر سیاستدان آتے ہیں تو ’’ ہٹو بچو ‘‘ والوں کو ہمراہ لاتے ہیں۔ تقریر کرتے ہیں، وعدے کرتے ہیں اور خبر کی سرخی بنوا کر چلے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے رانا سکندر حیات کو میں نے ایک منفرد اور صحیح معنوں میں عوامی سیاستدان کے روپ میں پایا۔
مذکورہ احتجاج چونکہ تعلیمی ادارے میں ہو رہا تھا، تو بنیادی طور پر یہ صوبائی وزیر تعلیم کی ڈومین تھی کہ وہ انہیں کنٹرول کرے اور معاملے کی گتھی سلجھانے کی ذمہ داری لے کر طلباء کو گھر بھیجے۔ نوجوانوں کے اس بپھرے مجمع میں وزیر تعلیم کی ہی ہمت تھی کہ وہ تنگ سی سڑک پر جمع ان سینکڑوں نوجوانوں سے جا کر بات کرتا ہے، امید دلاتا ہے، وگرنہ احتجاج کرتے طلبا نہ کسی کی سننے کو تیار تھے، اور نہ ہی اس دوران کوئی ریاستی ذمہ دار طلباء کا موقف سننے اور احتجاج ختم کرانے آیا، لیکن وزیر تعلیم کی آمد اور گفتگو کے بعد طلباء کا حوصلہ بلند ہوا، تو دوسری جانب افواہوں کا طوفان بھی مزید شدت اختیار کر گیا۔ ایسے میں اگر انہوں نے ہجوم کو ٹھنڈا کرنے کیلئے رجسٹریشن وقتی یا
عارضی پور پر معطل کر بھی دی تو اس میں کیا غلط تھا؟۔ وزیر تعلیم نے وہاں جو گفتگو کی ہر فرد نے اپنی مرضی کے سیاق و سباق کے ساتھ اس گفتگو کو اپنے اپنے مقصد کیلئے استعمال کیا۔ میں نے خود ٹی وی چینلز پر وزیر تعلیم کی میڈیا ٹاک سنی، بلکہ میں اس موقع پر خود بھی موجود تھا، اور میں نے رانا سکندر کو کئی جملوں میں ’’ اگر‘‘ کا لفظ استعمال کرتے سنا۔ میرے کانوں میں ابھی بھی وزیر تعلیم کے حرف بہ حرف الفاظ گونج رہے ہیں، کہ ’’ اگر‘‘ پرنسپل کو پہلے شکایت کی گئی ہے اور انہوں نے متاثرہ بچی کو پروٹیکٹ کرنے کی بجائے مجرموں کو تحفظ دیا ہے تو پھر میں ان بچوں کا ساتھ دوں گا جو احتجاج کر رہے ہیں، ’’ اگر ‘‘ ایڈمنسٹریشن نے جیسا کہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ، تصویریں ڈیلیٹ کی ہیں، تو میں اپنی بہنوں کے حق کیلئے کھڑا ہوں گا، ’’ اگر‘‘ پرنسپل نے یا انتظامیہ نے شہادتیں مٹائی ہیں تو، ثابت ہونے پر ان کے خلاف ایکشن ہوگا، مزید انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ طلبا نے انہیں بتایا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے انہیں رول نمبر سلپ روکنے اور کالج سے نکالنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، مگر وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے، کیونکہ یہ بچے ان کے چھوٹے بھائی ہیں‘۔ یہ تھے وہ مکمل بیانات جنہیں سیاق و سباق سے
ہٹ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اور یہ تھا وہ آنکھوں دیکھا حال، جو میں نے من و عن بیان کیا۔ آپ اسے وزیر تعلیم کا ٹک ٹاک کا شوق کہیں، ہیرو بننے کی کوشش کہیں، یا کچھ بھی نام دے کر تنقید کر لیں، یہ بات بہرحال حقیقت ہے کہ نوجوانوں کے کسی بپھرے مجمع میں بلاخوف و خطر جا کر معاملہ افہام و تفہیم سے حل کرانے کی کوشش بہرحال کسی جرات مند فرد کا ہی کام ہے۔ رانا سکندر حیات نہ صرف پہلی مرتبہ ممبر اسمبلی بنے بلکہ پہلی دفعہ منسٹر بنے ہیں، لیکن انہوں نے کسی سینئر سیاستدان سے بڑھ کر ہمت دکھائی۔ ایک ایسے وقت میں، جب سیکڑوں طلباء روڈ بلاک کر کے ’ وی وانٹ جسٹس‘ کے نعرے لگا رہے تھے، تو پنجاب کا یہ وزیر تعلیم نوجوانوں کا احتجاج ختم کرانے ان کے درمیان موجود تھا۔ وگرنہ دنیا جانتی ہے کہ جب نوجوان انقلاب کیلئے نکلتے ہیں تو سیاسی نقشے پر کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
ایک ’’ اگر‘‘ نے صورتحال کیا سے کیا بنا دی۔ ایک لفظ ’’ اگر‘‘ ہذف کر جانے سے کتنا فرق پڑتا ہے، یہ ہم نے گزشتہ چند دنوں میں دیکھ لیا۔ اگر ذمہ دارانہ صحافت کی جاتی اور وزیر تعلیم کے بیانات کو من و عن نشر کیا جاتا تو آج ہمیں یہ حالات دکھائی نہ دیتے جو بنتے جا رہے ہیں، یا بنائے جا رہے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button