Columnمحمد مبشر انوار

سپیدہ سحر

تحریر : مبشر انوار (ریاض)
تحریک آزادی کی کامیابی کا وقت تاریخ انتہائی مقدس و پرنور بتاتی ہے کہ جن ساعتوں میں پاکستان معرض وجود میں آیا، ان ساعتوں کی فیوض وبرکات ایسی تھی کہ پاکستان کو دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنا چاہئے تھی کہ اسے نورانی سایوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا لیکن بدقسمتی دیکھیں کہ نجانے نحوست کی وہ کون سی گھڑیاں تھی کہ بتدریج اس مملکت پر بدترین آسیب یوں سایہ فگن ہو گئے کہ معرض وجود کا تمام تر تقدس و نور اس کی دبیز تاریک تہوں میں گم ہو چکا ہے۔ جمہوری طور طریقوں سے معرض وجود میں آنے والی ریاست، شروع دن سے ہی شخصی آمریت کا شکار دکھائی دے رہی ہے، عوام الناس کا جمہوری مزاج کہیں کھو چکا ہے اور وہ شخصیت پرستی کے سحر سے نکلنے کے لئے تیار نظر نہیں آتی۔ شخصیت پرستی کے سحر میں مبتلا ہونے کو عوامی قصور بھی نہیں کہا جا سکتا کہ عوام کی رہنمائی کرنے وا لا ایک شخص ہی ہوتا ہے، جس پر عوام اعتماد کرتے ہوئے، اپنی تقدیر کی ڈوریں اس کے ہاتھ تھما دیتی ہے، اب یہ اس شخصیت پر منحصر ہے کہ بابائے قوم کی مانند، منجدھار میں ڈوبی کشتی کو پار لگا دے یا موجودہ حکمرانوں کی طرح نیا کو ڈبو کر خود کسی اور کنارے جا اترے۔ بہرکیف یہ حقیقت ہے کہ جب تک کسی بھی ریاست میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہو گی، وہاں ترقی و خوشحالی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی بلکہ اچھی بھلی پھلتی پھولتی ریاستیں بھی تباہی و بربادی کا شکار ہو جاتی ہیں اور اپنی منزل کھو بیٹھتی ہیں۔ ہوس اقتدار میں مبتلا، اشرافیہ جس طرح آئین و قانون کی دھجیاں بکھیر رہی ہے، اس صورتحال نے ہر شخص میں نفسا نفسی کو اجاگر کر رکھا ہے اور ریاست کے مختلف اداروں میں تعینات سربراہا ن کی اکثریت خود کو ملک و قوم کے لئے ناگزیر سمجھ بیٹھی ہے۔ ان کے نزدیک صرف انہی کے دم سے ریاست قائم ہے وگرنہ کب کی زمین بوس ہو چکی ہوتی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مختلف اداروں کے سربراہان کے دل و دماغ میں یہ راسخ ہو چکاہے کہ اگر ہم کسی اور کے اقتدار کے لئے آسانیاں پیدا کر رہے ہیں تو اس کا عوضانہ ہمارا حق ہے لہذا ان کی مدت ملازمت میں توسیع ہونا کسی بھی طور غیر قانونی نہیں ۔ البتہ یہ الگ بات کہ اس مدت ملازمت میں توسیع کے لئے جتنے بھی غیر قانونی اقدامات کو جواز فراہم کرنا ہو،وہ ان کی نظر میں غیر قانونی نہیں ہے۔ اس وقت بھی یہی کشمکش، ملک کے ایک آئینی ادارے میں دکھائی دے رہی ہے جبکہ ایک دوسرا آئینی ادارہ اپنی آئینی ذمہ داریوں سے عہدہ برآں ہونے کی بجائے، حکمران جماعت کا ترجمان بنا، اس کے لئے آسانیاں پیدا کر رہا ہے۔ عدل فراہم کرنے والے ادارے میں نفسا نفسی کے جو مظاہر آج دیکھنے کو مل رہے ہیں، ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی اور نہ ہی ماضی میں کسی سربراہ نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے ایسی اقدامات کئے تھے ، وگرنہ مقننہ کو قلیل عرصہ میں ایک ہی قانون کو تبدیل کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ پہلی مرتبہ بھی قانون بناتے ہوئے، صرف ایک شخصیت کی خوشنودی کو مدنظر رکھا گیا جبکہ دوسری مرتبہ بھی اس قانون میں تبدیلی کا مقصد، اسی ایک شخصیت کو سہولت فراہم کرنا تھا۔ اولا تو قانون میں ترمیم انتہائی سرعت و عجلت میں کی گئی اور دوسری طرف اس ترمیم کے جاری ہوتے ہی، اس سے بھی زیادہ عجلت میں اس کا نفاذ، پوری دال کو کالا ثابت کر رہا ہے۔
