Ali HassanColumn

سپریم کورٹ کا دوسرا جنم؟ ( پہلا حصہ)

علی حسن
مرحوم روئیداد خان کا شمار اپنے وقت کے تجربہ کار اور بہت مطالعہ کرنے والے سرکاری ایسے ملازم میں ہوتا ہے، جنہوں نے غلام اسحاق خان سے لے کر جنرل یحییٰ خان تک کئی صدور کی ماتحتی میں کام کیا۔ انہوں نے کراچی سے اسلام آباد تک بہت سارے عہدوں پر کام کیا۔ انہوں نے اپنے تجربہ اور مطالعہ کے ماحاصل پر ایک کتاب بھی تحریر کی ہے۔ انگریزی زبان کی کتاب کا اردو میں ترجمہ ان ہی کے پائے کے ایک اپنے وقت کے سی ایس پی افسر عرفان امتیازی نے کیا اور اس ترجمہ کا عنوان ’’ پاکستان انقلاب کے دہانے پر‘‘ رکھا تھا۔ کتاب کا ایک باب ’’ سپریم کورٹ کا دوسرا جنم ‘‘ رکھا گیا تھا۔ یہ کئی سال قبل کا قصہ ہے۔ جس میں اس دور کی سپریم کورٹ کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ وہ میں نقل کر رہا ہوں ۔ پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس منیر کا کہنا ہے ’’ اگر اسمبلی توڑنے کا اختیار کسی کے پاس نہ ہو تو پھر ایک غیر نمائندہ اسمبلی سے نجات کا واحد طریقہ انقلاب رہ جائے گا‘‘۔
’’ جب خلیفہ قاہر کو خلافت سے ہٹایا جارہا تھا تو ایک قاضی کو خلیفہ کے پاس بھیجا گیا کہ وہ خلیفہ سے خلافت سے دست برداری کے کاغذات پر دستخط کرا لے اور پھر ان کی تصدیق کر دے۔ جب قاضی، خلیفہ کے پاس پہنچا تو خلیفہ نے دست برداری کے کاغذات پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ قاضی اس پر بہت برا فروختہ ہوا اس بولا ’’ ہمیں ایسے آدمی کے پاس بلانے کا کیا فائدہ جسے مغلوب و مجبور نہیں کرلیا گیا؟‘‘، یہ سن کر علی ابن عیسیٰ نے کہا’’ اس کی حرکتیں بدنام زمانہ ہیں، اس لیے اسے خلافت سے علیحدہ کرنا ضروری ہے‘‘۔ اس پر قاضی نے جواب دیا ’’ ہمارا کام شاہی خاندانوں کا قیام نہیں۔ ہمیں تو صرف اسی وقت بلایا جاتاہے جب مصلحت کا تقاضہ ہوتا ہے اور ہم سے صرف تصدیق کیلئے کہا جاتا ہے‘‘۔ اگلی صبح معلوم ہوا کہ خلیفہ قاہر سے بینائی چھینی جاچکی تھی۔ یہ نہایت گہرے افسوس کی بات ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک اکثر و بیشتر ہمارے قضاء کی کارکردگی بھی مذکورہ قاضی کی کاکردگی سے نہ مختلف رہی نہ بہتر۔
’’ قیام پاکستان کے بعد کی پہلی دہائی سے ہی ججوں نے اپنے آئینی نظریات اور قانونی زبان کو سیاست وقت کی مصلحتوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ اکثر و بیشتر فیصلوں میں عدلیہ نے حکومت وقت کی تائید کی ہے ، غالباً اس کی غرض یہ رہی ہوگی کہ آئندہ عدلیہ کی خود مختاری قائم رہے۔ انہوں نے اپنے لیے یہ راستہ چنا۔1950ء کی دہائی میں بھی جب کوئی دستور نہ تھا،1960ء کی دہائی میں بھی جب مارشل لاء کا دور دورہ تھا اور جب آئین نشانے کی زد میں جان بچاتا پھرتا تھا، اور1970ء کی دہائی میں بھی جب ذوالفقار علی بھٹو کے ملے جلے آئینی زمانے میں جمہوریت کے بارے میں خوش فہمی حقیقت پر غالب تھی۔ عدالتوں نے اپنے احاطہ کار کے گرد ایسی حدود و قیود مان لیں جو ان کے اپنے فیصلوں کی نظریاتی اساس سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں اور آج تک یہ عدم مطابقت جاری ہے۔ اس کی مصلحت محض یہ رہی ہوگی کہ عدالتیں حدود و قیود کے اندر ہی سہی مگر کام تو کرتی رہیں‘‘۔
