Column

طاقتور اشرافیہ کی چپقلش اور معاشی بحران

عمر فاروق یوسفزئی

پاکستان، اپنے بے پناہ قدرتی اور انسانی وسائل کے باوجود، آج ایک سنگین معاشی بحران کا شکار ہے۔ یہ صورت حال دنیا بھر کے مبصرین کے لیے ایک معمہ ہے کیونکہ پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط فوج، بہترین صنعتی انفراسٹرکچر، اور وسیع سڑکوں کے نیٹ ورک کا حامل ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ سائنس دان، ماہرین معاشیات، اور کاروباری افراد کی بڑی تعداد بھی موجود ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کی معیشت تنزلی کا شکار ہے اور اس کی بنیادی وجوہ بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہیں۔ پاکستان کی طاقتور اشرافیہ، جس نے اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفاد پر فوقیت دی ہے، اس بحران کی سب سے بڑی ذمے دار ہے۔
پاکستان میں موجود طاقتور لابیاں اور اشرافیہ ملک کے سیاسی اور معاشی فیصلوں پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ ان لابیوں کے درمیان مفادات کی ٹکرائو نے ملک میں استحکام کے بجائے بے امنی اور بحران کو جنم دیا ہے۔ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ، جو اپنی حیثیت برقرار رکھنا چاہتی ہے، تو دوسری طرف سیاسی اشرافیہ اور کاروباری طبقہ اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ ان تمام گروہوں کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث قومی ترقی کی رفتار سست ہوگئی ہے۔ یہ طاقتور لابیاں اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے پالیسی سازی پر اثر انداز ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے طویل المدتی منصوبہ بندی میں کوتاہیاں اور عدم تسلسل پیدا ہوتا ہے۔ نتیجتاً ملک کی معیشت ایک مستحکم راہ پر گامزن ہونے کے بجائے بار بار بحرانوں کا شکار ہو جاتی ہے۔
پاکستان کی طاقتور اشرافیہ کے درمیان ہونے والی چپقلش نے نہ صرف معیشت کو متاثر کیا بلکہ معاشرتی تقسیم کو بھی گہرا کر دیا ہے۔ آج پاکستان کا معاشرہ شدید طبقاتی تفریق کا شکار ہے جہاں ایک طرف طاقتور اشرافیہ اپنی دولت اور اثر و رسوخ میں اضافہ کر رہی ہے، تو دوسری طرف عام عوام غربت، بے روزگاری، اور معاشی ناہمواری کا شکار ہیں۔ اشرافیہ کے درمیان مفادات کی یہ جنگ عام آدمی کو پیچھے چھوڑ رہی ہے، اور نتیجہ یہ ہوا ہے کہ سماجی عدم مساوات بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ عدم مساوات ملک کے مختلف طبقات کے درمیان تنائو اور ناراضی کو جنم دیتی ہے، جس کا فائدہ انتہا پسند عناصر اٹھاتے ہیں۔ ملک کے معاشرتی، سیاسی، اور معاشی نظام کی کمزوریوں نے انتہا پسندوں کو پروان چڑھنے کے مواقع فراہم کیے ہیں۔
پاکستان میں انتہا پسندی کی جڑیں کئی دہائیوں پر محیط ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں اس میں اضافہ ہوا ہے۔ طاقتور لابیاں، جو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں، بعض اوقات انتہا پسند گروہوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ یہ گروہ معاشرتی ناانصافی اور محرومیوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور عام عوام کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ انتہا پسندی کا فروغ پاکستان کی اندرونی چپقلش اور معاشی ناہمواریوں کا نتیجہ ہے۔ جب ایک بڑی تعداد میں لوگ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہوں اور ان کی زندگیوں میں بہتری کے امکانات کم ہوں تو وہ آسانی سے انتہا پسند نظریات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ملک کے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور اشرافیہ کی خود غرضی نے انتہا پسندوں کو طاقتور بنا دیا ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں وسیع زرعی اراضی، بہترین نہری نظام، اور محنتی کسان موجود ہیں۔ ملک کی صنعت میں بھی نمایاں ترقی ہوئی ہے، خاص طور پر ٹیکسٹائل، کھیلوں کے سامان، اور چمڑے کی مصنوعات میں پاکستان دنیا کے بہترین پروڈیوسروں میں شمار ہوتا ہے۔ پاکستان میں تعلیمی نظام میں ہنر مند افراد کی کمی ہے تاہم ہر سال ہزاروں نوجوان انجینئرنگ، طب، سائنس، اور کاروبار کے میدان میں گریجویشن کر رہے ہیں۔ ملک میں کاروباری ذہنیت رکھنے والے افراد کی بھی کمی نہیں ہے، جو اپنے کاروبار کے ذریعے ملک کی معیشت میں بہتری لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سڑکوں اور مواصلات کے نظام میں بھی نمایاں بہتری آئی ہے۔ پاکستان نے حالیہ برسوں میں وسیع اور جدید سڑکوں کا نیٹ ورک قائم کیا ہے، جس سے اندرون ملک تجارت اور نقل و حمل میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ چین کے ساتھ سی پیک منصوبہ بھی پاکستان کے لیے ایک اہم موقع ہے جس سے ملک کی معیشت کو استحکام مل سکتا ہے۔
پاکستان کے معاشی بحران کے لیے بیرونی طاقتوں یا عالمی مالیاتی اداروں کو مورد الزام ٹھہرانا ایک عام روایت بن چکی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے مسائل بنیادی طور پر اندرونی ہیں۔ اگرچہ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے اپنی شرائط کے تحت قرضے دیتے ہیں، لیکن اصل مسئلہ پاکستان کی اشرافیہ کی نااہلی اور بدعنوانی ہے۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام، بدعنوانی، اور ناقص گورننس نے ملک کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے۔ ادارے کمزور ہو چکے ہیں، اور قانون کی بالادستی کا فقدان ہے۔ جب ملک میں قانون کی حکمرانی کمزور ہو اور طاقتور اشرافیہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قوانین کو توڑنے مروڑنے میں مصروف ہو تو معیشت میں استحکام کیسے آ سکتا ہے؟۔
پاکستان کی ترقی کے لیے سب سے پہلے اندرونی مسائل کو حل کرنا ہوگا۔ اس کے لیے طاقتور اشرافیہ کو اپنے ذاتی مفادات کے بجائے قومی مفاد کو ترجیح دینا ہوگی۔ ملک میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ بدعنوانی کا خاتمہ ہو سکے اور ادارے مضبوط ہوں۔ ملک کے وسائل کی منصفانہ تقسیم اور معاشرتی انصاف کو فروغ دینا ہوگا تاکہ طبقاتی تفریق کم ہو اور ہر طبقے کو ترقی کے یکساں مواقع مل سکیں۔ تعلیم اور ہنر مندی کے فروغ کے ذریعے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا بھی ضروری ہے تاکہ وہ ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ پاکستان کو اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے طویل المدتی پالیسی سازی اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ملک میں صنعت اور زراعت کے شعبے میں اصلاحات کر کے پیدا واریت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ملک کی افرادی قوت اور وسائل کا صحیح استعمال کیا جائے تو پاکستان ایک معاشی طاقت بن سکتا ہے۔
پاکستان کی موجودہ معاشی صورت حال کا ذمے دار بیرونی طاقتیں ہی نہیں بلکہ اندرونی چپقلش، طاقتور اشرافیہ کی خود غرضی، اور بدعنوانی بھی ہے۔ اگر پاکستان کی اشرافیہ اپنے مفادات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر لے اور ملک کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی کرے تو پاکستان کی بے پناہ صلاحیتیں ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہیں۔

جواب دیں

Back to top button