دائروں کے سفر میں چلتے ہوئے، ہماری عدلیہ کی سمت کا تعین بھی دکھائی نہیں دے رہا یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ چند مفاد پرست، ذاتی مفاد کے حصول میں، عدلیہ کو آگے بڑھنے سے روک رہے ہیں۔ ابھی دو سال قبل ہی ایک انتہائی اہم مقدمہ میں عدالت عظمیٰ کی طرف سے یہ طے کیا جا چکا ہے کہ مخصوص معاملات میں اراکین اسمبلی کا ووٹ، ان کی پارٹی کی امانت ہے، اور اراکین اسمبلی پارٹی پالیسی کے خلاف چند مخصوص معاملات میں ووٹ نہیں ڈال سکتے بصورت دیگر نہ صرف ان کا ووٹ شمار نہیں ہو گا بلکہ ان کی رکنیت بھی ختم ہو جائیگی۔ آرٹیکل 63۔Aکی مجوزہ تشریح کا مقصد ملک میں جمہوری اقدار کو مضبوط بنانے کے علاوہ، ہارس ٹریڈنگ کو روکنا مقصود تھا، اس پر نظر ثانی کی درخواست عدالت عظمی کے سامنے موجود تھی مگر بوجوہ اسے سماعت کے لئے مقرر نہیں کیا گیا تھا، تاہم پریکٹس اینڈ پروسیجر بل میں ترمیم کے فورا بعد، نظرثانی کی یہ درخواست، ایسے بینچ کے سامنے لگا دی گئی ہے، جس کے متوقع فیصلے سے متعلق ماہرین قبل از وقت ہی پیشگوئیاں کرر ہے ہیںکہ اس بنچ کا فیصلہ یقینی طور پر یہی ہو گا کہ ڈیفیکشن کلاز کے تحت رکنیت بے شک ختم کر دی جائے لیکن ووٹ کا شمار کر لیا جائے۔ تاہم لاہور ہائیکورٹ، سندھ ہائیکورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل کو چیلنج تو کر دیا گیا ہے لیکن اس کا نتیجہ کیا ہو گا، اس کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ معاملہ بالآخر عدالت عظمیٰ کے سامنے ہی آئے گا اور عدالت عظمیٰ ایسے کسی بھی معاملے کو بآسانی دبا سکتی ہے جیسے الیکشن ٹربیونلز کے معاملات کو دبا رکھا ہے تاآنکہ اپنے معاملات ٹھیک نہ کر لءے جائیں۔ اس وقت سب سے اہم ترین معاملہ مقننہ کی جانب سے مجوزہ آئینی ترامیم کا بل ہے، جس کے متعلق شنید ہے کہ ’’ بڑوں‘‘ کی طرف سے مخصوص وقت کی قید بھی دی جا چکی ہے کہ اس مخصوص وقت میں آئینی ترامیم کو منظور کروایا جائے بصورت دیگر حکمران گھر جائیں۔ حیرت تو اس امر پر ہے کہ اراکین اسمبلی کی اکثریت، ان مجوزہ آئینی ترامیم سے متعلق آگاہ ہی نہ تھی البتہ سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنے طور پر دو تہائی اکثریت کے لئے کوششوں میں مصروف نظر آئے لیکن جب ان پر بھی آئینی ترامیم کا عقدہ کھلا تو وہ بھی شرمندہ ہی نظر آئے بالخصوص پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری، اپنی اس کوشش کو مجبوری کا نام دیتے دکھائی دئیے۔ ایک ایسی پارٹی کا چیئرمین، جس نے اس ملک کو متفقہ آئین دیا، ایسی شرمناک ترامیم کے لئے اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے پر اسے اپنی حیثیت پر ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ وہ اپنی حیثیت کھو چکی ہے اور اسے کیا اقدامات کرنے چاہئیں کہ وہ عوام میں اپنی حیثیت دوبارہ بحال کرنے میں کامیاب ہو جائے؟
