Ali HassanColumn

سپریم کورٹ کا دوسرا جنم؟ ( دوسرا حصہ)

تحریر : علی حسن
خدا کرے کہ اب سب باتیں قصہ پارینہ ہوچکی ہوں۔ پاکستان کی سپریم کورٹ کی تاریخ میں کسی واقعہ کے اتنے دور رس نتائج نہیں برآمد ہوں گے جتنے کہ ججوں کے مقدمے میں20 مارچ1996ء کو دیئے گئے فیصلے کے۔ مجھے یقین ہے کہ مستقبل کے مورخ اس فیصلے کو1996ء کے آئینی انقلاب سے موسوم کریں گے۔ جب کبھی پاکستان کی سپریم کورٹ کی تاریخ لکھی جائے گی اس کو دو ادوار میں تقسیم کیا جائے گا۔ ایک دور قبل1996ء کا ہوگا اور دوسرا دور بعد از1996ء ہوگا۔ آئندہ اعلیٰ عدالتوں یعنی سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے ججوں کے تقرر کے سلسلے میں صدر مملکت یا متعلقہ گورنر جو بھی مشورہ بالترتیب کریں گے وہ موثر ہوگا، بامعنی ہوگا، بامقصد ہوگا، اتفاق رائے سے ہوگا جس میں کوئی گنجائش من مانی یا ناانصافی کی شکایت کے لئے نہیں ہوگی۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے تقرر کے سلسلے میں صدر پاکستان اور ہائیکورٹ کے ججوں کے تقرر کے سلسلے میں گورنر متعلقہ، بالترتیب چیف جسٹس آف پاکستان اور متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی رائے کو کسی بھی امیدوار کے جج بننے کی اہلیت اور موزونیت کے بارے میں ضرور قبول کریں گے۔ اگر کسی امیدوار کے خلاف جسے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یا ہائیکورٹ متعلقہ کے چیف جسٹس نے ججی کیلئے نامزد کیا ہے، صدر کویا گورنر متعلقہ کو کوئی اعتراض ہوگا تو اس اعتراض کو ضبط تحریر میں لایا جائے گا۔ اگر صدر پاکستان یا کوئی گورنر کسی ایسے شخص کو سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کا جج مقرر کریں گے جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یا متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی رائے میں ججی کے عہدے کیلئے نااہل اور ناموزوں ہے، تو صدر یا گورنر کا ایسا کرنا آئین کی متعلقہ دفعہ کے تحت اختیارات کا موزوں و مناسب استعمال نہیں ہو گا اور آخر میں اگر ہائیکورٹ کے کسی جج کو اس کی مرضی کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کا جج مقرر کیا گیا تو ایسا کرنا آئین کی دفعہ209کی خلاف ورزی ہوگا۔
ہماری سپریم کورٹ کے مذکورہ بالا20 مارچ1996ء کے فیصلے سے مجھے فرینکلین روز ویلٹ صدر امریکہ کی وہ تجویز یاد آگئی، جب1937ء میں وہ امریکی سپریم کورٹ کو اپنی پسند کے ججوں سے بھردینا چاہتے تھے لیکن بھر نہ پائے تھے۔ اب ہماری سپریم کورٹ میں بھی ناتجربہ کار، غیر تربیت یافتہ، نااہل، مشتبہ دیانت والے پارٹی حواریوں کی بھرتی ناممکن ہوجائے گی۔ لہذا1996ء کا سال، پاکستان کی آئینی قانون دانی اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے فلسفہ کے اعتبار سے حد فاصل کا سال ہے۔1996ء کے آئینی انقلاب سے کاروبار عدالت نوعیت بالکل بدل جائے گی۔ اس کے فیصلوں کی ماہیت بدل جائے گی اور اس کی خود مختاری اور معروضیت ( غیر جانبداری) پر عوام کا اعتماد بحال ہوجائے گا۔ وہ زمانہ ختم ہوا جب عدلیہ، انتظامیہ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرتی تھی اور وہ زمانہ شروع ہوگا جب عدلیہ اگر بالادست نہیں تو خودمختار ضرور ہے۔20مارچ1996ء کو سپریم کورٹ کی کایا سرے سے پلٹ گئی۔ سپریم کورٹ اب کبھی ویسی نہیں ہوگی جیسی پہلے تھی۔ اس نے ایک بڑے آئینی معاملے میں اپنی رائے بدلی ہے اور یہ اسی لئے ممکن ہوا کہ اب اسے رائے عامہ کی تائید حاصل ہے۔ سالہا سال کی نیاز مندی کے بعد اب یہ پھر اپنے پائوں پر کھڑی ہوگئی ہے اور اس کا سر فخر سے بلند ہے، آپ کہہ سکتے ہیں کہ20 مارچ1996ء کو سپریم کورٹ کو دوسرا جنم ملا۔
