کیا آئینی ترمیم کی ضرورت ہے ؟

نفیر قلم
محمد راحیل معاویہ
پاکستان معرض وجود میں آیا تو ہم نے برطانوی حکومت کا بنایا گیا 1935ء کا آئین ہند 14اگست 1947ء کے روز پاکستان میں نافذ کرلیا اور ساتھ ہی ایک حکم نامہ جاری کر دیا کہ برطانوی حکومت کے تمام قوانین پاکستان کے قوانین ہونگے اور اسی کے تحت جارج ششم 1952ء تک اور بعدازاں ملکہ برطانیہ 1956ء تک پاکستان کی آئینی سربراہ رہیں۔ بالآخر ہم نے 1956ء میں اپنا آئین بنا لیا۔ اپنا پہلا آئین بنانے کے بعد ہم اس قدر تھک گئے کہ قوانین کو چھیڑ ہی نا سکے۔1956ء کے آئین کے آرٹیکل 268کے ذیل میں لکھ دیا کہ برطانوی دور کے تمام قوانین پاکستان میں نافذالعمل رہیں گے۔ برطانیہ نے 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے غصے میں جو قوانین بنائے تھے ہم نے انہیں آزادی کے بعد بھی سینے سے لگالیا اور آزاد ہونے کے باوجود نوآبادیاتی دور کی ذہنی غلامی سے نکل کر آزادانہ قانون سازی نا کر سکے۔
1962 ء میں ایوب خان کو ملک میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا خیال آیا تو پھر سے ایک عدد آئین بنا دیا گیا لیکن اس کے آرٹیکل 268کے ذیل میں پھر سے وہی تحریر کر دیا گیا کہ برطانوی دور کے تمام قوانین ہمارے سروں کے تاج رہیں گے۔ 1973ء میں ملک کا موجودہ آئین بنایا گیا تو اس میں بھی بدقسمتی سے آرٹیکل 268کے ذیل میں یہی درج کیا گیا کہ پاکستان میں برطانوی دور کے تمام قوانین نافذالعمل رہیں گے تاوقتیکہ بدل دئیے جائیں۔
آج پاکستان کو بنے 77برس بیت چکے لیکن مجال ہے کہ ہم نے نوآبادیاتی نظام کے اس قانونی ڈھانچے کو سر سے اتار پھینکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہو۔ پوری دنیا میں قانون ساز ادارے بدلتے وقت کے ساتھ اپنے ملک کے قوانین کو وزٹ کرتے رہتے ہیں اور جدید وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالتے رہتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اسمبلی کے ایک اجلاس پر یومیہ 7کروڑ سے زائد خرچ ہونے کے باوجود بھی ہم پونے دو سو سال پرانے فرسودہ قوانین سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پائے ۔ ہمارے ہاں آج بھی سسٹم انہی قوانین پر کھڑا ہے۔ اس کی بنیاد اور اساس وہی گلا سڑا پرانا نظام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا سسٹم چلنا تو درکنار رینگنے سے بھی گریزاں ہے۔ ہمارا بیوروکریسی کے کام کرنے کا ضابطہ ہو یا1860 میں بننے والا پولیس ایکٹ، سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 1860ہو یا 1861کا فوجداری ایکٹ،مجموعہ فوجداری ایکٹ 1898 ہو یا لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894،پارٹنرشپ ایکٹ 1894ہو یا پیٹرولیم ایکٹ 1934،صنعتی شماریاتی ایکٹ 1942 ہو یا پنجاب بوائلر رولز ایکٹ 1926،فرم رجسٹریشن رولز 1932ہو یا قانون میعاد سماعت ایکٹ 1908،قانون معاہدہ ایکٹ 1876ہو یا مخصوص دادرسی ایکٹ 1877، یہ سب برطانوی دور کے فرسودہ ترین قوانین ہیں، جنہیں آج ہم نئی قانون سازی کے ذریعے موجودہ وقت کے تقاضوں کے مطابق بدل نہیں سکے۔
جائیداد کی منتقلی اس ملک میں انتہائی پیچیدہ اور فرسودہ کام ہے۔ جس کے لیے نسلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ اکثر اوقات دادا کیس کرتا ہے اور پوتا بڑی مشکل اور اگر خوش قسمت ہو تو اس کا فیصلہ سنتا ہے۔ ایک کیس کا فیصلہ ہونے کے لیے کئی دہائیاں گزر جاتی ہیں ۔ ایک کیس خاندان کے کئی افراد کی ساری زندگی کی کمائی لے جاتا ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ دن رات جدت، ترقی، انقلاب، آئی ٹی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی غزلیں سننے والے اس دور میں ہمارا نظام جائیداد کی منتقلی کس قانون کے تحت کر رہا ہے؟۔
ہمارا انتقال جائیداد کے لئے نافذالعمل قانون 1882ء میں انگریز دور کا بنا ہوا قانون ہے۔
ہمارے پاس عدالتوں کو چلانے کے لیے جو قوانین میسر ہیں وہ 1940ء اور 1960ء کے بنے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا عدالتی نظام اس قدر فرسودہ ہوچکا ہے کہ یہاں سے انصاف لینا آگ کے کنویں میں چھلانگ لگانے کے مترادف ہے۔ 80 فیصد سے زائد لوگ ہماری عدالتوں میں الجھے ہوئے ہیں اور ریاست کے پاس بھی کسی کو پھنسانے کا آسان ترین حل عدالتی چنگل میں پھنسانا ہے۔ ہماری یہ عادت بھی ہمیں برطانوی دور سے ورثے میں ملی ہوئی ہے۔