البتہ عاصمہ جیلانی کے مقدمے میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ یحییٰ خان اقتدار کے غاصب تھے اور یہ کہ ان کے غصب اقتدار کو اس نظریے سے جواز نہیں ملتا کہ ’’ کامیاب انقلاب خود اپنا جواز ہے اور یہ کہ یحییٰ خان کا مارشل لاء خان قانون تھا۔ کم و بیش ایوب خان کی لفظ دہراتے ہوئے جسٹس یعقوب علی خان نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تمیز الدین خان کے مقدمے،1955ء کے ریفرنس اور دوسو کے مقدمے میں جو فیصلہ دئیے گئے انہوں نے ایک نہایت اچھے ملک کو ہدف تضحیک بنا دیا، ملک کو مطلق العنانیت کے تحت کر دیا اور آخر کار اسے عسکری آمریت بنا دیا‘‘۔ یعقوب علی خان نے خاص طور پر1956ء کے آئین کی تنسیخ پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ ’’ سکندر مرزا اور ایوب خان دونوں غداری کے جرم کے مرتکب ہوئے اور انہوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے مابین نمائندگی کی اساس کو تباہ کر دیا‘‘۔
غاصبوں کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد ججوں کے لیے اپنی دس سالہ مایوسی کا اظہار آسان ہوگیا، یحییٰ خان کو ہدف ملامت بنایا جاسکتا تھا کیونکہ وہ غریب اب ایبٹ آباد کے گورنمنٹ ہائوس میں نظر بند تھا۔6اگست1990ء کو صدر نے قومی اسمبلی کو توڑ دیا۔ اس صدارتی حکم کے خلاف مقدمہ لاہور ہاء کورٹ میں پیش ہوا، اس کورٹ نے بھی وہی کیا جو ماضی میں دوسری کورٹ کرتی آئی تھیں، یعنی اپنا رخ اس طرف رکھا جس طرف سیاست کی ہوا چل رہی تھی اور بغیر اس بات کا جائزہ لئے کہ آیا صدارتی استدلال میں وزن ہے یا نہیں ، اور یہ کہ صدارتی دعویٰ کی بنیاد معتبر ہے یا نہیں، صدارتی حکم کی توثیق کردی‘‘۔
لیکن اپریل1993ء میں جب صدر نے قومی اسمبلی کو توڑا تو صدر کو یہ احساس نہ رہا کہ معروضی صورتحال اصالتاً بدل چکی تھی، سپریم کورٹ نے وہی رخ اختیار کیا جدھر سیاست کی ہوا چل رہی تھی اور صدارتی فرمان کو ناقابل قبول قرار دیدیا۔1995ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے ولیم ای لیوٹن برگ کی ایک کتاب چھاپی ہے جس کا عنوان ہے ’’ سپریم کورٹ کی حیات نو‘‘ اس کتاب کے صفحہ44پر مصنف کہتا ہے: ’’ امریکہ میں متعدد ججوں کے ذہن میں یہ خیال رہتا ہے کہ ممکن ہے انہیں صدر کے عہدے کیلئے نامزد کر دیا جائے۔ یہ کوئی مناسب صورتحال نہ تھی کیونکہ کوئی بھی شخص ذہن اور کردار کے اعتبار سے کتنا ہی توانا کیوں نہ ہو اگر اس کے دل میں ہوس جاہ ہوگی تو وہ اس کی کارکردگی پر کسی نہ کسی طور اثر انداز ہوسکتی ہے اور بانیان مملکت اسی حرص و ہوس جاہ کو سپریم کورٹ کے ججوں کے ذہنوں سے باہر رکھنا چاہتے تھے، تاکہ سپریم کورٹ کا جج بن جانے کے بعد وہ ہر قسم کی حرص و ہوس سے آزاد ہوجائیں اور یہ جان لیں کہ اب ان کیلئے باقی ماندہ زندگی میں سوائے عدالتی کام کے اور کچھ نہیں رہا‘‘۔
اس کے برعکس پاکستان میں یہ حال ہے کہ بعض ججوں کے لیے زندگی شروع ہی ہوتی ہے ججی سے ریٹائرمنٹ کے بعد سے۔ یہ کس کو نہیں معلوم کہ اعلیٰ عدالتوں کی ججی سے کم اعلیٰ لیکن زیادہ منفعت بخش سرکاری اسامیوں پر تقرری کی ہوس نے ہمارے کئی ججوں کی کارکردگی کو متاثر کیا ہے۔ بانی پاکستان کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ آئی ہوگی کہ پاکستان پر ایسا وقت بھی آئے گا کہ جب ججوں کا تقرر ان کی قابلیت اور اعلیٰ کارکردگی کی بناء پر نہیں بلکہ انتظامیہ سے ان کی وفاداری اور سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر کیا جایا کرے گا۔ چنانچہ انتظامیہ نے کورٹس میں محدود علم اور تجربے کے حامل پارٹی کارکنوں کو ججوں کے عہدوں پر مقرر کرکے عدالتوں کو اپنے حامیوں سے بھر دیا۔ اگر مدعا یہ تھا کہ سپریم کورٹ کو بعض بدترین ججوں سے بھرکر اس کی وقعت کو کم کیا جائے تو اس مقصد میں تو ہماری بعض حکومتوں نے نہایت شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کہ بعض اعلیٰ عدالتیں تقرریوں سے عوام حد درجہ بے زار ہیں۔ ان ججوں کی کارکردگی صفر رہے گی اور آئندہ کبھی انہیں کسی نے یاد رکھا تو وہ شاید ان کے پوتے نواسے ہی ہوں گے۔ ( جاری ہے)۔

جواب دیں

Back to top button