Column

مجھ سے تنہا کے مقابل تیرا لشکر نکلا

صفدر علی حیدری

کہتے ہیں کسی ریاست کا حاکم حج پر جانے لگا تو اس نے اپنے ایک وزیر کو قائم مقام سربراہ بنا دیا۔ کچھ عرصے کے بعد وہ اپنی ریاست واپس آیا تو وہاں کا تو نقشہ ہی بدل چکا تھا۔ ریاست کی حدود پھیل چکی تھیں، ملک میں امن کا دور دورا تھا۔ رعایا پہلے کی نسبت نہ صرف خوش حال بلکہ حکومت سے خوش بھی تھی۔ ایک تبدیلی یہ ہوئی کہ بادشاہ نے جس کو اپنا قائم مقام مقرر کیا تھا وہ جیل میں تھا اور اس کی جگہ لینے والے نے ریاست کی کایا ہی پلٹ کر رکھ دی تھی ۔ بادشاہ کو بتاتا گیا کہ بغاوت کے نتیجے میں یہ سب ہوا۔ بادشاہ نے تخت پر بیٹھتے ہی اس کی دہائی کا اعلان کیا اور ساتھ ہی ایک اور حکم بھی صادر فرمایا۔ اس نے بغاوت کے مرتکب افراد کو جیل میں ڈالنے کا حکم دے دیا ۔ ایک وزیر نے جان کی امان پا کر اس کا سبب پوچھا، تو بادشاہ نے کہا میں نے جس کا اپنا قائم مقام بنایا تھا، اگر اسے کام کرنے دیا جاتا تو وہ مملکت کو اس سے بہتر چلا لیتا۔ مجھے اس ریاست کی کوئی ضرورت نہیں جہاں میرا حکم نہ چلتا ہو ۔ اگر آپ نے اپنا سکہ ہی چلانا تھا تو گند ڈالنے کی کیا ضرورت تھی۔ آپ جن کو لائے تھے وہ بھی یہ کام کر سکتے تھے ۔ بلکہ اس سے بہتر طور پر کر سکتے تھے مگر برا ہوا ایڈونچر ازم کا۔ اب وہ گلے پڑ چکا ہے۔
فراز نے کہا تھا
میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا
قرعہ فال میرے نام کا اکثر نکلا
یہ تو اس ریاست کا احوال ہے جہاں جمہوریت نہیں تھی۔ آپ پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں تو آپ کو محسوس ہو گا کہ یہاں پر بھی صورت حال یہ ہے کہ عوام کی مرضی بر خلاف ایک ایسی غیر مقبول حکومت قائم ہے جس کو عوام کی غالب اکثریت پسند نہیں کرتی۔ تجربہ کار لوگوں کے اس جتھے نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔
ایک مقبول لیڈر کو حکومت سے باہر رکھ کر انھوں نے اقتدار تو حاصل کر لیا مگر اقدار کا خون کر ڈالا ہے۔ دو ڈھائی سال قبل جب ایک چلتی ہی حکومت کو چلتا کیا گیا تھا تو stick holdersکا عمموی خیال یہ تھا کہ اب ملک میں ہر طرف خوش حالی کا دور دورہ ہو گا۔ ملک ترقی کی راہ پر دوڑنے لگے گا۔ تجربہ کاروں نے یہاں دودھ اور شہد کی ندیاں بہا دینی ہیں مگر ۔۔۔۔ انہیں اس نیک کام کو انجام دینے کی بڑی جلدی تھی ۔
سرائیکی میں کہتے ہیں ’’ جتے ہوئے بیل کو لاٹھی نہیں مارتے ‘‘ جلد باز stick holdersکو مگر کون سمجھاتا ۔ اب صورت یہ ہے ان کو یہ جلدبازی گلے پڑ گئی ہے ۔ ’’ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن‘‘ شاید اسی موقع پر کہتے ہیں۔
انگریز قوم نے آدھی دنیا پر حکومت کی ۔ ان کی کامیابی کا راز یہ تھا کہ وہ خواب اونچے دیکھتے تھے مگر قدم چھوٹے اٹھاتے تھے ۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ واپسی آسان ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں کے طاقتوروں نے یہاں پر بھی سنگین غلطی کر ڈالی۔ خواب بڑا تھا مگر قدم بھی بڑا اٹھا لیا گیا ۔
اب صورت یہ ہے کہ میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔
عدالتوں سے اپنی مرضی کا فیصلہ کروانے کے لیے رات کے بارہ دروازے کھول دئیے گئے ۔ ایک دس بارہ سال کے بچے نے اس پر بڑا خوب صورت تبصرہ کیا تھا۔ کسی صحافی نے اس سے سوال کسی کیا کہ عدالتیں آزاد ہیں جو چاہیں کریں، اس پر اس نے کہا تھا ’’ میں تو انھیں تب آزاد مانوں گا جب یہ کسی غریب کو انصاف دلانے کے لیے رات کو کھلیں گی ‘‘۔عدالتیں ہوں یا الیکشن کمیشن وہاں جو ڈرامے ہوئے قوم کی نظریں میں ہے۔
