Column

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

تحریر : صفدر علی حیدری
کہتے ہیں دو دوست اکثر ایک دوسرے کے عقائد کا تمسخر اڑاتے اور مناظرے کا چیلنج کرتے تھے۔ ایک موحد تھا تو دوسرا دہریہ ۔ اچھی بات یہ تھی کہ یہ باتیں ان کی دوستی کو متاثر نہیں کرتی تھیں۔ ایک دن دونوں نے ایک دوسرے کا چیلنج قبول کر لیا۔ ہارنے والے کو جیتنے والے کا عقیدہ قبول کرنا تھا۔
مقررہ دن مناظرے کا آغاز ہوا۔ دلائل پر دلائل دئیے جانے لگے۔ یہ بحث کافی دیر جاری رہی۔ آخر دہریے نے شکست تسلیم کر لی۔ اگلے دن لوگوں نے اس کے سر پر ٹوپی اور تسبیح دیکھی تو حیرت زدہ رہ گئے۔ خلیل جبران نے بڑی حیران کن بات لکھی کہ گھر جا کر موحد نے کتابوں کو آگ لگا دی، کیوں کہ وہ دہریہ بن چکا تھا۔
سنتے ہیں جب ہلاکو خان کی فوجیں بغداد پہنچیں تو وہاں کے علماء نور اور بشر کی بحث میں باہم دست و گریبان تھے ۔ یہی حال عیسائیوں کا تھا کہ جب صلاح الدین ایوبی ان کے سر پر پہنچا تو وہ بھی کج بحثی کر رہے تھے۔
ایسی باتیں پڑھ کر اور سن کر یقین ہو جاتا ہے کہ کیوں بولنے کو چاندی کہا گیا ہے اور خاموشی کو سونا۔ بجا طور پر ارشاد ہوا ہے کہ دین کی سلامتی دس میں سے نو حصے خاموشی میں ہے۔ انسان جتنا کم بولے گا اتنا اس سے غلطیاں بھی کم سرزد ہوں گی۔
امام جعفر الصادقؒ سے ان کے ایک مصاحب نے تبلیغ کے لیے جانے کی خواہش کا اظہار کیا اور عرض کیا کہ کچھ نصیحت کیجئے تو آپؒ نے فرمایا کوشش کرنا تبملغ کے اپنی زبان کا استعمال نہ کرنا۔ ہمارے نبی کریمؐ کی ابتدائی چالیس زندگی عملی تبلیغ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپؐ نے کسی کو نہیں کہا کہ میں نبیؐ ہوں، اور اس کے باوجود بھی کہ معاشرہ لہو و لعب کی منہ بولتی تصویر تھا، آپؐ نے اپنے کردار کی ایسا شمع روشن کی کہ بدترین مخالفین بھی آپؐ کے کردار کی عظمت کا اعتراف کرکے پر مجبور ہو گئی۔ آپؐ کو انہوں نے صادق اور امین کا لقب دیا۔ اگر کسی کی شخصیت میں یہ دو باتوں نہ ہوں تو اس کی زندگی کس کام کی۔ آپؐ نے اپنی زبان کو پکڑ کر بتایا کہ سارے کا سارا دین اس پر قابو پانے میں ہے۔ اچھی بات بھی بار بار ایک ہی طریقے سے کی جائے تو اپنا اثر کھو دیتی ہے۔ چہ جائیکہ کی منہ سے بری بات نکالی جائے۔
حضرت امام حسینؓ کا فرمان ہے دین تمہاری زبان کا چسکا بن چکا ہے۔ لوگوں نے اپنی پسند کی باتوں کو میٹھی میٹھی سنت قرار دے کر اپنا لیا ہے۔ اب ان کو کون بتائے کہ ہمارے نبی کریمؐ کی ہر سنت میٹھی ہے، ہر سنت لائق تقلید ہے۔زیادہ دن نہیں گزرے جب ایک شرپسند ملا نے کیمرے سے منہ چھپا کر انٹرویو دیا تھا۔ پھر اس کا بھائی برقع پہن کر فرار ہوتے پکڑا گیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ہر مولوی نے اینا یوٹیوب چینل کھول رکھا ہے۔ جہاں دن رات عجیب عجیب اپ لوڈ ہو رہی ہیں۔ ایسی چیزیں جن کا ایک انسان مکلف ہی نہیں ہے۔ ایسی باتیں کہی جا رہی ہیں جو کا تعلق انسان سے دنیا سے ہے کہ عقبی سے۔ جس سے اسے دینی فائدہ ہوتا ہے نہ دنیاوی ، آج ہر طرف چینلوں کی بہار آئی ہوئی ہے، ہر روز نت نئے نمونے اپنی عجیب و غریب ویڈیوز اپ لوڈ کر رہے ہوتے ہیں۔ غلطی سے سن بھی لی جائے تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ’’ بھائی کہنا کیا چاہتے ہو ‘‘، کوئی سر پیر نہیں، کوئی مقصد نہیں، بس کمائی کے چکر میں متنازعہ باتیں کیے جائو اور مال بنائے جائو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اچھا کام کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں مگر مذاق اڑانے والوں کا غلبہ ہے۔ مخالف فرقے کی لوگوں کو گھسیٹنے کا کام زور و شور سے جاری ہے ۔ کسی کو رافضی کہا جاتا ہے تو کسی کو ناصبی ، کسی کو خارجی ثابت کیا جا رہا ہے تو کسی کو نجدی۔ کسی کو جاہل بتایا جا رہے ہے تو کسی کو شدت پسند۔ کسی کو نبی کا گستاخ کہا جا رہا ہے تو کسی کو اہل بیت کا۔ کوئی وکیل صحابہ کسی مخالف کو صحابہ کا دشمن کہہ رہا ہے ۔ کوئی اولیاء اللہ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتا ہے ’’ بابے تے شئے ای کوئی نئیں‘‘، یہ سب اسلام کے نام پر ہو رہا ہے۔ تبلیغ کے نام پر۔ رشد و ہدایت کے نام پر۔ کیسے کیسے نمونے چینلوں کو چمٹے ہوئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ اور تو مین سٹریم میڈیا پر بھی آئے روز ایسے بحثیں چلتی ہیں کہ آدمی سر پیٹ کر رہ جاتا ہے۔ کہیں انبیاء کرامٌ کے درمیان مقابلہ ہوا رہا ہے ۔ کہیں اہل بیتؓ اور صحابہؓ کے درمیان افضلیت کی جنگ چھڑی ہوئی ہے، کہیں اولیاء اللہ کی کرامات کا صاف انکار کیا جاتا ہے تو کہیں ان کی ایسی ایسی کرامات بیان کی جاتی ہیں کہ اللہ دے اور بندے لے۔ ایک بھیڑ چال لگی ہے۔ حماقت کا مقابلہ جاری ہے۔ افراط و تفریط کا عالم ہے۔ کھسکے ہوئے ذہن پر لمحہ یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ہمارا دماغی توازن ٹھیک نہیں۔ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں
اب انصاف سے بتائیے کہ ایسی باتیں کرنے اور ایسی بحثیں چھیڑنے کا فائدہ ہی کیا جس کا انسان مکلف ہی نہیں، احمق آدمی ہر اس بات میں ٹانگ اڑاتا ہے، جس سے اس کا تعلق ہی نہیں ہوتا اور ہر اس بات کا جواب دینے لگتا ہے جو اس سے پوچھی ہی نہیں گئی ہوتی۔ آخر میں ایک بار اس فتنے کا ذکر ضروری ہے جس نے پردیس بیٹھ کر ایسی ہفوات بازی کی ہے اللہ کی پناہ ، کوئی پوچھے کہ بتائو ان باتوں سے تم حاصل کیا کرنا چاہتے تھے، اس سے ایک عام آدمی کا تعلق ہی کیا ہے، تم کیسے بد طینت ہو کہ تم نے چند جملوں میں اللہ، اس کے رسولؐ، صحابہ کرامؓ اور تمام مسلمانوں کی توہین کر ڈالی۔ تم نے یہ بھی نہ سوچا کہ کتاب ہدایت کی حفاظت کا ذمہ خود خدا نے لے رکھا ہے۔ تم نے یہ کہہ دیا کہ حضورؐ کو بھی پتہ نہ چلا، کاتبین وحی بھی لاعلم تھے۔ چودہ سو سال تک مسلمان یہ جان ہی نہ سکے کہ قرآن میں معاذ اللہ غلطیاں ہیں۔ کروڑوں لوگوں کی دل آزاری کے مرتکب شخص کو اس کے فرقے کے لوگ بچانے کو سرگرم ہو گئے ہیں۔ ادھر اس فتنہ پرور کا عالم یہ ہے کہ وہ معذرت کے ساتھ ’’ اگر‘‘ کا لفظ جوڑ کر بتا رہا ہے کہ اس نے کوئی غلطی نہیں کی۔
آج ہماری حالت بنی اسرائیل جیسی ہے جنہوں نے ایک گائے کے حوالے سے اپنے رب سے کج بحثی کی اور پھر ہوا یہ کہ پوری بستی مقروض ہو گئی۔ وہ کوئی بھی گائے ذبح کر سکتے تھے مگر کج بحثی کرنے لگے ۔ ( حالاں کہ وہ گائے ذبح کرنے والے تھے نہیں ) مطلوبہ گائے ایک یتیم لڑکے کی تھی جس نے اس کی اتنی زیادہ قیمت لگائی کہ پوری بستی مقروض ہو گئی۔ آپ سب سے گزارش ہے کہ ایسے فتنہ پرور ملائوں کے چینلز کو رپورٹ کریں تاکہ یہ فتنے اپنی موت آپ مر جائیں ۔
اقبالؒ کیا اچھے موقع پر یاد آئے ہیں، ایک صدی قبل وہ فرما چکے ہیں
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

جواب دیں

Back to top button