CM RizwanColumn

لعنت کی پلٹ اور مذمت

سی ایم رضوان
عام مشاہدہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے عام لوگ ہر وقت بغیر سوچے سمجھے اور بلا جھجھک ایک دوسرے پر لعنت کرتے رہتے ہیں اس ضمن میں نہایت افسوس ناک امر یہ ہے کہ انہیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کس قدر قبیح فعل کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ شریعت اسلامی میں لعنت دراصل رحمت الٰہی سے دور ہو جانے کی بددعا ہے۔
فرمان مصطفیٰ ؐہے: لَعْنُ الْمُْمِنِ کَقَتْلِہ، یعنی مومن پر لعنت کرنا اسے قتل کرنے کی طرح ہے۔
یعنی اس گناہ کو قتل کے گناہ کا درجہ دیا گیا ہے۔ لعن کا اصلی معنی ہے غصے سے دھتکارنا اور دور کرنا۔ اس ضمن میں خدا کی لعنت کا یہ مطلب ہے کہ وہ بندوں سے اپنی وہ رحمت اور تمام عنایات و برکات دور کر دے جو اس کی جانب سے انہیں پہنچتی ہیں۔
’’ لعنون‘‘ یعنی لعنت کرنے والے اس کا ایک وسیع معنی ہے۔ اس میں نہ صرف فرشتے اور مومنین شامل ہیں بلکہ ان کے علاوہ بھی ہر وہ موجود جو زبان حال یا مقال سے کلام کرتا ہے اس میں داخل ہے۔ اس سلسلے کی چند روایات میں تو یہاں تک بیان ہے کہ زمین و آسمان کی تمام موجودات حتیٰ کہ دریا کی مچھلیاں بھی طالبان علم و علماء کے لئے دعائے خیر اور استغفار کرتی ہیں تو جہاں وہ موجودات طالب علموں کے لئے استغفار کرتے ہیں وہاں علم کو چھپانے والوں کے لئے یقینا لعنت بھی کرتے ہوں گے لیکن یہ موجودات آج کے گئے گزرے انسان کی طرح ذاتی پسند نا پسند اور سیاسی رقابت و منافقت سے کہیں بلند و بالا ہے جو منافقت فی زمانہ ہمارے ملک میں رواج پا چکی ہے اور سوشل میڈیا جس کو لے کر روزانہ کی بنیاد پر ایک جھوٹے انقلاب کی خبریں دیتا رہتا ہے۔ وہ انقلاب جو ملکی فوج کو پسپا اور ناکام کر کے لانے کے مذموم عزائم کی چادر اوڑھے ہوئے ہے اور اس کے لئے تعمیر نہیں تخریب کاری جاری ہے جس کے لئے ملک کو بدنام اور ناکام کرنے کی سر توڑ کوشش کی جا رہی ہے۔
بَسا اوقات کسی بدنام زمانہ اور مردود وقت شخص کو عام سطح پر لعنت کا ہدف بنایا جاتا ہے اور اس صورت میں عام لعنت پر کسی کو اعتراض بھی نہیں ہوتا جیسا کہ شیطان پر لعنت بھیجنے پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔ بعض جید علماء کا کہنا ہے کہ کسی پر بھی لعنت کرنا ثواب کا کام نہیں، اگر کوئی شخص دن بھر شیطان پر لعنت کرتا رہے تو اس سے اسے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا بلکہ اس سے بہتر یہ ہے کہ اس قدر وقت ذکر و درود میں صرف کرے تو اس کو عظیم ثواب ملتا ہے، یہ علماء کہتے ہیں کہ اگر اس کام میں ہمارے لئے کچھ فائدہ ہوتا تو اللہ پاک دیگر عبادات کی بہ نسبت شیطان پر لعنت کرنے کا حکم دیتا، لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ جس کے ( کفر پر) مرنے کی ( یقینی) خبر نہ ہو اس پر لعنت نہ کرے اگر وہ لعنت کے لائق ہے تو اس پر لعنت کہنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے اور اگر وہ لعنت کا مستحق نہیں تو بے وجہ گناہ اپنے سر لینے کا باعث ہے۔ یہاں تک کہ بے جان چیزوں پر بھی لعنت کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اور بے قصور پر لعنت کرنے والے کو واپسی لعنت کا حقدار قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ ایک بار نبی کریمؐ کے پاس ایک شخص نے کسی سبب سے ہوا (Air)کو برا بھلا کہا اس پر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ہوا کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ یہ تو ( اللہ پاک کے) حکم کی پابند ہے جس نے کسی ایسی چیز پر لعنت کی جس کی وہ اہل نہ تھی تو وہ لعنت اسی پر لوٹ آئے گی۔
خوش قسمتی سے اگر ہم لعنت کرنے کے مذموم عمل سے بچے ہوئے بھی ہوں مگر بدقسمتی سے ایسے کئی غیر شرعی کاموں میں مبتلا ہو جاتے ہیں جو ہمیں لعنت کا سزاوار بنا رہے ہوتے ہیں، اس میں ایک بدقسمتی یہی ہے کہ ہم اپنی خواہشات کے برعکس کام کرنے والے حاکم یا فیصلہ دینے والے قاضی پر لعنت بھیج رہے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ آج کل ایک مشکوک ویڈیو وائرل ہوئی ہے کہ ایک بیکری کا سیلز مین سپریم کورٹ کے حاضر سروس چیف جسٹس پر محض اس بناء پر لعنت بھیجتا سنائی دے رہا ہے کہ وہ
موصوف چیف جسٹس کو پسند نہیں کرتا یا ان کے بعض فیصلوں کے برعکس سوچ خیال یا فکر رکھتا ہے۔ یا اپنے بیکری کے مالک کو خوش کرنے کے لئے اس نے یہ کام کیا ہے یا اپنے اس سیاسی لیڈر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اس نے ایسا کیا ہے۔ جس لیڈر کا شروع دن سے اپنے کارکنان کو حکم ہی یہی ہے کہ جتنی ہو سکے گالیاں دو اور مخالفین کو جس قدر ہو سکے ذلیل کرو۔
قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں ایسے کئی بدنصیب لوگوں کا ذکر ہوا ہے جن کو لعنت کا مستحق قرار دیا گیا ہے اس کے علاوہ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دین اسلام میں جن کافروں پر لعنت کی گئی ہے وہ ہمیشہ کے لئے اللہ کی رحمت اور جنت سے دور ہو گئے جیسے ابوجہل، فرعون وغیرہ جبکہ جن گناہگار مسلمانوں پر لعنت کی گئی اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں، قربتوں سے دور ہونا ہے، اس صورت میں بحیثیت مجموعی لعنت کرنا تو جائز ہے جیسے جھوٹوں پر اللہ کی لعنت اور ظالموں پر خدا کی لعنت کہہ سکتے ہیں، کسی خاص شخص پر لعنت نہیں کر سکتے۔ عصر حاضر کی بے سکون زندگی میں ہماری بداعمالیوں کا بڑا دخل ہے جیسا کہ قبیح جرائم کا مرتکب ہونا رحمت الٰہی سے دور ہونے کا ایک سبب ہے یا دوسروں پر لعن طعن کر کے لڑائی جھگڑے کے ذریعے نفرتوں کے بیج بونا باہمی امن کے تباہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے لہٰذا غضب الٰہی سے بچنے، رحمت خداوندی پانے، گھریلو اور معاشرتی امن و امان حاصل کرنے کے لئے ہمیں دین اسلام میں بیان کئے گئے لعنت کا مستحق بنانے والے اعمال سے بچنا چاہئے ساتھ ہی لعن طعن کرنے کے مذموم عمل کو بھی ترک کرنا ہوگا۔ رسول اکرمؐ نے مومن کی شان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ مومن نہ تو طعنہ دینے والا ہوتا ہی، نہ لعنت کرنے والا، نہ فحش بکنے والا بیہودہ ہوتا ہے۔
اللہ پاک ہمیں لعن طعن کرنے اور لعنت کے اسباب سے محفوظ فرمائے۔

جواب دیں

Back to top button