Column

پیجرز کے استعمالات، آغاز اور عروج و زوالات

ایم فاروق قمر
گزشتہ صدی میں پیجرز دنیا بھر میں پیغام رسانی کے استعمال ہونے والی معروف ڈیوائس تھی۔
یہ تاروں کے بغیر برقیاتی لہروں کے ذریعے پیغام پہنچانے والی ڈیوائس ہے جس کے ذریعے تحریری اور صوتی پیغام بھیجا جا سکتا ہے۔ پیجر ایک چھوٹی، پورٹیبل الیکٹرانک ڈیوائس ہے جسے بیپر بھی کہا جاتا ہے یعنی کسی بھی واقعے سے متعلق معلومات فراہم کرنا اور بنیادی طور پر پیجر بھی مختصر پیغام یا انتباہ بھیجنے اور وصول کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہ ٹیلی فون کی دوسری اور موبائل فون کی ابتدائی اسٹیج تھی، پیجر چھوٹی سی پاکٹ سائز ڈیوائس تھی، لوگ اسے جیب میں رکھ کر پھرتے رہتے تھے، لوگ اس کے ذریعے ایک دوسرے کو سو لفظوں کا ٹیکسٹ میسج بھجوا سکتے تھے، یہ ایس ایم ایس اور ٹیکسٹ میسج کی ابتدائی اسٹیج تھی۔ زیادہ تر پیجرز بیس سٹیشن یا سینٹرل ڈسپیچ سے ریڈیو فریکوئنسی کے ذریعے پیغامات وصول کرتے ہیں، یہ پیغامات نمبرز یا ٹیکس کی شکل میں ہوتے ہیں جو سامنے والے کو کسی بھی صورتحال سے آگاہ کرنے کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔ پیغام رسانی کے لیے ضروری ہے کہ دونوں طرف پیجرز موجود ہوں جو آج کے دور میں بہت کم استعمال ہوتے ہیں، دراصل یہ ٹیکسٹ میسج کی ایک ابتدائی شکل ہے جس میں پیغام وصول کرنے والا اسی پیجر کے ذریعے مختصر جواب دے سکتا ہے۔
پیجرز رکھنے والے صارف کو موبائل فون کی طرح ایک بیپ یا وائبریشن سے یہ اطلاع ملتی ہے کہ اس کے پاس کوئی پیغام آیا ہے۔20ویں صدی میں 50ء اور 60ء کی دہائی میں ایجاد ہونے والی اس ڈیوائس کو 80ء کی دہائی میں عروج ملا۔1990ء کی دہائی کے آخر اور 2000ء کی دہائی کے اوائل میں پیجرز کا استعمال بہت زیادہ تھا۔ انیس سو نوے کی دہائی میں پاکستان میں بھی پیجر استعمال ہوتا تھا۔ پیجرز خاص طور پر ایسے شعبوں میں استعمال ہوتے تھے جس میں فوری اور قابل اعتماد مواصلات کی ضرورت ہوتی تھی، پیجرز عام طور پر ڈاکٹروں، نرسوں اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے والے اداروں کی جانب سے استعمال کیے جاتے تھے کیوں کہ ان ڈیوائسز کا کسی پر انحصار نہیں ہوتا تھا جو بعض حالات میں قابل رسائی نہیں ہوتے۔ تاہم اب بھی اسے اکثر ممالک میں ایمرجنسی سروس اور سکیورٹی اداروں کے اہلکار استعمال کر رہے ہیں کیونکہ جدید پیجر موبائل فونز کے مقابلے میں زیادہ محفوظ تصور کیے جاتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران فوجی مواصلاتی کارروائیوں نے دو اہم ٹیکنالوجیز پر توجہ مرکوز کی۔ ٹیلی کمیونیکیشن بنیادی طور پر ریڈیو ٹرانسمیشنز پر مبنی تھی۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے ساتھ وائرلیس مواصلات کے شعبے میں قابل ذکر ترقی دیکھنے میں آئی۔ 1949ء میں وائرلیس کمیونیکیشن کے شعبے میں ماہر موجد الفریڈ جے گروس جسے ’’ ارونگ ال گروس‘‘ بھی کہا جاتا ہے ٹورنٹو، کینیڈا میں 22فروری 1918ء کو پیدا ہوئے۔ انہیں پیجر کے پہلا ورژن کا موجد سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ الفریڈ گروس نے ہجرت کی اور اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ امریکی ریاست اوہائیو کے شہر کلیولینڈ منتقل ہوگئے۔ وہ اپنے بچپن سے ہی ریڈیو آلات کی تیاری کے زبردست شوقین تھے۔ انہوں نے بہت سے ریڈیو چینلز کی پیروی کی اور ایک موقع پر اپنے گھر کے تہہ خانے کو اس نے جمع کیے ہوئے سکریپ کے ٹکڑوں کی بنیاد پر ریڈیو سٹیشن میں تبدیل کیا۔ سولہ سال کی عمر میں الفریڈ گرس نے شوقیہ ریڈیو لائسنس حاصل کیا اور اپنے کال سائن کو اپنانے کا ارادہ کیا۔ 1936ء میں گروس نے کلیولینڈ میں الیکٹریکل انجینئرنگ میں بیچلر آف سائنس کے لیے تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور 100میگا ہرٹز سے اوپر کے فریکوئنسی والے علاقے میں کام کرنا شروع کیا۔ 1941ء میں الفریڈ گروس ریڈیو کا اپنا ورژن بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران الفریڈ گروس نے Joan-Eleanor ٹرانسمیشن سسٹم کو تیار کرنے میں ایک محدود کردار ادا کیا، جس پر امریکی فوج، ٹرانسمیشن اور ریسپشن آپریشنز کے دوران اکثر خفیہ کاری کی ضرورت کے بغیر انحصار کرتی تھی۔ اس نظام کو اونچی پرواز کرنے والے بمبار طیاروں کے ساتھ مختصر مدت کے لیے بات چیت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
پیجرز کا عروج و زوال:
1949ء تک الفریڈ گروس نے وائرلیس کمیونیکیشن کے میدان میں بے مثال جدت حاصل کی تھی۔ اسی سال اس امریکی موجد نے دو طرفہ ریڈیو اور ٹرانسمیشن ڈیوائسز میں ترمیم کرنے میں کامیابی حاصل کی جس کا مقصد انہیں اس قابل بنانا تھا کہ وہ فاصلے پر ٹیلی فون اور وائرلیس سگنلز کے لیے ایک سمت اختیار کر سکیں۔ اس کی بدولت الفریڈ گروس نے پہلا ٹیلی فون پیجر سسٹم ایجاد کیا۔
نیویارک میں 1950ء میں پہلی پیجر سروسز کا آغاز کیا گیا جہاں بہت سے ڈاکٹروں نے اس
سروس کے لیے 12ڈالر ادا کرنے پر اتفاق کیا، جس سے انہیں ضرورت پڑنے پر ہسپتالوں میں رابطے میں مدد ملی۔ اس عرصے کے دوران ان ڈاکٹروں کے پاس 200گرام وزنی ڈیوائسز تھیں جن کی مدد سے وہ یونیفائیڈ ٹرانسمیشن ٹاور سے 40کلومیٹر دور پیغامات وصول کر سکتے تھے۔ اگلی دہائیوں کے دوران پیجرز کا استعمال تیار ہوا کیونکہ انہیں کچھ کمپنیوں نے آٹوموبائل میں شامل کیا تھا۔ اس کا استعمال کئی دہائیوں تک جاری رہا۔ اس کے بعد یہ مواصلاتی آلہ پس منظرمیں چلا گیا مگر حزب اللہ کے ارکان کے قبضے میں پھٹنے کے بعد یہ ایک بار پھر منظر عام پر آگیا ہے۔ پیجرز دنیا میں دو جگہوں پر بنتا ہے، تائیوان میں اسے گولڈ اپالو بناتی ہے اور یورپ میں اسے ہنگری کی کمپنی بی اے سی کی کنسلٹنگ کے ایف ٹی بناتی ہے، اس کے پاس گولڈ اپالو کی فرنچائز ہے۔ لیکن جیسے جیسے موبائل فون عام ہوتے گئے ویسے ہی پیجرز کا استعمال بھی کم ہونے لگا اور آج کے جدید دور میں نئی نسل اس ڈیوائس سے بہت کم واقفیت رکھتی۔ گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں موبائل فون کی آمد کے ساتھ پیجر کا استعمال کم ہونا شروع ہوگیا اور رواں صدی میں سمارٹ فونز کی آمد نے تو پیجر کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔

جواب دیں

Back to top button