ColumnTajamul Hussain Hashmi

دل کا اطمینان

تجمّل حسین ہاشمی
میں ایک دن نماز عصر کی ادائیگی کیلئے مسجد پہنچا، وضو کے دوران دیکھتا ہوں کہ ایک پرانا محلے دار، جس کے متعلق مجھے علم تھا کہ یہ قادیانی تھا، وہ بھی نماز کیلئے وضو بنا رہا تھا، مجھے خیال آیا کہ یہ تو قادیانی تھا، لیکن معلوم پڑا کہ یہ مسلمان ہوچکا ہے۔ میں نے سوچا کیوں نہ اس سے کفر کی زندگی پر بات کریں۔ بہرحال نماز ادا کرنے کے بعد میں ان صاحب سے ملا اور گفتگو ہوئی، اس کے ساتھ اس کے دو معصوم بچے بھی تھے۔ وہ بھی نماز میں شامل تھے۔ بہت خوب صورت لگ رہے تھے۔ اس کے چہرے پر نور تھا۔ مجھے پرسکون نظر آیا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا میں آپ سے چند ایک سوال پوچھ سکتا ہوں؟ جناب نے کہا ضرور پوچھیں۔ میں نے کہا آپ تو پہلے قادیانی تھے؟ آپ اب مسلمان ہیں ماشاء اللہ۔ اس نے جواب میں کہا کہ "جی ہاں میں مسلمان ہوں، قادیانیت پر لعنت بھج کر دولت اسلام سی سرفراز ہوا ہوں۔” دوران گفتگو میں نے ان سے کہا کہ آپ نے پہلے (کفر والی زندگی) اور اب (اسلام والی زندگی) میں کیا فرق محسوس کیا؟ تو ان صاحب نے جواباً کہا کہ "پہلے میری زندگی میں سکون تھا نہ اطمینان قلب، بے چینی کے عالم میں سارا دن سرگرداں تھا، گویا زندگی بے بندگی شرمندگی کے مصداق تھی” پھر جب سے اللہ تعالیٰ نے اسلام کی دولت سے نوازا ہے، حضورؐ کو آخری نبی دل سے تسلیم کیا تو دل سکون سے بھر اٹھا، اب روح کو بے چینی نہیں ہوتی، میں نے اس کی فیملی کے حوالہ سے پوچھا۔ کہنے لگا، اللہ پاک کا شکر ہے، ہم سب مسلمان ہیں۔ کہنے لگا حقیقت میں سکون زندگی کیا ہوتا ہے؟ وہ اسلام قبول کرنے کے بعد معلوم ہوا ہے” مزید بات نہیں ہوسکی، وہ درس تعلیمات کیلئے بیٹھ گیا لیکن مجھے کہا کہ آپ دوبارہ مجھ سے ملیں، تفصیلی بات چیت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دین فطرت پر پیدا کیا ہے اور دین فطرت دین اسلام ہے، جب انسان اپنے فطری دین کو ترک کرکے ادیان باطلہ میں سے کسی کو اختیار کرتا ہے تو وہ خلاف فطرت فعل انجام دیتا ہے، جس کے سبب بے چینی والی زندگی بسر کرتا ہے، دنیا کے اسباب و متاع میسر ہونے کے باوجود تنگی محسوس ہونے لگتی ہے اور یہی تنگی بعض اوقات انسان کو خودکشی کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ "العیاذ بااللہ”بجائے اس کے کہ وہ راحت کے حقیقی مرکز دین اسلام کی آغوش میں آکر اپنی روح کیلئے تسکین کا سامان کرے، وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، جبکہ اس سے بھی راحت نہیں ملتی، وہ صرف عدم سکون کے سبب اقدام کیا جاتا ہے۔” اب تو کہتے ہیں کہ مرجائیں گے، مر کر بھی سکون نہ ملا تو کدھر جائیں گے؟” اور سب سے زیادہ خودکشی کرنے والوں کی تعداد یورپی ممالک میں ہے، ان کو معلوم نہیں وہ کس بیماری کا شکار ہیں، حقیقت میں وہ روحانی بیماری کا شکار ہیں۔ روح کی جو غذا ہے وہ دین اسلام ہے، اسی سے روح منور ہوتی ہے۔ ان کو چاہئے کہ بجائے اپنا قاتل خود بننے کے اسلام کے سائے میں آکر چین والی زندگی کا آغاز کریں، قادیانی بھی ایک غیر مسلم جماعت ہے، ان کو بھی دعوت دی جاتی ہے کہ بجائے باطل مذہب کی پیروکاری کے اسلام کی آغوش میں آئیں اور دونوں جہانوں کا سکون حاصل کریں۔ کسی اللہ والے نے کیا خوب کہا ہے: سکون جہاں تم کہاں ڈھونڈتے ہو، سکون جہاں ہے نظام مدینہ دیکھا جائے تو اسلام ہمیں وہ ضابطہ حیات عطا کرتا ہے، جسے اختیار کرنے کے بعد زندگی سکون، راحت اور آرام والی بن جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں فرماتے ہیں: ترجمہ "جان لو، اللہ تعالیٰ کی یاد سے ہی دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔”(سورۃ الرعد 28)، ہم نے دنیا کے دھندوں میں لگ کر اللہ کی یاد سے روگردانی کی ہوئی ہے، بعض اوقات نماز کیلئے وقت نکالنا بھی دشوار معلوم ہوتا ہے، جب ہمارا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا ہے تو ہمیں کہاں سکون والی زندگی میسر ہوگی؟ ہمیں اپنے روزہ مرہ معاملات میں احکام خداوندی کی پیروی کرنی ہوگی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طور طریقہ کو اپنے لئے ذریعہ نجات سمجھتے ہوئے اپنانا ہوگا، بصورت دیگر دنیا کی اس چار دن کی زندگی میں بھی بے چینی کا شکار ہوں گے اور مرنے کے بعد آخرت میں بھی رسوائی ہوگی۔ دنیا و آخرت کی کامیابی کا دارومدار احکام خداوندی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ انور کی اتباع میں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے احکام کے بجا لانے والا بنائیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کی توفیق عطا فرمائیں، اپنا قیمتی وقت سیاسی بحث اور فضول کاموں میں صرف مت کریں، اللہ پاک اور حضورؐ کے احکامات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں، کامیابی اور ترقی آپ کے قدموں میں ہوگی۔ وقت اور حالات آپ کے اختیار میں نہیں لیکن یہ سب اللہ کا اختیار ہے، اس کے سامنے جھکنا ضروری ہے۔

جواب دیں

Back to top button