Columnمحمد مبشر انوار

مہیب سائے

محمد مبشر انوار (ریاض)
اقوام متحدہ کا اجلاس جاری ہے جہاں اقوام عالم کے درمیان تعلقات کے حوالے سے تقاریر ہو رہی ہیں، عالمی رہنما اپنی اپنی خدمات پر روشنی ڈال رہے ہیں، اقوام متحدہ کی کارگزاری سنائی جا رہی ہے، کیا کھویا اور کیا پایا، اس پر بحث ہو رہی ہے، دنیا کو امن سے رہنے کا فلسفہ زور و شور سے پڑھایا جا رہا ہے، جبکہ جارحیت کا ارتکاب کرنے والی قوموں سے ’’ پرامن رہنے کی درخواستیں‘‘ کی جار ہی ہے اور مظلوم اقوام بلکہ صرف مظلوم فلسطینیوں کو صبر و تحمل کی تلقین و نصیحت کی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ کا قیام ،یقینی طور پر کرہ ارض کو پرامن بنانے کی خاطر ،عمل میں لایا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے اقوام متحدہ کا کردار ہر گزرتے دن کے ساتھ ،اپنے بنیادی مقصد سے دور ہٹتا ہوا دکھائی دے رہا ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے کو تفویض کئے گئے اختیارات پر ’’ ویٹو‘‘ طاقتیںاسے عدل و انصاف سے بروئے کار آنے سے واضح طور پر روک دیتی ہیںاور ظالموں کی سر کوبی کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے پاس ذاتی طور پر کوئی ایسی طاقت نہیں کہ جس کو بروئے کار لاتے ہوئے،ظلم وناانصافی کا بروقت قلع قمع کیا جا سکے، نتیجہ واضح ہے کہ ہر طاقتور جب چاہے،جہاں چاہے،اپنے حقوق کا واویلا مچا کر کسی بھی دوسرے ملک پر جارحیت کا ارتکاب کرکے اقوام متحدہ کا منہ چڑا سکتا ہے۔وہ ممالک جن کے پاس ویٹو کی طاقت
موجود نہیں لیکن ان کی پشت پناہی کے لئے ویٹو طاقت کے حامل ممالک موجود ہیں،وہ بھی بلاکسی خوف و خطر کے ،بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہو یا کسی متنازعہ علاقے کی اقوام متحدہ میں منظور شدہ جغرافیائی حیثیت،بیک جنبش قلم نہ صرف اس کو منسوخ کر سکتے ہیں بلکہ ایسے علاقے میں قہر برسانے کی بھی ان کو کھلی چھٹی ہمہ وقت میسر ہے۔
اقوام متحدہ کی پھرتیاں اور کارروائیاں گزشتہ چند دہائیوں میں جن ممالک کے خلاف دیکھنے کو ملی ہیں،وہ سب کی سب مسلم ریاستیں ہی دکھائی دیتی ہیں،خواہ عراق ہو یا افغانستان ہو، اکلوتی عالمی طاقت کی بے سروپا و لغو و بے بنیاد خدشات کے باعث نہ صرف اقوام متحدہ نے فوری طور ان ممالک کے خلاف کارروائی کی قراردادیں منظور کی بلکہ ان ریاستوں پر اقوام متحدہ کی چھتر چھایہ تلے تباہی و بربادی کی داستانیں رقم کی جا چکی لیکن بھارت و اسرائیل کی چیرہ دستیوں کے خلاف اقوام متحدہ کی قراردادیں کسی کام نہیں آئی ۔حد تو یہ ہے کہ تقریبا بیش کلومیٹر کے مختصر سے رقبے پر بیس لاکھ فلسطینیوں سے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے،انہیں جنگی جرائم کا نشانہ بنانے کے باوجود،دنیا بھر کے امن و امان کو داؤ پر لگانے کے باوجود،دنیا کی کوئی بھی طاقت
تاحال روکنے میں کامیاب نہیں ہو پائی۔ اسرائیل جنگ کی آگ بھڑکانے میں کس حد تک جا رہا ہے،ساری دنیا ان حقائق سے باخبر ہے لیکن پشت پناہی پر تلی امریکی ریاست،دوسری ریاستوں کی سالمیت پر حملہ ہونے کے باوجود،ان ریاستوں کو جوابی کارروائیوں سے روک رہا ہے،جبکہ اس اثناء میں بجائے اسرائیلی جارحیت کو رکوائے،اس کی جارحیت سمت تبدیل کر کے مزید بڑھ رہی ہے۔اسرائیلی فلسطین میں جارحیت اوردوسری ریاستوں کو انگیخت کرنے کی کارروائیاں مسلسل بڑھتی جارہی ہیں لیکن نہ تو اقوام متحدہ اور نہ ہی امریکی ریاست اسرائیل چیرہ دستیوں کو روکنے میں بروئے کار آ رہی ہے البتہ زبانی جمع خرچ پہلے دن
