Column

اقتصادی خواب پھر ٹوٹ جائیں گے

صورتحال
سیدہ عنبرین
شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ایسے وقت میں پاکستان میں منعقد ہوا جب پاکستان کی اقتصادی حالت اطمینان بخش قرار نہیں دی جا سکتی۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں نصف قرضوں کی رقم ہے جو عالمی مالیاتی اداروں سے سخت شرائط اور کچھ قرضے ایسے ہیں جو بھاری شرح سود پر حاصل کئے گئے ہیں۔ زرمبادلہ کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو ہمارے خزانے میں موجود تو ہے لیکن ہم اسے چک سکتے ہیں نہ کسی برت سکتے ہیں۔ ان تمام حقائق کے ساتھ ہم نے شنگھائی تعاون تنظیم سے بہت سی توقعات کر رکھی ہیں۔ ماضی میں بھی ہم نے ایسے ہی خواب دیکھے جو بہت جلد ایک چھناکے سے ٹوٹ گئے، ایٹمی پاکستان کا خواب ایک جرنیل نے پورا کیا۔ اس کانفرنس کی اہمیت کے کئی پہلو ہیں، اس میں چار ایٹمی طاقتوں کے سربراہان حکومت یا نمائندے شامل ہیں، یہی اس خطے کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ ممبر ملکوں کے سربراہان حکومت کا اجلاس ہے لیکن بھارت نے اس میں اپنا وزیر خارجہ بھیج کر ہمیں احساس دلایا ہے کہ تمہاری اور تمہارے یہاں منعقد ہونے والے اجلاس کی میری نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے پاکستان روانہ ہونے سے قبل ہی اعلانیہ کہہ دیا کہ ہم پاکستان میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں صرف ایک ممبر کی حیثیت سے شرکت کر رہے ہیں، پاکستان کے ساتھ باہمی تعلقات بشمول علاقائی معاملات و تجارت کسی اور سلسلے میں گفتگو نہیں ہو گی۔ دوسری طرف پاکستان بھارت کے ساتھ تعلقات اور خصوصاً تجارت کیلئے بے چین نظر آتا ہے، جس کی کوئی بڑی وجہ تو نہیں لیکن پاکستانی تاجر برادری کی پسندیدہ حکومت اس طبقے کو خوش کرنے کیلئے تجارت شروع کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ یہ تجارت پاکستان کیلئے ہمیشہ ہی گھاٹے کا سودا رہی ہے، کیونکہ بھارت کی اشیا سستی ہیں، ہماری ہر پراڈکٹ مہنگی ہے، لہٰذا بھارت ہم سے کوئی ایسی چیز نہیں خریدتا جو وہ اپنے ملک میں بناتا ہے اور اس کا معیار ہم سے بہتر ہے۔ بھارت ہم سے کمایا ہوا زرمبادلہ ہمارے ہی خلاف پاکستان مخالف عناصر کی مالی معاونت میں استعمال کرتا ہے۔ کسی بھی تنظیم یا شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں اگر بھارتی وزیراعظم مودی، روس کے صدر پوتن، چین کے صدر شی ینگ تشریف لائیں تو اس کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ اس اجلاس میں ان قابل شخصیات میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔ بھارتی وزیراعظم تو اس اجلاس میں شریک ہو سکتا تھا کیونکہ وہ حکومت کا سربراہ ہے جبکہ دیگر دو شخصیات مملکت کی سربراہ ہیں۔ اس کانفرنس کا مینڈیٹ بھی یہی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا مرکزی خیال چین کی کاوش ہے۔ یورپی ممالک نے جب ’’ گریٹ سیون‘‘ کے نام سے ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا تو خیال پیدا ہوا کہ اس خطے میں بھی ایسی ایک تنظیم ہونی چاہئے جو اقتصادی امور کے ساتھ ساتھ دیگر اہم علاقائی ضرورتوں پر نظر رکھ سکے، جن میں دہشت گردی کی بیخ کنی، تجارت کو فروغ اور کمیونیکیشن کو ترقی دینے جسے اہم معاملات شامل ہیں۔