جب عدالتیں، عداوتوں پر اتر آئیں، جب تعصب ، جانب داری اور بغض قدم میں انسان سے اونچا ہو جائے، جب عہدے پر رہ کر نیک نامی کمانے کی بجائے اپنی میعاد بڑھانے کی عامیانہ سوچ غالب آ جائے تو پھر نہ انصاف ہوتا ہے نہ انصاف ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔
ہمارے دوست ہنس مکھ چشتی کے بقول انصاف تب ہوتا ہے جب ’’ ان ‘‘ صاف ہو ۔ جب باطن میں صفائی نہ ہو تو پھر باہر بھی گند ہی پھیلے گا۔ بقول ڈاکٹر وحید اظہر ’’ اندر کشادگی نہ ہو باہر کشیدگی پھیل جاتی ہے ‘‘ اور یہ کشیدگی اور نا انصافی ہم معاشرے میں ہر جگہ دیکھ رہے ہیں۔ جس ملک میں نام نہاد سیاسی حکومت جلسے جلوسوں کی اجازت نہ دے ، احتجاج سے جس کی سانسیں پھول جائیں، سوال جسے بوکھلاہٹ کا شکار کر دیں، جہان مخالفت کا خوف آپ کو انٹر نیٹ سروس بند کرنے یا اس کی رفتار کو انتہائی سست کر دینے پر مجبور کر دے ۔ اب کیا ذکر کیا جائے اور اس جماعت سے کیا گلہ کیا جائے جس نے آج تک احتجاج کی عوامی سیاست کی ہی نہ ہو۔ افسوس تو زرداری کی جماعت پر ہے کہ پیپلز پارٹی تو ہمیشہ عوام کی بات کرتی ہے۔ عوامی پارٹی ہونے کا دعوی کرتی ہے ، وہ بھی اس سب پر خاموش ہے۔ اپنا حصہ بقدر جثہ لے کر وہ خاموش ہے ، خواب غفلت کا شکار ہے۔
عوام کو روزی روٹی کے چکر میں ایسا الجھایا گیا ہے کہ وہ احتجاج کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ سوشل میڈیا پر بنگلہ دیشی طلباء کی مثال دے کر عوام کو غیرت دلانے کی کوشش کی گئی تو ایک حکومتی وزیر نے ہنستے ہوئے طنز فرمایا کہ یہ بنگلہ دیش نہیں پاکستان ہے۔ گویا یہ باور کروایا گیا کہ پاکستانی عوام میں ایسی غیرت کہاں ؟
قصہ مختصر ملک کا مقبول ترین سیاست دان پابند سلاسل ہے۔ اس کو فارم سینتالیس کے ذریعے اقتدار سے باہر کر کے بھی وہ راضی ہیں نہ عوام ان سے خوش ہیں ۔ قیدی ڈٹا ہوا ہے کہ رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا یےہارنے والے جیت کا جشن کیسے منائیں ؟، اس کو کھیل سے باہر رکھنا ممکن نہیں کہ کھیل تو کھیل وہ رہا ہے جو بظاہر کھیل سے باہر دکھائی پڑتا ہے ۔
سب جانتے ہیں کہ اس کے بغیر کام نہیں چلنے والا ۔ اس کو شریک کیے بنا بات نہیں بننے والی۔ یہ بات سمجھی جا چکی ہے کاش مان بھی لی جائے گی۔ انگریز چھوٹے قدم اٹھاتے ہیں کہ واپسی آسانی سے ہو سکتی ہے مگر جنہوں نے بڑے قدم اٹھائے ہیں انھیں واپسی میں مشکل کا سامنا ہے مگر اس کے بنا کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔ ہار مان مزید ہارنے سے بچا لے گا۔ ہٹ دھرمی کبھی فائدہ نہیں دیتی۔ ماننا ہو گا ، دنیا بھی مان چکی ہے ایک اکیلے نے سب کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ حکمت کہتی ہے سیلاب کا سامنا ہو تو اس کے آگے بند نہیں باندھتے ، اسے راستہ دیتے ہیں۔ ورنہ وہ اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے۔ اور تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ حکمت کی بات کرنا جتنا آسان ہوتا ہے، اس کر عمل کرنا اتنا ہی مشکل۔موجودہ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ تمام تر ریاستی جبر کے باوجود ایک شخص سب پر بھاری ہو گیا ہے۔
فراز نے شاید سچ ہی کہا تھا
تو یہیں ہار گیا ہے میرے بزدل دشمن
مجھ سے تنہا کے مقابل تیرا لشکر نکلا

جواب دیں

Back to top button