ColumnTajamul Hussain Hashmi

فل ٹائم سیاست دان ہوں

تجمل حسین ہاشمی
آصف زرداری صاحب مسکرائے اور بولے کہ سنو میں فل ٹائم سیاستدان ہوں ، میں چاہوں تو سیاسی رازوں سے پردہ اٹھا کر اس ملک کی سیاست میں بہت بڑے طوفان لا سکتا ہوں لیکن میں سیاسی ہوں، راز افشاں کرکے صرف ایک دن کی سیاست نہیں کرنا چاہتا۔ آصف علی زرداری بولے کہ تمہیں پتہ ہے کہ جیل کی زندگی قیدی کا روزانہ امتحان لیتی ہے، آپ کو روزانہ ان طاقتور لوگوں سے لڑکر زندہ رہنا پڑتا ہے جنہوں نے اپ کو جیل میں ڈالا ہوا ہوتا ہے تاہم خدا نے میرے اندر ایک ایسی طاقت بھر دی تھی جس کی وجہ سے وہ جیل کی زندگی کو بڑے صبر اور بہادری کے ساتھ جھیل رہے تھے۔ انہوں نے جیل میں آنے سے پہلے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ان کے اندر اتنی بہادری آ جائیگا۔ آصف زرداری کہنے لگے کہ جیل نے انہیں ایک عجیب سی توانائی دی ہے جو انہیں جھکنے نہیں بلکہ طاقتور لوگوں سے لڑنے کیلئے ہروقت تیار رکھتی ہے۔ اصل بہادری یہ نہیں کہ کسی کو پوری طاقت کے ساتھ کچل دیا جائے جیسا کہ وہ جیل جانے سے پہلے خود بھی یہی سوچتے تھے تاہم جیل میں رہنے کے بعد انہوں نے یہ سیکھا ہے کہ اصل بات یہ ہوتی ہے کہ آپ اپنے سامنے کھڑے طاقتور شخص کے مکے اور ڈنڈے کیسے برداشت کرتے ہیں، جو وہ آپ پر برسا رہا ہے۔ چار اپریل 1979کے دن بھٹو صاحب کو پھانسی دینے کے بعد ان کے خاندان کے ساتھ جو ہوا اس کے مقابلے میں یہ تو کچھ بھی نہیں تھا جو ان کے ساتھ ہورہا تھا۔ آصف علی زرداری کو جیل بھیجنے والے جو بھی تھے، ان سے زرداری صاحب کی بدلہ لینے کی آرزو نہیں رہی۔ سب کو معاف کر دیا۔ کتاب "ایک سیاست کئی
کہانیاں”سے اقتباس، بلکہ زرداری صاحب آج بھی اقتدار میں ہیں اور موجودہ حکومت ان کی مرحوم منت ہے۔ ماضی کے سیاسی حریفوں کو بھی اندازہ ہوچکا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے مرہون منت، وفاق میں حکومت کر رہے ہیں۔ زرداری صاحب کی سیاسی بصیرت نے مسلم لیگ ن کو کمزور ثابت کر دیا ہے ۔ آج وفاق میں مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی کے سہاروں پر کھڑی ہے۔ تحریک انصاف کو زرداری صاحب کی سیاسی بصیرت سے فیض یاب ہونا چاہئے، اپنی ضد کو چھوڑ کر آصف علی زرداری صاحب سے تعلقات استوار کرنے چاہے ۔ سیاسی قیدیوں کے حالات آصف علی زرداری صاحب سے زیادہ کون جان سکتا ہے ۔ ان کے بچوں کیلئے والد کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ آصف علی زرداری نے ماضی کے تمام کرداروں کو معاف کر کے ایک قدم آگے بڑھنے کے عزم کا اعلان کیا، بے نظیر کی شہادت کے دن ملک کی سلامتی کا نعرہ لگایا ۔ سیاسی پارٹیوں پر مشکلات آتی رہیں۔ وہ جمہوری نظام کی بہتری یا پھر اپنے مفادات کیلئے کمپرومائز بھی ہوتی رہی۔ بے نظیر وزیر اعظم پاکستان تھی
اور اس کے دور حکومت میں بھائی کا قتل ہوا۔ میاں نوازشریف کے ہوتے ہوئے چھوٹے بھائی وزیر اعظم ہیں جو کبھی اس بات پر راضی نہیں تھے۔ مثالی لیڈر کو پھانسی دیدی گئی، جس نے ملک کی سلامتی کیلئے وہ اقدامات کئے جو رہتی دنیا تک قائم رہیں گے۔ ہماری آزادی کے بانی علاج سے محروم رہے۔ قومی مفادات کو مقدم رکھا۔ یہ سب کچھ تاریخ ہے۔ حقیقت ہے۔ بانی تحریک انصاف ان سب باتوں سے واقف ہے۔ آصف علی زرداری کی بات میں دم ہے کہ وہ فل ٹائم سیاست دان ہیں۔ یہ ڈائیلاگ عمران خان کیلئے مشعل راہ ہے، اگر وہ اپنی سوچ سے باہر نکل کر سوچیں وہ بھی فل ٹائم سیاست دان بنیں ، تبدیلی کیلئے سسٹم کا حصہ بنانا پڑے گا ، انقلابی مائنڈ سیٹ سے باہر نکل کر تعمیری مائنڈ سیٹ پر کام کرنا ہوگا۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ملک کے عسکری اداروں کا کردار بہت اہم ہے۔ میکاولی لکھتا ہے کہ ریاست کی مضبوطی کیلئے آرمی اور قوانین کی مضبوطی ضروری ہے لیکن موجودہ حالات سے لگتا ہے کہ یہ اقتدار و اختیار کی کشمکش کبھی ختم نہیں ہوگی، قوم جن سہولیات و سکون کی متلاشی ہے کبھی ممکن نہیں ہونگی۔ قوم کے پاس محمد علی جناح کی آزادی اور ذوالفقار علی بھٹو کا دیا فخر ہی پائندہ باد رہے گا مارکیٹ میں ویگو ڈالا بھی چلتا رہے گا۔ سب ٹھیک ہو جانے کی امید پر امید ہی رہیں گے ۔ یہ 62فیصد سود کہنی کا نہیں رہنے دے گا، 30فیصد 30سال کا نوجوان روزگار کیلئے مارا مارا پھر رہا ہے، وہ کشکول جس کا وزیراعظم کافی ذکر کرتے ہیں کبھی الٹا نہیں ہوگا، قرضوں پر انفراسٹرکچر بنانے والوں کا جیب خرچ چلتا رہے گا۔

جواب دیں

Back to top button