1996ء میں قائم ہونے والی اس تنظیم میں پاکستان طویل عرصہ تک ایک سفیر کے طور پر شریک ہوتا رہا، پاکستان کو اس میں شامل ہونے کا فیصلہ کرنے میں 19برس لگ گئے ،ہم امریکہ کی آنکھ کو دیکھتے رہے جو چاہتا تھا ہم تنظیم سے دور رہیں۔ 10جولائی 2015ء میں جب بھارت اس تنظیم میں شامل ہوا تو ہم بھی اس کا ممبر بنے، اس سے قبل چین، قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان اور روس اس کے بنیادی ممبر تھے۔ بعد ازاں اس میں ازبکستان شامل ہوا۔ تنظیم کے اجلاس روٹین میں ہر ملک میں ہوتے ہیں، اس کا 32واں اجلاس پاکستان میں اسی شیڈول کے مطابق ہو رہا ہے، جس کے انعقاد میں ہماری وزارت خارجہ نے کوئی بڑا تیر نہیں مارا۔ وہ اگر وزیراعظم مودی کو اس میں کھینچ لاتے تو یہ ان کی بڑی بڑی کامیابی شمار ہو سکتی تھی، بھارتی وزیراعظم کی کانفرنس میں عدم شرکت سے واضح پیغام ملتا ہے کہ بھارت اس کانفرنس اور پاکستان کے ساتھ باہمی تعلقات میں کتنا سنجیدہ ہے۔ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ بھارتی کرکٹ ٹیم سو نخروں کے بعد پاکستان سے کرکٹ میچ کھیلے اور عبرتناک شکست دیتی نظر آئے، اس سلسلے میں ہماری پالیسی عرصہ دراز سے دل جیتنے کی ہے، میچ جیتے کی نہیں۔
خطے میں متعدد علاقائی تنظیمیں کام کر رہی ہیں، پاکستان ان کا ممبر ہے۔ سارک، ریڈ، ای سی او قابل ذکر ہیں لیکن کسی بھی تنظیم کی کارکردگی ایسی نہیں جسے دیکھ کر خطے کے دیگر ممالک ان میں شامل ہونے کی خواہش کریں۔ ایسی تنظیموں میں شامل بڑی طاقتیں بڑے پراجیکٹ بڑے خواب لے کر آتی ہیں۔ فائدہ ان ملکوں کو ہوتا ہے جہاں مضبوط معیشت اور دیانتدار قیادت موجود ہو۔ عوام حکومت کی پشت پر کھڑے ہوں، ملک میں سیاسی و اقتصادی انتشار نہ ہو۔
چین کی بھرپور خواہش ہے کہ ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہوں، کیونکہ پاکستان کی اہمیت چین کیلئے ایسی ہی ہے جیسے اسرائیل کی اہمیت امریکہ کیلئے ہے، دونوں حکومتوں یعنی اسرائیل اور پاکستان کا طرز عمل یہ واضح کرنے کافی ہے کہ ہم اپنے مفادات کے ساتھ کس قدر مخلص ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم ہو یا کوئی اور فورم، اس میں شامل تمام ممالک مل کر دست تعاون ہمارے لئے دراز کر دیں، اپنے وسائل ہمارے لئے مہیا بھی کر دیں تو ہم ان سے کس قدر فائدہ حاصل کر سکتے ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ ہماری پالیسیاں کیا ہیں، ہم مہنگی ترین بجلی صنعتوں کو دے کر مہنگی ترین اشیا تیار کرتے ہیں، جو بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمت اور کوالٹی میں مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ ہم نے بجلی پیدا کرنے والے اداروں سے جو معاہدے کئے وہ مضحکہ خیز تھے، یعنی بجلی پیدا ہو یا نہ ہو، ہم خریدیں نہ خریدیں، استعمال کریں نہ کریں، اس کی ادائیگی برس ہا برس تک کرتے رہیں گے۔ ہماری 10سال کی کمائی ایک برس میں ’’ کیپسٹی پیمنٹ‘‘ کی مد میں یہ ادارے کھا گئے، ہم منہ دیکھتے رہ گئے۔ ہماری معیشت کے سوراخ جب تک بند نہ ہو ہونگے ہم کسی تنظیم، کسی بھی ملک سے حاصل کردہ کوئی فائدہ اپنی معیشت میں شامل نہیں کر سکتے۔ اقتصادی خواب پھر ٹوٹ جائیں گے۔

جواب دیں

Back to top button