Column

امریکہ میں مسلم ووٹرز کی سیاسی شمولیت

تحریر : عمر فاروق یوسفزئی
امریکہ میں پاکستانی اور دیگر مسلم کمیونٹیز کے لیے اپنی سیاسی شمولیت کو یقینی بنانا ایک اہم اور نازک مرحلہ ہے۔ یہ شمولیت نہ صرف ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے بلکہ انہیں ملکی سیاست میں ایک فعال کردار ادا کرنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ حالیہ انتخابات میں مسلم ووٹرز کی شمولیت میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، خاص طور پر جب سے کملا ہیرس نے صدارتی دوڑ میں قدم رکھا ہے۔ کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR)کے حالیہ سروے کے مطابق، مسلم ووٹرز کی ایک بڑی تعداد کملا ہیرس کی حمایت میں نظر آ رہی ہے۔ تقریباً 29.4فیصد مسلم ووٹرز ہیرس کو ووٹ دینے کے لیے تیار ہیں، جبکہ 29.1فیصد نے گرین پارٹی کی امیدوار Jill Steinکی حمایت کی۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ مسلم ووٹرز کی سیاسی ترجیحات میں تبدیلی آ رہی ہے، اور وہ مختلف امیدواروں کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ ٹرمپ کے دور میں مسلمانوں کے خلاف سخت رویہ اپنایا گیا، جس نے مسلم کمیونٹی میں بے چینی پیدا کی۔ مسلم ووٹرز نے محسوس کیا کہ ان کے حقوق متاثر ہو رہے ہیں، خاص طور پر مذہبی آزادی اور امیگریشن کے حوالے سے۔ یہ بے چینی کملا ہیرس کی حمایت میں ایک اہم محرک ثابت ہوئی۔ جدید تحقیق کے مطابق، تعلیمی کامیابیوں کے نتیجے میں مسلم ووٹرز کی سیاسی شمولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تعلیم یافتہ مسلم نوجوان ووٹ ڈالنے میں زیادہ فعال ہوتے ہیں اور انہیں اپنی آواز کو بلند کرنے کا احساس ہوتا ہے۔ مسلم کمیونٹی میں نئے چہرے، جیسے رشیدا طلیب اور ایلہان عمر، کی کامیابی نے بھی مسلم ووٹرز کو متاثر کیا ہے۔ یہ نمائندے نہ صرف مسلم ووٹرز کی نمائندگی کرتے ہیں بلکہ ان کے مسائل کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں، جو کہ ان کی حمایت میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔
مسلم ووٹرز کے لیے کئی مشکلات درپیش ہیں، جن کی وجہ سے ان کی سیاسی شمولیت متاثر ہوتی ہے امریکہ میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا نے مسلم ووٹرز کے لیے ایک اہم چیلنج پیدا کر دیا ہے۔ اس سے نہ صرف ان کی خود اعتمادی متاثر ہوئی ہے بلکہ ان کے سیاسی حقوق کی حفاظت میں بھی رکاوٹیں حائل ہو گئی ہیں۔ مسلم امیدواروں اور ووٹرز کو اکثر نفرت انگیز تبصروں اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو ان کی سیاسی سرگرمیوں میں رکاوٹ بنتا ہے۔ مسلم ووٹرز کو اکثر روایتی سیاسی جماعتوں کے اندر بھی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات ان کے امیدواروں کی حمایت کرنے والوں کو پارٹی کے اندر سے ہی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو کہ ان کی سیاسی کامیابی میں رکاوٹ بنتا ہے۔ مسلم کمیونٹی کے خلاف تعصب اور سرپرستی کی کمی، انہیں اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے مستقل مزاجی سے لڑیں۔ ٹرمپ کے دور میں، مسلمانوں کے خلاف سخت پالیسیوں نے مسلم ووٹرز کی سیاسی شمولیت میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ بہت سے مسلم ووٹرز نے محسوس کیا ہے کہ ان کے مسائل کو روایتی سیاسی جماعتوں کی جانب سے سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا، جس کی وجہ سے وہ پارٹیوں کے ساتھ وابستگی سے دور ہو رہے ہیں۔ مسلم ووٹرز کے مسائل اور تشویش کو حل کرنے کے لیے کمیونٹی میں مناسب نمائندگی کی کمی ہے۔ یہ نہ صرف ان کی سیاسی شمولیت میں رکاوٹ بنتا ہے بلکہ مسلم ووٹرز کی آراء کو بھی نظرانداز کرتا ہے۔
امریکہ میں مسلم ووٹرز کی سیاسی شمولیت میں لابیوں کا کردار بھی ایک اہم عنصر ہے۔ لابیوں کا مقصد مسلم کمیونٹی کے حقوق کے تحفظ اور ان کے مسائل کے حل کے لیے کام کرنا ہے، تاہم ان کی فعالیت کے کچھ چیلنجز بھی ہیں مسلم کمیونٹی کی سیاسی لابیاں عموماً مالی وسائل کی کمی کا شکار رہتی ہیں، جو کہ ان کی سرگرمیوں کو محدود کرتی ہیں۔ دوسری اقلیتوں کی نسبت، جیسے یہودی یا سیاہ فام کمیونٹی، مسلم لابیوں کے پاس اتنے مالی وسائل نہیں ہوتے کہ وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کو موثر طریقے سے انجام دے سکیں۔ مسلم کمیونٹی کی مختلف تنظیمیں ہیں، لیکن ان کی شمولیت میں کمی اور باہمی تعاون کی کمی ان کی اثر انگیزی کو کم کرتی ہے۔ اگر مسلم کمیونٹی کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے یکجا ہونے کی ضرورت ہے تو انہیں اپنی سیاسی لابیاں مضبوط کرنے کی ضرورت ہوگی۔ مسلم ووٹرز کی حمایت کرنے والی لابیوں کی جانب سے قومی اور مقامی سطح پر موثر پالیسیوں کی تشکیل کی کمی بھی محسوس کی جاتی ہے۔
ہیرس کے ایجنڈے میں مسلمانوں کی حقوق کی حمایت، انسداد اسلامو فوبیا، اور بین الاقوامی مسائل پر انسانی حقوق کی پاسداری شامل ہے۔ مسلم ووٹرز کی نظر میں، ہیرس ایک ایسی قیادت ہیں جو ان کے مسائل کو سمجھتی ہیں اور ان کے حقوق کی حفاظت کے لیے پرعزم ہیں۔ حالیہ عرصے میں غزہ اور لبنان میں ہونے والے واقعات نے مسلم ووٹرز کی رائے کو متاثر کیا ہے۔ بہت سے مسلم ووٹرز روایتی سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں سے دور ہو رہے ہیں، خاص طور پر اس وجہ سے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی آواز کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ غزہ میں جاری انسانی بحران اور اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں نے مسلم ووٹرز کو ایک خاص زاویہ نظر دینے پر مجبور کیا ہے۔ مسلم ممالک کی طرف سے امریکہ کی خارجہ پالیسی پر تنقید بھی مسلم ووٹرز کے دلوں میں بے چینی پیدا کرتی ہے۔ یہ مسائل صرف سیاسی ترجیحات پر اثر انداز نہیں ہوتے بلکہ مسلم ووٹرز کے مجموعی سیاسی طرز فکر کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں مسلم ووٹرز کی شمولیت کی سطح کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر ان کی حمایت میں اضافہ ہوتا ہے تو وہ اہم ریاستوں میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایک حالیہ سروے میں 60فیصد مسلم ووٹرز نے کہا کہ وہ اس بار تیسرے پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینے پر غور کر رہے ہیں۔ یہ رجحان روایتی جماعتوں کے لیے ایک چیلنج بن سکتا ہے، جو کہ انہیں اپنے ایجنڈے کو تبدیل کرنے پر مجبور کرے گا۔
امریکہ میں مسلم ووٹرز کی شمولیت اور ان کی سیاسی ترجیحات میں تبدیلی کے اثرات کی حامل ہیں۔ اگرچہ ان کی تعداد ابھی بھی محدود ہے، لیکن ان کے ووٹ کا اثر بڑھتا جا رہا ہے، خاص طور پر حالیہ سیاسی مسائل کی روشنی میں۔ مسلم کمیونٹی اگر اپنی شمولیت کو مزید بڑھاتی ہے تو وہ آئندہ انتخابات میں مزید نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ امریکہ میں مسلم ووٹرز کی سیاسی شمولیت ایک نمایاں تبدیلی کی طرف اشارہ کرتی ہے، اور اگر یہ رجحان جاری رہا تو مسلم کمیونٹی نہ صرف اپنے حقوق کی حفاظت کر سکے گی بلکہ ملکی سیاست میں ایک اہم طاقت بن کر ابھر سکتی ہے۔ اگر مسلم ووٹرز اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے متحرک رہیں، تو وہ نہ صرف اپنی کمیونٹی کی بہتری کے لیے کام کر سکتے ہیں بلکہ ملک کی سیاسی ڈھانچے میں بھی مثبت تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button