ColumnTajamul Hussain Hashmi

ٹیکس کیوں ضروری ہے

تجمل حسین ہاشمی
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایف بی آر نان فائلر کی کیٹیگری ختم کرنے اور ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والوں پر مزید پابندیاں لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والے پاکستان کے کسی بھی بینک میں اکائونٹ نہیں کھلوا سکیں گے، جائیداد، گاڑی نہیں خرید سکیں گے، میوچل فنڈز میں سرمایہ کاری نہیں کر سکیں گے اور سب سے بڑھ کر وہ بیرون ملک سفر نہیں کر سکیں گے۔ یہ حکومتی ادارہ کتنا کامیاب ہوگا اس حوالہ سے اسلام آباد میں ایک کانفرنس کے دوران وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ سال 16لاکھ لوگ فائلر تھے جبکہ اس وقت 32لاکھ لوگ فائلر ہیں۔ آئی ایم ایف کو آخری پروگرام بنانا ہے تو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 7ہزار ارب کی ٹیکس چوری معیشت سے ہوئی ہے۔ مزید کہنا تھا کہ سیلز ٹیکس میں چھ سو ارب کا جعلی ڈیٹا ہے، جس میں سے ایک ارب ریکور ہوا ہے جبکہ کسٹمز ٹیکس میں 50سے 200ارب کی مس کلاسفیکیشن ہے۔ کیا حکومتی ادارے یہ سب کچھ آسانی سے ٹھیک کر لیں گے جبکہ سابقہ وزیر خزانہ شبر زیدی کا کہنا ہے کہ سابقہ وزیراعظم عمران خان ایف بی آر کے بندے کے بارے میں کئی دفعہ مجھے کہہ چکے تھے۔ ایسے احکامات کا مطلب ادارے کی ساکھ پر سوال ہے۔ یقیناً نان فائلر سے فائلر تک کا سفر ممکن ہے، ناممکن نہیں، وزیر خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر تسلیم کر رہے ہیں کہ 7ارب کی ٹیکس چوری ہورہی ہے، یقیناً اس عمل میں غریب طبقہ نہیں ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس طرز پر حکومت لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا چاہ رہی ہے اس سے خوف،
افراتفری پیدا ہوگی، ٹیکس وصولی کیلئے لوگوں کو حکومتی اعتماد کی ضرورت ہے جس کو حکومت اپنی کمزور پالیسی سے ختم کر رہی ہے، وزارت خزانہ یا ایف بی آر نان فائلر پر سفری پابندیوں کا ارادہ تو رکھتی ہے لیکن یہ کیوں بھول رہی ہے کہ پٹرول سے وابستہ کاروبار اور ان کی فیملیز زیادہ تر فائلر نہیں، ان کو مشکلات کا سامنا ہوگا۔ حکومتی دبائو سے حکومتی پالیسی پر بداعتمادی میں اضافہ ہوگا، پھر ٹیکس ریٹرن کو فائل کرنے کا طریقہ کار انتہائی مشکل ہے۔ اس طریقہ کار کو آسان بنائیں اور فائلر کیلئے خصوصی مراعات رکھی جائیں۔ فرد کے شناختی کارڈ کے ساتھ اس کی روزمرہ کی سرگرمیاں جب تک لنک نہیں ہوں گی اس وقت تک ٹیکس پراسیس میں آسانی نہیں آسکتی۔ حکومت ایمفورسمنٹ سے اپنے ہدف تو پورے کر لے گی لیکن ٹیکس نظام میں پختگی نہیں آئے گی۔ چند سال بعد نئی آنیوالی حکومت کو انہی پروجیکٹ پر کام کرنا پڑے گا جس پر پچھلی حکومت نے اربوں روپے خرچ کئے ہوں گے۔ مزید اخراجات سے بچنے کا طریقہ کار انتہائی آسان ہے، تمام نجی یا سرکاری اداروں کی سرگرمیوں کو ایف بی آر سے لنک کریں تاکہ مضبوط اور شفاف ڈیٹا حکومت کو میسر ہو اور اس کے بعد حکومت ایکشن لینے کی مجاز ہوگی۔ طاقتور افراد کے ٹیکس گوشواروں پر حکومت کی آنکھیں بند ہیں۔ انصاف کی فضا پیدا کریں، بظاہر جو کبھی ممکن نہیں ہے۔ ہمارے ہاں جو بھی حکومت قائم ہوئی اس کی کامیابیوں کے پیچھے ہیلی کاپٹر اور اے ٹی ایم مشین کارفرما رہی۔ وزیر خزانہ یا چیئرمین ایف بی آر کی محنت قابل قدر ہے لیکن اس حقیقت سے کیسے منہ موڑا جاسکتا ہے کہ غریب سے تو ان ڈائریکٹ وصول کئے جارہے ہیں اور جو منافع خور اربوں کما رہے ہیں، جن کے بھاری تنخواہ والے وکیل ہیں جو ٹیکس میں جوڑ توڑ کے ماہر ہیں، کیا چیئرمین ایف بی آر ان سے وصولی کرا سکیں گے؟ ہمارے ہاں سب سے بڑا المیہ ہے کہ طاقتور سکندر ہے۔ غریب کا مہنگائی نے گلہ کاٹ دیا ہے۔ کوئی بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں، دولت کی غیر مساوی تقسیم کے اضافے سے معاشرہ نئی کروٹ لے رہا ہے، جس میں نفرت، حسد اور لاقانونیت کی پرورش میں اضافہ ہوا ہے، تہذیب و تمدن میں کمی آئی ہے۔ تیز ترین ٹیکنالوجی نے معاشرہ کی سوچوں کو نئی وسعت دی ہے۔ ایسی صورت حال میں جب ملک کمزور وکٹ پر کھڑا ہو تو ٹیکس وصولی آسان نہیں ہوگا۔ حکومت کو خود کا احتساب کرنا ہوگا۔ جب قوم سیاسی رہنمائوں کے گوشواروں کا سناتی ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ وزیراعظم کے پاس اپنی کوئی گاری نہیں ہے تو قوم کی نظر میں اس سے بڑا مذاق کوئی نہیں ہوسکتا۔ جہازوں، فیکٹریوں اور دنیا کے ساتھ اربوں ڈالر کے کاروبار کرنیوالے کے گوشوارے لاقانونیت کی زندہ مثال ہیں۔

جواب دیں

Back to top button