دہشت گردی کا عفریت

تحریر: امتیاز عاصی
ملک سے دہشت گردی کے عفریت کا قلع قمع عوام کے تعاون کے بغیر سیکیورٹی فورسز کے لئے ممکن نہیں۔ وطن عزیز کئی عشروں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور ہمیں سیاست سے فرصت نہیں ہے۔ عدم استحکام کے باعث ہمارا ملک معاشی طور پر کمزور ہو چکا ہے، ماسوائے چند دوست ملکوں کے دیگر ملکوں نے ہماری مدد سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ جہاں کہیں بڑے منصوبوں پر کام ہو رہا ہو وہیں دہشت گردی ہو تی ہے۔ دراصل پاکستان کا ایٹمی قوت بننا ، سی پیک منصوبہ اور گوادر کی تعمیر دشمن ملکوں کو ہضم نہیں ہو رہی۔ ہمار ا ملک کئی عشروں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، خصوصا بلوچستان اور کے پی کے سرحدی علاقے آگ کی لپیٹ میں ہیں۔ یہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہے ہماری سیکیورٹی فورسز خون کے نذرانے پیش کرکے سرحدوں کی حفاظت کئے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کی اہم وجہ فاٹا میں آپریشن سے وہاں کے لوگوں کو جو آزادی حاصل تھی وہ ختم ہو گئی ہے۔ قبائلی علاقوں کے لوگ ہر قسم کی اسمگلنگ آزادانہ طور پر کرتے تھے جب جی چاہا افغانستان چلے جاتے اور واپس آجاتے تھے۔ پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے یہ لوگ فاٹا ریگولیکشنز کے تابع تھے۔ بڑے سے بڑا مسئلہ جرگہ میں حل کر لیا جاتا تھا۔ وزیر ستان سے تعلق رکھنے والے ایک عزیز دوست سابق وفاقی وزیر حاجی ملک فرید اللہ خان شہید نے جنرل پرویز مشرف کو قبائلی علاقوں میں آپریشن سے منع کیا تھا۔ یہ بات ایک اردو معاصر کے کالم نگار نے کئی سال قبل اپنے کالم میں تحریر کی تھی ۔ یہ علیحدہ بات ہے قبائلی علاقوں میں بہت سے ترقیاتی کام ہوئے اور فاٹا کی آزاد حیثیت ختم کرکے کے پی کے میں ضم کر دیا گیا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت انگریز سرکار قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو شکست نہیں دے سکی۔ چنانچہ یہی وجہ تھی انگریز دور میں قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو نہیں چھڑا گیا۔ افغانستان پر روسی جارحیت کے بعد قبائلی علاقوں کے حالات میں بڑی تبدیلی آئی۔ قبائلی علاقوں کے لوگوں نے افغانستان کے طالبان سے باہم مل کر امریکہ کو افغانستان سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ لوگ جو انگریز دور سے ہر غیر قانونی کام کرتے چلے آرہے تھے جب انہیں ان کاموں سے روکا گیا تو اس کا ردعمل یقینی بات تھی۔ یہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز کی کارکردگی کا نتیجہ ہے کئی سو دہشت گرد سزائیں بھگت رہے ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے فوجی عدالتوں سے موت کی سزائیں پانے والے ساٹھ دہشت گرد ہائی سیکیورٹی جیل میں موت کے منتظر ہیں لیکن حکومت نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے دبائو میں موت کی سزا پر عمل درآمد روکا ہوا ہے۔ تعجب ہے ان ساٹھ دہشت گردوں کی صدر مملکت سے رحم کی اپیلیں خارج ہو چکی ہیں اس کے باوجود انہیں مہمان بنا کر رکھنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ عجیب تماشا ہے انسانی حقوق کی تنظیموں کا زور پاکستان پر چلتا ہے سعودی عرب میں آئے روز مجرمان کو موت کی سزا دی جاتی ہے انسانی حقوق کی تنظیمیں سعودی عرب کو موت کی سزا سے باز رکھنے میں ناکام ہیں۔ ملٹری کورٹس سے موت کی سزائیں پانے والوں میں بہت سے ایسے مجرم ہیں جنہیں متعدد بار موت کی سزا کا حکم ہے۔ جن ساٹھ مجرمان کی اپیلیں صدر پاکستان نے مسترد کی ہیں ان کا تعلق القاعدہ، داعش اور دیگر تنظیموں سے ہے۔ اسلام آباد سے سوات جانے والے دس ملکوں کے سفارت کاروں کے قافلے پر دہشت گردوں کا حملہ معمولی بات نہیں۔ اس واقعہ سے عالمی سطح پر ہماری جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ یہ بات سوالیہ نشان ہے سفارت کاروں کی آمد کا دہشت گردوں کو کیسے علم ہوا اور انہیں سفارت کاروں کے قافلے پر حملہ کرنے کا موقع ملا؟ مقامی پولیس کے علاوہ سیکیورٹی اداروں کے اہل کاروں کی اچھی خاصی تعداد سفارت کاروں کی حفاظت کے لئے متعین ہو گی اس کے باوجود انہیں غیر ملکی مہمانوں پر حملہ کرنے کی موقع ملنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ عام طور پر وی وی آئی پی شخصیات کو سیکورٹی اہل کاروں کے حصار میں لایا جاتا ہے۔ ایسی شخصیات کی آمد کے موقع پر سڑکوں کے دونوں اطراف پولیس اور خفیہ اداروں کے ملازمین کو لگایا جاتا ہے، اس کے باوجود دہشت گردوں کو مہمان سفارت کاروں پر حملہ کرنے کا موقع کیسے ملا؟۔ دہشت گردی کے عفریت نے مملکت خداداد کو معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار کر دیا ہے۔ عجیب تماشا ہے جہاں کہیں کوئی مسئلہ ہو رینجرز اور مسلح افواج کے خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ کیا کے پی کے میں پولیس نہیں ہے؟ پولیس کے ساتھ سپشیل برانچ کے ملازمین سفید پارچات میں تعینات کئے جاتے ہیں تاکہ کسی ہنگامی صورت حال میں ملزمان کو پکڑ سکیں۔ ہمارے خیال میں صوبائی پولیس کی طرف سے سیکیورٹی کے خاطر خواہ انتظامات نہ ہونے کے باعث سوات کا سانحہ پیش آیا ہے۔ چند سال پہلے سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ کے بعد کوئی غیر ملکی ٹیم ہمارے ہاں آنے کو تیار نہیں تھی۔ بلوچستان اور کے پی کے کی حکومتوں کیلئے ضروری ہے وہ علاقائی سطح پر لوگوں کی کمیٹیاں قائم کریں اور کمیٹیوں کے ارکان شہر میں داخل ہونے والے نووارد لوگوں پر نظر رکھیں جہاں کہیں انہیں کسی پر شک گزرے مقامی پولیس کو اطلاع دیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے صوبائی حکومتوں کو مقامی لوگوں کی خدمات حاصل کرنی چاہیں ان کے تعاون کے بغیر دہشت گردوں پر گرفت ممکن نہیں۔ چند روز قبل بلوچستان سے ملنے والے ایرانی بارڈر کو ہر قسم کی تجارت اور آمدورفت کے لئے بند کرنا پڑا ۔ آخر کوئی وجہ تو ہے جس سے سیکورٹی اداروں کو ایران کا بارڈر بند کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا دیرینہ مطالبہ ہے بلوچستان سے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو وطن واپس بھیجا جائے۔ حکومت نے بلوچستان کے رہنمائوں کی بات پر غور نہیں کرنا تو ایسے میں ارکان اسمبلی کے پاس سوائے استعفیٰ کے دوسرا آپشن نہیں رہتا۔ بلوچستان کے رہنے والوں کو ان کے آئینی حقوق دینا وقت کا تقاضا ہے۔ خان آف قلات اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے مابین ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد ہو جائے تو دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے۔ جب وہاں کے رہنے والوں کو ان کے جائز حقوق ملیں گے وہ دہشت گردوں کو پکڑنے میں حکومت سے تعاون بھی کریں گے۔ دہشت گردی کے عفریت کے خاتمے کے لئے ضروری ہے عوام کو ان کے آئینی حقوق دے دیئے جائیں۔