لوکل چی گویرے

سی ایم رضوان
صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب و رہنما مسلم لیگ ن عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ احتجاج کے دوران انقلابیوں کا چی گویرا کارکنان کو چھوڑ کر اچانک غائب ہو گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے علی امین گنڈا پور کی گمشدگی کا ڈرامہ رچایا، انقلابیوں کا چی گویرا کہہ رہا تھا ہم آ رہے ہیں پھر وہ اچانک غائب ہو گیا، خیبر پختونخوا کے لوگ ڈھونڈ رہے تھے کہ ہمارا چی گویرا کہاں گیا، وہ چی گویرا پھر اچانک خیبرپختونخوا اسمبلی میں نمودار ہوا۔ انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈاپور اسمبلی میں کھڑے ہو کر آئی جی اسلام آباد کو دھمکیاں دے رہے تھے، اتنی ہمت تھی تو سڑک پر کھڑے ہو کر آئی جی اسلام آباد کا سامنا کرتے، پتا نہیں کون سی دوائیاں کھا کر یہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک ہفتے سے ملک میں آگ لگانے کی تیاری ہو رہی تھی، ملک میں جلائو، گھیرائو کی ساری پلاننگ اڈیالہ جیل سے ہوتی ہے، کیا اڈیالہ سے کبھی خیر کی خبر آئی ہے؟ کیا کبھی اڈیالہ کے باسی نے کہا ہے کہ کے پی میں پل بنا دو، کبھی اڈیالہ کے باسی نے کہا ہے وزیر اعلیٰ کی کرپشن کی داستانیں آ رہی ہیں، ایک شخص ہی پوری پارٹی کے فیصلے کرتا ہے۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ پنجاب میں تین چار بڑے بڑے کام ہو رہے تھے، سات ماہ کے اندر وزیر اعلیٰ مریم نواز کے درجنوں پروگرام مکمل ہو چکے ہیں، دوسری طرف فساد اور فتنہ پلان ہو رہا تھا۔ گزشتہ 12 سال سے خیبر پختونخوا کے وسائل وفاق پر چڑھائی کیلئے استعمال ہو رہے ہیں لیکن اس کو پی ٹی آئی کے لوگ بڑے انقلاب کا نام دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علی امین گنڈاپور نے انقلاب کا اعلان کر دیا حالانکہ کیا اس سے پہلے جو تحریک انصاف انقلاب لانے کا دعویٰ کر رہی تھی وہ دعویٰ جھوٹا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں وہ انقلاب خیبر پختونخوا میں لا چکے ہیں ان کی دانست میں اب پنجاب کی باری ہے۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے لائے گئے انقلاب کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ شام ایک مریض کو ڈیرہ اسماعیل خان لے جانے کی ضرورت پڑی تو کوئی بھی ٹیکسی ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے درمیان سفر کرنے کے لئے راضی نہیں تھا کیونکہ اس وقت خیبر پختونخوا میں تھوڑے سے اندھیرے میں بھی سفر خطرے سے خالی نہیں رہا حالانکہ دن کے اجالے میں بھی خطرے ہی خطرے ہیں۔ کے پی میں تحریک انصاف کے لائے گئے انقلاب کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت پولیس فورس سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہے اور پولیس فورس کی اپنی زندگیاں تو کیا ان کے خاندان والوں کی زندگیاں بھی خطرات سے دوچار ہیں۔ اس میں پی ٹی آئی سمیت کسی سیاسی جماعت کا کیا کردار ہو سکتا ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں کٹھ پتلیوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ خود بانی پی ٹی آئی کی تقاریر اب بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جب انہوں نے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا کردار ادا کیا تھا۔ کسی بھی صوبے کی بنیاد ضلعوں کے انتظامی حالات پر قائم رہتی ہے لیکن خیبر پختونخوا کا ہر ضلع انتظامی طور پر بیٹھ چکا ہے۔ بیورو کریسی کی حالت یہ ہے کہ پہلے کمشنز وغیرہ سے کام چلا لیتے تھے لیکن اب ترقیاتی منصوبوں کے پیسے ریلیز کرانے کے لئے بارہ فیصد الگ سے لیتے ہیں۔