کتنا زبردست تغیر ہے ان دونوں کے مقابل میں جب جج کو اعلیٰ ترین عدالتی منصب پر فائز ہونے کیلئے بھاگ دوڑ کرنی پڑتی تھی۔ اچھی چال ڈھال کی یقین دہانی کرانی پڑتی تھی۔ مقرر کنندہ اتھارٹی کی تعریف و ستائش میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے پڑتے تھے، ’’ پوشیدہ قوت‘‘ سے ہدایات لینی پڑتی تھیں، اور سیاسی ہوائوں کا رخ دیکھ کر اپنا رخ بدلنا پڑتا تھا۔
’’ جب ججوں کا مقدمہ زیر سماعت تھا تو چیف جسٹس کی بیٹی کے گھر پر دھاوا بولا گیا۔ اور ان کے داماد سید پرویز علی شاہ کو، جو ایک سرکاری ملازم تھے، ملازمت سے معطل کر دیا گیا۔ جب اس مقدمے میں مختصر عدالتی فیصلہ سنا دیا گیا تو کراچی میں چیف جسٹس کی سرکاری کلغی دار گاڑی کو زبردستی چھین لیا گیا، ان کے ڈرائیور کو گاڑی سے باہر سڑک پر دھکیل دیا گیا اور ڈرائیور سے کہا گیا کہ مسٹنڈوں غنڈوں کو معلوم ہے کہ یہ کس کی کار ہے اور اس کی بھی اسی طرح مرمت کی جائے گی۔
چیف جسٹس کے ٹیلی فون پر چوری چھپے باتیں سنی گئیں ، ان کے دفاتر اور ان کی رہائش گاہوں میں ایسے آلے نصب کر دیئے گئے جن کی مدد سے وہاں ہونے والی باتیں چوری چھپے سنی جاسکیں، حکومت نے اپنی سی پوری کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح مجاز اتھارٹی کے ذریعہ چیف جسٹس کو اپنے منصب سے علیحدہ کروا دے۔ بعد ازاں چیف جسٹس کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دلوائی گئیں۔
ایک سابق جج کو قتل کیا جا چکا ہے، وہ جو عدلیہ کی خود مختاری کی شد و مد سے داعی تھے، انہیں ان کے بیٹے سمیت دن دہاڑے کراچی میں ان کے گھر کے باہر قتل کر دیا گیا۔ ناصر اسلم زاہد جو1994ء میں سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے، انہیں سزا کے طور پر وفاقی شرعی عدالت میں بھیج دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس فضل الٰہی جواس بینچ کے رکن تھے جس نے ججوں کا مقدمہ سنا تھا، وہ بھی حکومت وقت کے غیظ و غضب کا شکار بنے، ان کے بیٹے کا جو صوبہ سرحد کی حکومت میں ملازم ہے، چترال کے ضلع مستوج کی ایک دور افتاوہ چوکی کی بونی نامی پر تبادلہ کر دیا گیا، غرض یہ کہ ہراساں کرنے پر پریشان کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ( کراچی کے روزنامہ ڈان، مورخہ3جنوری1997ء میں اردشیر کاوس جی کے کالم ’’ احتساب یا انتخاب ‘‘ سے اقتباس)۔
سپریم کورٹ کے سامنے آئین میں آٹھویں ترمیم جواب منسوخ ہوچکی ہے اس کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے ایک درخواست پیش ہوئی۔ اس عرضداشت کو سپریم کورٹ کی ایک سات رکنی بینچ نے سنا اور سماعت کے بعد ایک مفصل فیصلہ سنایا۔ اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا’’ آئین پاکستان کی دفعہ239ء کے تحت پارلیمنٹ کو اختیار ہے کہ وہ آئین کی آٹھویں ترمیم کی جس شق کو چاہے اس میں ردوبدل کر سکتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ1973ء کے آئین کی قرارداد مقاصد/تمہید میں جواب دفعہ2( الف) کی شکل میں آئین کا جزوالانیفک بن چکی ہے، جو وفاقیت، پارلیمانی جمہوریت اور اسلامی دفعات کے خدو خال دیئے گئے ہیں، ان میں کوئی ردوبدل نہ کیا جائے‘‘۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں یہ بھی کہا کہ آئین کی دفعہ58کی شق(2)کی ذیلی شق ( ب) نے اقتدار کا توازن بالواسط منتخب شدہ صدر کے حق میں نہیں جھکایا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ آئین کی دفعہ58کی شق(2)کی ذیلی شق ( ب) کے خلاف بہت کچھ کہا گیا ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس نے طرز حکومت کو پارلیمانی سے صدارتی میں بدل دیا ہے اور اختیارات کو صدر کے ہاتھوں میں مرتکز کر دیا ہے حالانکہ صدر بالواسط منتخب ہوتا ہے اور وزیر اعظم بلاواسط ، اس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ ’’ آئین کو جوں کا توں پڑھا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہے اور یہ کہ اس بارے میں خدشہ بے بنیاد ہے‘‘۔ کورٹ نے یہ بھی کہا کہ آئین کی دفعہ58کی شق(2)کی ذیلی شق ( ب) میں کوئی غیر معمولی بات نہیں، صدر مملکت کو اس قسم کے اختیارات دینے والی دفعات دنیا کے بہت سے پارلیمانی آئینوں مثلاً آسٹریلوی، اطالوی، بھارتی فرانسیسی اور پرتگیزی آئینوں میں ملتی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ آئین کی دفعہ58کی شق(2)کی ذیلی شق ( ب) نے مارشل لاء کا راستہ مسدود کر دیا ہے ہمیشہ کے لئے، جس کا کوئی حملہ ہم پر 1977ء کے بعد سے نہیں ہوا۔
کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اگر چہ آئین میں آٹھویں ترمیم ایک ایسی پارلیمنٹ نے منظور کی تھی جو غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ہوئی تھی لیکن اس پارلیمنٹ کے بعد تین پارلیمنٹ اور آئیں،1988ء کی1990ء کی اور1993ء کی، وہ تینوں جماعتی بنیادوں پر منتخب ہوئی تھیں۔ ان میں سے کسی نے آٹھویں ترمیم کو نہیں چھوا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اس پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ گویا انہوں نے کنایتہ اس کی توثیق کردی تھی۔
اب جبکہ آئین کی آٹھویں ترمیم منسوخ ہوچکی ہے، صدر مملکت سے سب اختیارات چھینے جاچکے ہیں، وہ واحد ادارہ جو اب شہریوں کی شہری آزادی کی حفاظت کر سکتا ہے اور انتظامیہ کی مطلق العنانیت کا انسداد کر سکتا ہے ، وہ صرف سپریم کورٹ ہے۔ لیکن اگر خدانخواستہ کبھی سپریم کورٹ مغلوب یا مفلوج ہوگئی تو پھر ملک کا خدا حافظ۔ جب ہمارے شب گرفتہ زمانے کی تاریخ لکھی جائے گی تو یہ ضرور نوٹ کیا جائے گا کہ ضرورت کے وقت جس ادارے نے قوم کی نہایت شاندار خدمت انجام دی وہ نشاط ثانیہ کے بعد کا سپریم کورٹ تھا۔ اگر پاکستان میں قانون کے تحت آزادی زندہ رہتی ہے تو وہ سپریم کورٹ کی جرات مندانہ اور دلیرانہ خود مختاری کی وجہ سے رہے گی۔ بقول پالکھی والا کے، اگر آئین میں آہنی سانچے میں ڈھلی ضمانتیں شہریوں کی شہری آزادی کے بارے میں نہ بھی ہوں تب بھی جب تک تند و تیز عدلیہ موجود ہے، اس وقت تک شہریوں کی شہری آزادی محفوظ ہے، لیکن اگر ایک مرتبہ عدلیہ، انتظامیہ کے تابع ہوجائے ، اور برسراقتدار پارٹی کے فلسفہ کی ہاں میں ہاں ملانے لگے، تو پھر آئین میں کتنے ہی بنیادی حقوق کا ذکر کیوں نہ ہو، ان سے کچھ فائدہ نہ ہوگا کیونکہ پھر انصاف کی عدالتیں سرکاری عدالتیں بن جائیں گی۔ تاریخ میں یہی سبق دیتی ہے کہ جب قانون و عدل کے پشتے ٹوٹتے ہیں تو انقلاب کے سیلاب امڈتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button