پاکستانی پارلیمنٹ کا قیام درحقیقت آئین سے وجود میں آیا ہے، پاکستانی پارلیمانی نظام حکومت بھی آئین ہی کا دیا ہوا ہے لہذا پارلیمنٹ کے اختیارات کا تعین بھی آئین ہی کرتا ہے اس لئے پارلیمنٹ کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ جو چاہے قانون سازی کرے بلکہ اس کی حدود و قیود کا تعین آئین میں طے شدہ ہے اور آئین سے ماورا کسی بھی قسم کی قانون سازی کو عدالت عظمی کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ کسی بھی قسم کی قانون سازی میں بنیادی شرط ’’ نیت ‘‘ کو حاصل ہے کہ پس پردہ کوئی بدنیتی تو شامل نہیں، اس کا تعین کرنا ہی عدالت عظمی کی ذمہ داری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بنیادی جیورس پروڈنس سے متصادم کوئی بھی قانون سازی، کسی بھی طرح وقوع پذیر نہیں ہو سکتی، بدقسمتی سے نیب ترامیم میں عدالت عظمیٰ کی طرف سے، تسلیم کرنے کے فیصلے میں، ان دونوں عناصر سے صرف نظر کیا گیا ہے، ان ترامیم سے نیب عملا غیر فعال ہو چکا ہے اور پاکستان کو لوٹنے والے، اب چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال حالیہ مخصوص نشستوں کے مقدمہ کے فیصلے میں دکھائی دی ہے کہ عدالت عظمی کے آٹھ معزز جج صاحبان نے، کامل انصاف، کو مد نظر رکھتے ہوئے، عدالت عظمیٰ کے تیرہ جنوری کے فیصلے کو بنیاد بناتے ہوئے، ان حالات کو مفصل جائزہ لے کر تحریک انصاف کو نہ صرف سیاسی جماعت تسلیم کیا بلکہ آزاد امیدواروں کو پہلے روز سے ہی تحریک انصاف کا امیدوار تسلیم کیا ہے۔ البتہ اپنے فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے یہ ضرور کہا کہ ان امیدواروں کو پندرہ روز میں اپنا بیان حلفی دینا ہو گا، جسے الیکشن کمیشن اور ن لیگ کی جانب سے آئین کو دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف قرار دیا گیا، جس کا جواب بھی تفصیلی فیصلے میں دے دیا گیا کہ جب بے قاعدگیاں ہوں گی، تو پھر درستی کے لئے اقدامات عدالت عظمی کو ہی اٹھانے ہوں گے۔ میری دانست میں تفصیلی فیصلہ ابھی بھی انتہائی نرم، اور متعلقہ فریقین کو ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی سمت درست کر لیں لیکن جو انداز فریقین اختیار کر رہی ہیں، اس سے ظاہر یہی ہو رہا ہے کہ حکومت اور الیکشن کمیشن ابھی بھی عدالت عظمی کے فیصلہ پر عمل درآمد سے گریزاں ہیں۔
شاہین اور کرگس دونوں کی پرواز ایک ہی فضا میں ہوتی ہے لیکن شاہین کا جہاں اور جبکہ کرگس کا جہاں اور ہے، شاہین کا کردار مختلف جبکہ کرگس کا کردار مختلف ہے، بعینہ عدالت عظمی کے دو بڑے کرداروں کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ عین ممکن ہے ایک شخصیت عہدہ حاصل کرنے کے باوجود وہ مقام نہ حاصل کر سکے ، جو دوسری شخصیت بغیر عہدے کی ہی حاصل کر چکی ہے، تاریخ میں رقم ہو چکا کہ کس کا کیا کردار تھا، کون شاہین تھا اور کون کرگس۔ رات کی تاریکی کی تہہ کتنی ہی دبیز کیوں نہ ہو، روشنی کی ایک چھوٹی سی کرن، اس کو چاک کر دیتی ہے، ایسی ہی صورتحال اس وقت پاکستان میں قانون کی بالادستی کے حوالے سے دیکھی جا سکتی ہے کہ ایک طرف نفسا نفسی میں پریکٹس اینڈ پروسیجر بل مع ترمیم، نیب ترامیم،63۔Aنظر ثانی مقدمہ میں ممکنہ برعکس فیصلے جیسی تاریکی اور دوسری طرف مخصوص نشستوں کے مقدمہ میں کامل انصاف کی سعی کرنے کی روشنی، سپیدہ سحر کی نوید ہو سکتی ہے!!!

جواب دیں

Back to top button