جبکہ ضلعی ایڈمنسٹریٹرز کے پاس اتنا بھی فنڈ نہیں ہوتا کہ وہ کسی قدرتی آفت بالخصوص سیلاب وغیرہ کے وقت فوری اور ابتدائی کام شروع کرا سکیں کیونکہ کے پی کے میں ہر سال تباہ کن سیلاب آتے ہیں۔ علی امین کا انقلاب خود اس کے آبائی گاں کے لئے سیلاب بن چکا ہے۔ اس وقت کلاچی تحصیل کے گنڈاپور علاقے کے حالات ناقابلِ بیان ہیں اور بجائے اس کے کہ موصوف اپنے علاقے کی فکر کریں، وہ گاڑی پر چڑھ کر پنجاب پر چڑھائی کر دیتے ہیں اور پھر اچانک غائب بھی ہو جاتے ہیں۔ پچھلے واقعے میں جب گنڈاپور صاحب اسلام آباد سے مسنگ ہوئے تو ایک دوست نے مسیج کیا تھا کہ پی ٹی آئی کے فلاں فلاں لوگ گرفتار ہوئے ہیں جبکہ گنڈاپور غائب ہیں ان کے لوگ کہتے رہے کہ ان کو غائب کر دیا گیا حالانکہ ایسا کچھ بھی نہ ہوا اور اگلی صبح وہ کہیں پشاور میں ہاتھ جھاڑ کر منظر عام پر آ گئے اور خوب دھاڑے۔ انقلابی وزیر اعلیٰ کی خوش قسمتی دیکھیں کہ ان کی جماعت کے فالورز کو اتنی صاف دکھائی دینے والی چیزیں بھی نظر نہیں آتیں اور گنڈاپور انقلاب کی مسند پر بیٹھنے کا اعلان بھی فرما دیتے ہیں۔ گنڈا پور اپنی انقلابی سوچ کو توسیع دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم قبائل سے کہتے ہیں کہ وہ جرگے کریں اور قبائل کا نام استعمال کر کے دھمکی بھی جاری فرما دیتے ہیں حالانکہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ گنڈاپور کی دھمکی بھی مصنوعی ہوتی ہے لیکن یہ بات ان کے علم میں لانا ضروری ہے کہ قبائل اپنے موجودہ حالات میں تحریک انصاف کے حصے کا سارا سچ جانتے ہیں۔ ہمارے بعض دوست بالخصوص پنجاب کے دوست اس بات پر غصے کا اظہار کر رہے ہیں کہ قبائل کی چڑھائی کی دھمکی دی ہے تو ان دوستوں کے لئے پہلی بات تو یہ ہے کہ گنڈاپور کا قبائل سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہاں کے رواج اور روایات میں کسی بھی سیاسی پارٹی یا لیڈر سے کوئی تعلق نہیں رکھا جاتا اور جو فیصلہ ہوتا ہے وہ علاقائی نفع و نقصان کو مدِنظر رکھ کر ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت قبائل کو خود بہت سے مسائل کا سامنا ہی۔ روزانہ کی بنیاد پر بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگز ہوتی ہیں جبکہ انقلاب لانے والوں کی زبانوں کو تالے لگے ہوئے ہیں تو کیا قبائل ایک ایسے مشکل وقت ساتھ نہ دینے والے کسی لیڈر کے لئے جرگے کریں گے؟ ہاں جرگے بھی ہوں گے لیکن روایتی قبائلی جرگے نہیں ہوں گے البتہ رنگ برنگے انصافی کارکن بیٹھ کر جرگوں کا تاثر دینے کی ضرور کوشش کریں گے کیونکہ تحریک انصاف پراپیگنڈہ کرنے میں کافی مہارت رکھتی ہے۔
راولپنڈی کے احتجاج سے پہلے گنڈاپور صاحب کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں کہ وہ وہاں جا کر آسمان اور زمین کو ملا دیں گے لیکن ہوا کیا؟ آدھے راستے سے واپس اپنے ٹھکانے کو آ گئے۔ اس بات کی حمایت نہیں کہ تحریک انصاف کو پنجاب میں انقلاب نہیں لانا چاہئے یا ان کو احتجاج کرنے کا
حق نہیں ہے لیکن اس بات پر اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ پہلے اپنے گھر کی طرف کیوں نہیں دیکھا جارہا؟ کیا خیبر پختونخوا کے عوام کو یہ حق نہیں کہ انہوں نے جن کو ووٹ دیا ہے وہ ان سے اپنے ووٹ کے بدلے بنیادی سہولیات کا تقاضا کر سکیں؟ ٹھیک ہے بانی پی ٹی آئی کو انصاف ملنا چاہیے لیکن خیبر پختونخوا میں روزانہ کی بنیاد پر جو اموات ہو رہی ہیں۔ کیا ان قیمتی جانوں کے ضیاع سے زیادہ وزارت عظمیٰ کی کرسی ضروری ہے؟ یوں لگتا ہے کہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کے پی کے کی صوبائی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
