بے مہار سوشل میڈیا

قادر خان یوسف زئی
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس برق رفتار دور میں سوشل میڈیا نے زندگی کے ہر شعبے میں ایک انقلاب برپا کیا ہے۔ دنیا بھر میں معلومات کی رسائی آسان اور فوری ہو چکی ہے، اور سوشل میڈیا نے افراد کو ایک دوسرے سے منسلک کر دیا ہے۔ تاہم، ہر ایجاد کے دو رخ ہوتے ہیں، اور سوشل میڈیا بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ جہاں ایک طرف یہ پلیٹ فارم عوامی رابطے، معلومات کے تبادلے اور تعلیم کے فروغ کا ذریعہ بن چکا ہے، وہیں دوسری طرف اس کا منفی استعمال معاشرتی بگاڑ، نفسیاتی دبا، اور مذہبی و سیاسی اختلافات کا باعث بن رہا ہے۔ ففٹھ جنریشن وار دراصل ایک غیر روایتی جنگ ہے، جس میں دشمن ممالک اور مخالفین ہتھیاروں کی بجائے نفسیاتی حملے، پراپیگنڈا، اور جھوٹی معلومات کے ذریعے عوام کے ذہنوں اور خیالات کو اپنے زیر اثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا اس جنگ کا سب سے مثر ذریعہ بن چکا ہے کیونکہ یہاں پر خبریں، افواہیں اور جھوٹے بیانیے انتہائی تیزی سے پھیلتے ہیں۔ اس جنگ کا مقصد ملک کو فوجی میدان میں شکست دینا نہیں، بلکہ اندرونی طور پر کمزور اور منتشر کرنا ہے۔ پاکستان کو ففٹھ جنریشن وار میں خاص طور پر بھارتی اور پاکستان مخالف میڈیا اور سوشل میڈیا نیٹ ورکس کی جانب سے ہدف بنایا جاتا ہے۔ یہ طاقتیں سوشل میڈیا کا استعمال کرکے نہ صرف پاکستان کی عوام میں بدگمانیاں پھیلانے کی کوشش کرتی ہیں بلکہ ریاستی اداروں، فوج، اور حکومت کے خلاف نفرت انگیز مہمات بھی چلاتی ہیں۔ ان مہمات کا مقصد عوام کو ریاستی اداروں سے بدظن کرنا اور انہیں انتشار اور بے یقینی کی حالت میں مبتلا کرنا ہے۔
ملک دشمن عناصر نے پاکستان کے خلاف ایک منظم سوشل میڈیا جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ اس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنا اور ملک کے اندرونی مسائل کو بڑھاوا دینا ہے۔ علاوہ ازیں، 2020ء میں یورپی یونین کی ایک رپورٹ نے بھارتی پراپیگنڈا نیٹ ورک کو بے نقاب کیا، جس میں جعلی نیوز ویب سائٹس اور فیک سوشل میڈیا اکانٹس کا ایک جال دریافت ہوا جو نہ صرف بھارت بلکہ یورپ اور امریکہ میں بھی پاکستان مخالف مواد پھیلا رہے تھے۔ ان ویب سائٹس اور اکانٹس کا مقصد پاکستان کو عالمی سطح پر دہشت گردی کا سرپرست دکھانا تھا، اور بھارت کی حکومت نے اس نیٹ ورک کو منظم انداز میں چلایا۔ صوبہ خیبر پختونخو اور بلوچستان اس وقت دہشت گردی کی بدترین زد میں ہے اور عوام کو فراہم کردہ گمراہ کن معلومات کا واحد ذریعہ سوشل میڈیا ہی بنا ہوا ہے جہاں بغیر تصدیق
اور من گھڑت خبروں کا جال پھیلا ہوا ہے پاکستان مخالف عناصر سوشل میڈیا کے ذریعے مملکت کے خلاف پراپیگنڈا میں ملوث ہیں۔ خاص طور پر افغان تنازع اور حکومت کے درمیان جاری تنازعات میں پاکستان کو ہمیشہ سے ایک مداخلت کار کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اور ریاست مخالف پراپیگنڈوں کے منفی اثرات کے سنگین نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔
سوشل میڈیا کا سب سے خطرناک پہلو اس کا مذہبی جذبات کے ساتھ کھیلنا ہے۔ مذہب کے نام پر سوشل میڈیا پر جھوٹے الزامات، فتویٰ بازی اور افواہیں پھیلائی جاتی ہیں، جو لوگوں کو جذباتی بنا دیتی ہیں اور بعض اوقات جانی نقصانات کا باعث بنتی ہیں۔ پاکستان میں مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کئی دفعہ انتہائی خوفناک نتائج کا حامل رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر اکثر مذہب کی توہین کے جھوٹے الزامات لگا کر لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، مشال خان کا واقعہ جو 2017ء میں خیبر پختونخوا کی ایک یونیورسٹی میں پیش آیا۔ مشال خان پر سوشل میڈیا پر توہینِ مذہب کا جھوٹا الزام لگایا گیا، اور ایک ہجوم نے بغیر کسی تحقیق کے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ سب کچھ سوشل میڈیا پر پھیلنے والے الزامات کے نتیجے میں ہوا، اور اس افسوسناک واقعے نے قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔اسی طرح، 2021ء میں سیالکوٹ میں سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کو مذہب کی توہین کا جھوٹا الزام لگا کر ہجوم نے بے دردی سے قتل کر دیا۔ اس واقعے میں بھی سوشل میڈیا نے ایک کلیدی کردار ادا کیا، جہاں بغیر تصدیق کے الزامات کو پھیلایا گیا، جس کے نتیجے میں عوامی جذبات بھڑکائے گئے اور ایک بے گناہ شخص کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ حالیہ دنوں سوات، کوئٹہ اور سندھ میں متعدد ایسے واقعات رونما ہوئے جس میں بد قسمتی سے پولیس اداروں کے اہلکاروں نے بھی ماورائے عدالت قتل کئے۔ یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا کا مذہبی
جذبات کے ساتھ کھیلنا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے، اور کس طرح مخالفین ان مواقع کا فائدہ اٹھا کر معاشرے میں انتشار پیدا کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر نہ صرف جھوٹے الزامات بلکہ مذہبی جنونیت اور فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کی مہمات بھی چلائی جاتی ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں مذہبی حساسیت بہت زیادہ ہے، مذہب کے نام پر ہراساں کرنا، دھمکیاں دینا اور تشدد کے واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں۔ ایسے واقعات میں سوشل میڈیا پر مخصوص افراد یا گروہوں کو ہدف بنایا جاتا ہے، جنہیں مذہبی یا فرقہ وارانہ الزامات لگا کر ہراساں کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، مختلف فرقوں کے درمیان مذہبی اختلافات کو بڑھاوا دینے کے لیے سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد پوسٹ کیا جاتا ہے۔ ایسے ویڈیوز اور پوسٹس جو ایک فرقہ کو دوسرے کے خلاف بھڑکاتی ہیں، انتہائی تیزی سے پھیلتی ہیں، اور نتیجتاً عوامی جھگڑوں اور فسادات کا سبب بنتی ہیں۔ فرقہ وارانہ تشدد کی کئی مثالیں سوشل میڈیا پر پھیلنے والے نفرت انگیز مواد کی وجہ سے سامنے آئی ہیں، جہاں محض افواہوں کی بنیاد پر لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے گروہ سوشل میڈیا کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں، تاکہ مختلف فرقوں کے درمیان اختلافات کو بھڑکایا جا سکے۔ اس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے، جو کہ معاشرتی ہم آہنگی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
سوشل میڈیا کے منفی استعمال کی وجہ سے لوگ ذہنی دبا اور پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جھوٹی خبروں اور افواہوں کی وجہ سے عوامی سطح پر بے چینی اور انتشار پھیلتا ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل، جو سوشل میڈیا پر زیادہ سرگرم ہوتی ہے، اس نفسیاتی دبا کا زیادہ شکار ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی فرقہ وارانہ نفرتیں معاشرتی امن و امان کو تباہ کرتی ہیں۔ سوشل میڈیا بلاشبہ ایک انقلابی پلیٹ فارم ہے، لیکن اس کا غلط استعمال معاشرتی بگاڑ، نفسیاتی مسائل، اور جانی نقصانات کا باعث بن رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام میں شعور بیدار کیا جائے، اور اس کا ذمہ دارانہ استعمال سکھایا جائے۔ ریاستی اداروں کو بھی اس حوالے سے مناسب اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ سوشل میڈیا کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے اور اسے ایک تعمیری اور مثبت ذریعہ بنایا جا سکے۔