آج نچلی عدالت سے کیس کو سپریم کورٹ تک پہنچنے میں کم از کم 20سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ اس دوران کئی لوگ مر جاتے ہیں اور کئی نئے پیدا ہوجاتے ہیں۔ بساں اوقات لوگ جیلوں میں پڑے پڑے مر جاتے ہیں اور انکی موت کے کئی سال بعد جاکر سپریم کورٹ میں ان کی اپیل لگتی ہے۔
آئین پاکستان میں بڑا واضح ہے کہ پاکستانی عدالتیں مکمل آزاد ہونگی۔ ہر شہری کو سستا اور آسان انصاف میسر ہوگا۔
سوال یہ ہے کی کیا آج تک کسی کو اس ملک میں آسان اور سستا انصاف میسر ہوسکا ہے؟۔
آج 51برس گزرنے کے بعد بھی ہم اپنی قوم کو سستا اور آسان انصاف دینے سے عاری ہیں جبکہ آئین کے بنیادی حکم پر عمل پیرا ہونے سے بھی گریزاں۔
آج بھی 24لاکھ سے زائد کیسز عدالتوں میں التواء کا شکار ہیں۔ روزانہ 70ہزار نئے کیس رجسٹرڈ ہورہے ہیں۔ لاکھوں کیسز کو سننے کے لیے ہمارے پاس صرف 4000جج موجود ہیں۔دنیا بھر میں ہر 10لاکھ افراد کو 90جج میسر ہوتے ہیں جو انکے مابین فیصلے کرتے ہیں اور انصاف قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں 10 لاکھ لوگوں کے لیے محض 13 جج میسر ہیں۔ دنیا نے ADRسسٹم کے نام پر اپنے ہاں مصالحتی نظام کو اتنا مضبوط کرلیا ہے کہ ان کے 90فیصد کیس عدالتوں میں جانے سے پہلے ہیں حل ہوجاتے ہیں جبکہ ہم نے اپنے اچھے خاصے پنچایت اور جرگہ سسٹم کو صرف اس احساس کمتری میں تباہ کر دیا ہے کہ اس کا نوآبادیاتی دور سے کوئی تعلق نہیں۔
آج بھی ہماری ترجیح اپنے اقتدار کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے آئین میں ترمیم تو ہے لیکن پونے دو سو سالہ پرانے درجنوں قوانین پر لگے زنگ کو اتارنے کی کسی کو کوئی پروا نہیں ؟
کیونکہ اس کا تعلق عام آدمی کے مسائل سے ہے۔ یہ اقتدار دھینگا مشتی میں کسی کو عنوان اور نقطہ بحث ہی نہیں۔
یہ اہل اقتدار کی بے حسی اور غریب عوام کی بے بسی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟
آئینی عدالت کا قیام عمل میں لانے سے اس عدالتی نظام میں واقعی بہتری لائی جاسکتی ہے لیکن صرف اس صورت میں کہ اس کارخیر کے پیچھے کسی قسم کی کوئی سیاسی چال کارفرما نہ ہو۔۔۔۔
اس کے لیے کسی قسم کا کوئی وقتی فائدہ حاصل کرنا مقصود نا ہو۔ اگر حکومت کی ایسی کوئی نیت نہیں تو انہیں اس کے لیے قاضی فائز عیسیٰ کی ضد کو ترک کرکے ان کی بجائے تمام ایسے ججز کو لگانا چاہئے کہ جس پر تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہو۔ پہلی بار بھی ملک کے کسی ایسے قانون دان کو چیف جسٹس بنانا چاہئے کہ جو تنازعات کے داغ سے پاک ہو۔ اس کی تقرری کا اختیار محض صدر اور وزیراعظم کو دینے کی بجائے تمام پارلیمانی پارٹیوں کے نمائندوں پر بنائی گئی کمیٹی کے سپرد کرنا چاہئے۔ ان ججز بشمول چیف جسٹس کا پہلے سے کوئی سیاسی تعلق واسطہ نا ہو اور تمام سیاسی جماعتیں انہیں آئین و قانون کے معاملے میں آزاد اور غیر جانبدار سمجھتے ہوں۔ موجودہ حکومت کو چاہئے کہ وہ یہ باور کروائے کہ اس ترمیم کو لانے کا مقصد پہلے سے دائر کسی بھی کیس پر اثرانداز ہونا یا نئے کسی کیس سے فائدہ حاصل کرنا نہیں۔
اپوزیشن کو بھی سمجھنا ہوگا کہ قانون ساز ادارے کا کام ملک کو درپیش حقیقی مسائل کا ادراک کرتے ہوئے اس کی روک تھام کے لیے قانون سازی کرنا ہے۔ اپوزیشن کو چاہیے کہ ملک کی بہتری اور عدالتی نظام میں اصلاحات کے لیے انہیں سنجیدگی سے اس بحث کا حصہ بننا چاہئے۔ تمام جماعتوں کو اپنے سیاسی اختلافات پس پشت ڈال کر عوام کے درد کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ اگر آپ کی انائیں اور نفرتیں آپ کو اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتیں تو آپ کو مستعفی ہوکر حلقے کی نمائندگی کسی اور کے سپرد کردینی چاہئے کیونکہ یہ عوام کے ساتھ ظلم اور دھوکہ ہے کہ آپ اس کے دئیے گئے ٹیکس سے تنخواہ و مراعات تو قانون سازی کی ڈیوٹی ادا کرنے کی لیں جبکہ اپنی ڈیوٹی کرتے وقت آپ اس کا حق ادا ہی نا کر پائیں۔