دوسری طرف نواز شریف کے سابق دور کے آخر میں بانی پی ٹی آئی نے کنٹینرز کی جو روایت اور سیاست شروع کی تھی وہ انتہائی بدصورتی کے ساتھ اب بھی جاری ہے اور تازہ سپیل میں تو کئی ہفتے گزر گئے ہیں مگر اسلام آباد کی سڑکوں کے کنارے آج بھی کنٹینر پڑے ہیں تاکہ انتشار پھیلانے والی پارٹی کے کسی بھی احتجاج کی بِھنک پڑے تو یہ کنٹینر فوری طور پر سڑکوں کے بیچ رکھ کر راستے بند کیے جا سکیں۔ اب تو جڑواں شہروں کے باسی بھی اس معمول کے عادی ہو گئے ہیں کہ جیسے ہی شہر کی انتظامیہ کو کسی ناخوشگوار صورتحال کی کوئی اُڑتی خبر ملے وہ شہر سیل کر دیں جبکہ دوسری طرف سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے یا مظاہرین نہ ہونے کے باوجود سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں بانی پی ٹی آئی کے سینکڑوں حامی ہاتھوں سے کنٹینر دھکیلتے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت کا جھوٹا واویلا جاری ہے مگر دوسری طرف بانی پی ٹی آئی کی قید کا ایک برس گزر جانے کے باوجود تحریک انصاف کے بانی پاکستانی سیاست میں زیرو کے مقام پر کھڑے ہیں۔ اقتدار کے ہما کو اپنے کندھے سے اڑا دینے والے بانی پی ٹی آئی اب حکومت دینے والے کاریڈور سے مستقل طور پر ٹھکرا دیئے گئے ہیں۔ عدالتی ریلیف کے بعد فوج کی حراست میں دیئے جانے کا خدشہ تاحال پوری شدومد سے موجود ہے کیونکہ ان کے چاہنے والوں کو پاک فوج ڈیجیٹل دہشت گرد قرار دے چکی ہے۔ خود اُن پر کرپشن اور ریاستی راز افشا کرنے جیسے الزامات ہیں۔ گو کہ وہ اپنے خلاف تمام الزامات کو سیاسی مقدمات قرار دیتے ہیں۔ زیادہ تر مقدمات میں انہیں دی گئی سزائیں معطل بھی ہو چکی ہیں اور اقوام متحدہ کے ایک ورکنگ گروپ نے یہ
اعلان تو کر دیا ہے کہ انہیں جبری حراست میں رکھا گیا ہے مگر اس سب کے باوجود مستقبل قریب میں اُن کے جیل سے باہر آنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ زیادہ تر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے جب تک پاکستان کی سیاسی طور پر طاقتور فوج نہیں چاہے گی وہ باہر نہیں آ سکتے مگر اس حقیقت کا ادراک ہونے کے باوجود ان کے چاہنے والے ہر وقت امید سے رہتے ہیں اور جھوٹے انقلاب کے لئے جھوٹے احتجاج کرنے سے باز نہیں آئے۔ یہاں تک کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے سٹیج سے اعلان کر دیا ہے کہ سنو پاکستانیو، اگر ایک سے دو ہفتوں کے اندر اندر عمران کو قانونی طور پر رہا نہ کیا گیا تو خدا کی قسم ہم خود ان کو رہا کروائیں گے۔ انہوں نے پرجوش ہجوم سے للکارتے ہوئے یہ بھی پوچھا کہ کیا آپ تیار ہیں؟ ان کی تیاری کا یہ عالم ہے کہ وہ پولیس اور گرفتاریوں سے اتنا دور بھاگتے ہیں گویا پی ٹی آئی اور حکام کے درمیان بلی اور چوہے کا کھیل جاری ہے۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی نیوز چینلوں پر تحریکِ انصاف کے رہنماں کے خلاف کریک ڈائون کی خبریں تو نشر ہوتی ہیں مگر جو ملک دشمنی اور گھٹیا دشنام طرازی یہ پی ٹی آئی قائدین سوشل میڈیا پر کرتے ہیں وہ مین سٹریم میڈیا پر ایک مخصوص پالیسی اور مخصوص مفاد کے تحت پوری نشر یا کاسٹ نہیں ہوتی۔ حکومت کی اصولی امن کے قیام کے لئے کی گئی کوششوں کو ریاستی جبر کے طور پر مین سٹریم میڈیا میں پیش کیا جاتا ہے اور جعلی چی گویروں کے گرد کیمرے اور موبائل فون اٹھائے صحافیوں اور صحافی نما سیاسی کارکنان کا ہجوم ہوتا ہے۔ گزشتہ روز مبینہ طور پر تحریکِ انصاف سے وابستہ قومی اسمبلی کے ایک رکن شعیب شاہین کے دفتر کے اندر فلمائی گئی سی سی ٹی وی فوٹیج میں کئی باوردی پولیس اہلکار ان کے کمرے میں داخل ہو کر انہیں باہر دھکیلتے تو نظر آتے ہیں مگر موصوف کی ان مصروفیات کا ذکر کہیں نہیں آتا جو سراسر ملک دشمنی اور گھٹیا سیاست کے زمرے میں آتی ہیں۔ کون کون گرفتار کر لیا گیا ہے اور کون بچ گیا، اس بارے میں واٹس ایپ گروپس میں عجیب کنفیوژن پھیلتی نظر آتی ہے تاہم بعد ازاں پتہ چلتا ہے کہ سب کو چھوڑ دیا گیا ہے یا انہیں عدالت نے ریلیف دے دیا ہے۔ ان حالات میں بھی یہ لوکل چی گویرے جھوٹا شور ڈالنے پر بضد ہیں۔