سے سنائی دے رہا ہے کہ اسرائیل کو روکنے کی کوشش جاری ہے،فلسطین اور دیگر ممالک صبروتحمل سے کام سے لیں۔ دوسری طرف اسرائیل کے جھگڑے صرف فلسطین تم محدود نہیں ہیں بلکہ اپنے قیام سے آج تک،اسرائیل نے اپنے پر پرزے پھیلانے کے لئے ہرسو پنجے پھیلا رکھے ہیں ،ایک طرف شام کے ساتھ برسرپیکار ہے تو دوسری طرف لبنان میں بھی اس کی شورشوں کے شواہدموجود ہیں۔ ان شورشوں کی موجودگی اور مسلم بہن بھائیوں کے ساتھ ہونے والے جان لیوا سلوک نے حزب اللہ او ر یمنی حوثیوں کو اسرائیل کے ساتھ براہ راست میدان جنگ میں اترنے پر مجبور کردیا ہے کہ ان کے نہتے مسلم بہن بھائیوں پر اسرائیل ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے،جو انہیں کسی صورت قبول نہیں اور جب تک عالمی طاقتیں اس ناانصافی کو نہیں روک پاتی،وہ جس حد تک بھی ممکن ہے اسرائیل مفادات کو نقصان پہنچاتی رہیں گی۔حزب اللہ کی طرف سے بہرطور معاملات ابتداء میں سرحدی علاقوں تک ہی محدود رہے تھے لیکن گزشتہ چند دنوں سے اسرائیل کے لئے یہ معاملات دردسر بن رہے ہیں یا جواز فراہم کررہے ہیں کہ اسرائیل اس محاذ کو مزید بھڑکائے،سرحدی تنازعات کو پھیلا کر ،ان جھڑپوں کو لبنان کے اندر تک لے جائے کہ ایرانی سالمیت کو چیلنج کرنے کے باوجود،اسرائیل جنگ کے شعلوں کو بھڑکانے کی اپنی کوشش میں کماحقہ کامیاب نہیں ہو پایاتو کیا لبنان کی دارالحکومت کو نشانہ بنا کر،اپنی اس خواہش و کوشش میں کامیاب ہو سکے گا؟اسرائیلی خواہش و کوشش بڑی واضح ہے کہ اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو ،جس حد تک جا چکے ہیں،ان کے خلاف جس قسم کے اقدامات اٹھائے جا چکے ہیں،بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ جونہی جنگ بندی ہوگی،ان کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز بہرطور ممکن ہے۔ اس باقاعدہ کارروائی سے بچنے کی خاطر ،نیتن یاہو کی کوشش یہی ہے کہ بجائے اس آگ کو سرد کیا جائے،اس میں مزید تیزی لائے جائے،پڑوسی ریاستوں کو بھی اس آگ میں لپیٹا جائے کہ جب تک اسرائیل ،فلسطین/غزہ کی حد تک مصروف ہے،امریکی فوجیوں کا اس میں کودنا ممکن نظر نہیں آتا البتہ جیسے ہی کوئی دوسرا ملک ،اس جنگ کا باقاعدہ فریق بن کر اسرائیل کے خلاف صف آرا ہوتا ہے تو امریکہ کو اپنے بیان کے مطابق،اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہے۔گو کہ اسرائیل بلکہ صیہونی کم خرچ بالا نشیں پر یقین رکھنے والی قوم ہے ،حیرت انگیز طور پراس جنگ میں اپنے وسائل کو بے دریغ خرچ کرتی نظر آ رہی ہے کہ ایک طرف وہ غزہ پر بمباری کرتی ہے تو دوسری طرف غزہ سے چلنے والے راکٹ حملوں سے بچائو کے لئے اپنے مہنگے ترین دفاعی نظام کو بروئے کار لاتی ہے،جس کا تناسب بے انتہا ہے،اسی طرح حزب اللہ اور حوثیوں کی جانب سے چلنے والوں راکٹوں کو روکنے کے لئے بھی اسرائیل کو اپنا مہنگا ترین دفاعی نظام بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ اسرائیل کے میزائل و دیگر ہتھیاروں کی قیمت بھی ،ان راکٹوں کے مقابلے میں اچھی خاصی ہے،جو بہرکیف دفاع میں بروئے کار لانا بھی ضروری ہے تاہم اس مشق میں فریقین کے وسائل بہت تیزی کے ساتھ جنگ میں جھونکے جا رہے ہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کسی ایک فریق ہی کو نقصان ہو رہا ہے،کہ اگر حماس،حزب اللہ یا حوثیوں کے ہتھیاروں کی کم قیمت کو مد نظر رکھیں تو یہ ہتھیار بھی ان کے وسائل سے کہیں زیادہ ہی نظر آتے ہیں،اسی طرح اسرائیل کے بیش قیمت اور جدید ٹیکنالوجی کے ہتھیاروں کو جنگ کے شعلوں کی نذر دیکھیں تو بلاشبہ یہ اسرائیلی وسائل کو بڑی تیزی سے نگلتے نظر آ رہے ہیں۔البتہ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جیسے جیسے جنگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں،ویسے ویسے ہی صنعت اسلحہ سازی کو فروغ مل رہا ہے اور انہیں اسلحہ کے بڑے آرڈر ز بھی مل رہے ہیں،لہذا وہ کیونکر جنگ روکنا چاہیں گے ؟؟دوسری طرف جنگی جنون میں مبتلا اسرائیل ہر صورت یہ خواہش رکھتا ہے کہ یہ جنگ صرف اس کی جنگ نہ رہے بلکہ یہ جنگ پھیل کر اس کے پشت پناہوں کے کاندھوں پر منتقل ہو ،تاکہ اس کے مقاصد کے حصول میں ان کے وسائل بھی براہ راست اس میں بروئے کار آئے۔اسی لئے ایک طرف اسرائیل نے ایران کو اس جنگ میں الجھانے /ملوث کرنے کی کوششیں کی تو اب براہ راست لبنان کے دارالحکومت پر جارحیت کا ارتکاب کردیا ہے تا کہ ایک طرف اپنے جنگی جرائم کو پس پشت ڈالا جائے، عالمی دبائوکو مسترد کیا جائے اور اپنے ہمنوائوں کو اس جنگ میں شریک کیا جائے۔ اس پس منظر میں چین نے ایک طرف ایران کے ساتھ اپنے تذویراتی دفاعی معاہدوںکی توثیق کرتے ہوئے، ایران پر کسی بھی قسم کی جارحیت کے نتیجہ میں اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے اور دوسری طرف موجودہ کشیدہ صورتحال میں اپنے شہریوں کو فوری طور پر اسرائیل چھوڑنے کے لئے کہہ دیا۔ چین کے ان اقدامات سے بظاہر یہی دکھائی دے رہا ہے کہ اسرائیل کے موجودہ اقدامات سے، امریکہ و حلیفوں کے اس جنگ میں نہ صرف کودنے کا احتمال موجود ہے بلکہ یہ جنگ بتدریج پھیلتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے، جس میں لبنان تو ملوث ہو چکا ہے، شام، عراق اور ایران کے ملوث ہونے کے امکانات بھی تیزی کے ساتھ بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ عرب کے دیگر ممالک خود کو اس جنگ سے کیسے محفوظ رکھ پائیں گے، اس کے متعلق فی الوقت کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ عرب کی دیگر امیر ریاستوں کے بیک وقت امریکہ و چین کے ساتھ تذویراتی دفاعی معاہدے تو موجود ہیں لیکن کیا ان معاہدوں کی موجودگی کے باوجود، امریکہ، اسرائیل کے خلاف ان ممالک کے دفاع کو ترجیح دے گا؟ بصورت دیگر چین ان عرب ریاستوں کے دفاع میں امریکہ کے سامنے میدان جنگ میں کھڑا ہونے کے لئے تیار ہو گا یا پہلو تہی کریگا؟ بہرصورت جنگ کے مہیب سائے اس وقت مشرق وسطیٰ کے افق پر چھائے نظر آرہے ہیں اور ’’ گریٹر اسرائیل ‘‘ کے حصول میں کیا ان کے برسنے کی توقع کی جا سکتی ہے؟۔

جواب دیں

Back to top button