نئے سوشل کنٹریکٹ اور رول آف لا کی اہمیت

پیامبر
قادر خان یوسف زئی
پاکستان کے سیاسی و معاشرتی منظر نامے پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو ایک طرف داخلی تنازعات اور دوسری طرف بین الاقوامی سازشوں کا جال نظر آتا ہے، جہاں ایک قوم کا مستقبل غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ ہمارے ادارے، جنہیں ملک کے استحکام اور بقاء کی ضمانت بننا چاہیے، آج انہی اداروں کی باہمی چپقلش اس ملک کی جمہوریت کو پاتال میں دھکیل رہی ہیں۔ پاکستان کے جمہوری نظام کو درپیش چیلنجز نہایت پیچیدہ اور گہرے ہیں۔ کوئی اگر یہ دعویٰ کرے کہ پاکستان میں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں، تو وہ حقیقت سے دور ہے۔ ہماری جمہوریت نہ صرف کمزور ہے بلکہ مختلف داخلی و خارجی قوتوں کے زیر اثر ہے، جو اس کی بنیادوں کو ہلا رہی ہیں۔
ریاست کے ستونوں میں سے ایک عدلیہ ہے، جسے ہمیشہ انصاف فراہم کرنے والے ادارے کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ تاہم، بدقسمتی سے پاکستان میں عدلیہ کا کردار متنازع رہا ہے۔ ایک طرف عدلیہ کی آزادی کا دعویٰ کیا جاتا ہے، جبکہ دوسری طرف اس پر سیاسی اور غیر سیاسی دبا بھی غالب دکھائی دیتا ہے۔ آئینی عدالت کے قیام میں سیاسی و غیر سیاسی قوتوں کے درمیان کھنچا تانی ظاہر کر رہی ہے کہ مفادات ملک سے زیادہ فروعی حصول کے لئے سعی کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال اس وقت زیادہ تشویش ناک ہو جاتی ہے ان حالات میں جب عدالتوں کے بعض فیصلے جمہوریت کے استحکام کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ عدلیہ کا آئینی کردار صرف اور صرف انصاف کی فراہمی ہے، لیکن جب آئینی ادارہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرتا ہے تو وہ خود اپنے آئینی کردار سے تجاوز کر دیتا ہے۔ اس تناظر میں، ’’ رول آف لا‘‘ کی اہمیت اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ صرف قانون کی بالادستی ہی ریاستی اداروں کو ان کے اصل آئینی حدود میں رہنے پر مجبور کر سکتی ہے۔
جمہوریت کو لاحق خطرات میں ایک اور اہم عنصر سیاستدانوں کا کردار ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے بیشتر سیاستدان اکثر ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی باہمی چپقلش اور مفادات کی جنگ نے جمہوری نظام کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ سیاستدانوں کے درمیان مفاہمت اور تعاون کی کمی نے ہمیشہ سیاسی عدم استحکام کو فروغ دیا ہے، اور اس کا فائدہ غیر جمہوری قوتوں نے اٹھایا ہے۔ سیاستدانوں کو اپنی ذاتی ترجیحات کو پس پشت ڈال کر قومی مفاد کو ترجیح دینی ہو گی۔ اگر وہ آپس میں مل کر کام کریں، تو جمہوری نظام کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر سیاسی انتشار اسی طرح جاری رہا، تو جمہوریت کے لیے سنگین خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، سیاستدانوں کو اپنے کردار اور ذمہ داری کا ادراک کرنا ہو گا کہ جمہوریت کی بقاء اور ترقی انہی کی سمجھداری اور قومی فکر سے وابستہ ہے۔
سرحدی علاقوں پر تنائو اور خلفشار ، ایک ایسا مسئلہ ہے جو نہ صرف پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے بلکہ اس کی جمہوری بنیادوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ملک دشمن عناصر کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت، اور سرحدی خلاف ورزیاں، اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ پاکستان کو ایک خطرناک پڑوسی و سازشی بیانیہ کا سامنا ہے۔ یہ صورتحال ایک جانب تو عوام میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کر رہی ہے، تو دوسری جانب یہ سیاسی عدم استحکام کو بھی بڑھا رہی ہے۔ یہ پاکستان کے لیے ایک بڑی تشویش کا باعث ہے، جو کہ ملک کی داخلہ و خارجہ پالیسی میں سنجیدہ تبدیلیوں کا تقاضا کرتی ہے۔ مملکت کو اپنی دفاعی حکمت عملی میں تبدیلیاں لانا ہوں گی اور اپنی سمت کو درست راہ پر گامزن کرنا ہوگا تاکہ کسی بھی قسم کے پراپیگنڈوں کا موثر جواب دیا جا سکے۔ دوسری جانب مغربی سرحد پر افغان طالبان کی عدم تعاون کی روش نی بھی پاکستان کو خطرات میں ڈال رکھا ہے۔ افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد، سے پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو ہوا ملی ہے۔ سرحدی علاقوں میں جاری دہشت گردی کی کارروائیاں اور فریقین کے درمیان کشیدگی، پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے ایک نیا چیلنج بن چکی ہیں۔ اس صورتحال نے پاکستانی حکومت اور فوج کے لیے ایک کٹھن چیلنج پیش کر دیا ہے کہ وہ نہ صرف سرحد کی حفاظت کریں بلکہ داخلی سیکیورٹی کو بھی برقرار رکھیں۔
مشرقی اور مغربی سرحدوں کی صورت حال، عالمی سطح پر بھی پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ ایران اور عرب ممالک کی اسرائیل کے ساتھ جاری تنازع میں بے بسی، اور خطے میں جاری دیگر تنازعات نے پاکستان کو بین الاقوامی سازشوں کے نشانے پر رکھ دیا ہے۔ عالمی طاقتیں اکثر اپنے مفادات کے حصول کے لیے چھوٹے ممالک کا استعمال کرتی ہیں۔ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو اس طرح ترتیب دینا ہوگا کہ وہ کسی بھی بڑی طاقت کے ایجنڈے کا حصہ نہ بنے۔ پاکستان اپنے دوست ممالک کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرے اور اپنی خودمختاری کو ہر حال میں برقرار رکھے۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں یہ وقت ہے کہ ہم ایک نئے ’’ سوشل کنٹریکٹ ‘‘ کی طرف پیش قدمی کریں، جس میں ریاستی اداروں کے کردار اور ذمہ داریوں کو دوبارہ واضح کیا جائے۔ آئین پاکستان ہر ادارے کے کردار اور ذمہ داریوں کو متعین کرتا ہے، اور جب تک ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام نہیں کرے گا، تب تک جمہوریت کی مضبوطی ممکن نہیں۔ آئین پاکستان اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کا نظریہ پیش کرتا ہے، اور اسی آئین پر عمل کرکے ہم ملک کو ایک مستحکم، خوشحال اور ترقی یافتہ مستقبل کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جمہوریت کو بچانے اور اسے مضبوط کرنے کے لیے اداروں کے درمیان باہمی احترام اور آئینی حدود کی پاسداری ناگزیر ہے۔ اس نئے سوشل کنٹریکٹ کے تحت تمام اداروں کو اپنے فرائض کا احساس اور اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو درپیش چیلنجز محض وقتی نہیں، بلکہ گہرے اور طویل المدتی ہیں۔ جمہوریت کو لاحق خطرات کا مقابلہ صرف اور صرف اداروں کی آئینی بالادستی، سیاستدانوں کے اصولی کردار، اور عوام کے اعتماد کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم اپنے قومی اداروں کو مضبوط کریں، سیاست کو اصولوں پر مبنی کریں، اور قانون کی بالادستی قائم کریں، تو پاکستان کا مستقبل روشن اور مستحکم ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے آئینی اور جمہوری اصولوں پر عمل پیرا ہوں اور ایک نئی شروعات کریں۔ جمہوریت کی بقاء اور ملک کی ترقی کے لیے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ آج کے دور میں، ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنے ملک کو درپیش چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا ۔ حالیہ دنوں میں جس قسم کا خلفشار مملکت کے گردو نواح میں پھیلا ہوا ہے اس تپش کو ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہی ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