ColumnImtiaz Aasi

سچا کون؟

امتیاز عاصی
ایک دور تھا نوا ز شریف بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کرتے تھے۔ تین بار وزارت عظمیٰ پر رہنے کے باوجود ان کی مقبولیت کا گراف گرتا چلا گیا۔ بھلا کیوں ؟ نواز شریف ہر مشکل گھڑی میں وطن چھوڑ گئے۔ نواز شریف نے اپنی مقبولیت کا اندازہ غلط لگایا، وہ آیت اللہ خمینی نہیں تھے، لاہور کے ہوائی اڈے پر اترتے تو عوام کا جم غفیر فرش راہ ہوتا اور ان کی گاڑی کو ایئر پورٹ سے باہر لے آتا۔ آیت اللہ خمینی کے بیرون ملک کوئی محلات تھے نہ سوئس بینکوں میں پیسے تھے ۔ جلاوطن رہنے کے باوجود ان کی تقاریر کی کیسٹیں ایران میں سنی جاتیں تھیں، یہی بات ایران میں انقلاب برپا کرنے کا باعث بنی۔ نواز شریف تو وطن سے باہر رہ کر پرتعیش زندگی گزارتے رہے ۔ سعودی عرب میں جدہ کے سرور محل میں قیام کیا اور لندن میں اپنے محلات میں عیش وعشرت سے وقت گزارتے رہے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے اقتدار کے خاتمے کے لئے عمران خان کو اتارا گیا جس نے دو عشروں پر محیط سیاسی جدوجہد میں عوام کو اپنا گروید ہ بنا لیا۔ عمران خان نے اپنے اقتدار کے دوران عوام کے لئے دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہائیں البتہ عوام کو ملک و قوم کو لوٹنے والوں بارے شعور دیا۔ اقتدار سے علیحدہ کئے جانے کے بعد وہ اپوزیشن میں رہتا تو
شائد آج جیل میں نہ ہوتا بلکہ آزادی سے سیاست کر رہا ہوتا۔ ایک سال گزرنے کے باوجود وہ ڈٹا ہوا ہے اور کوئی ڈیل کرنے کو تیار نہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے کسی سیاست دان کے خلاف اتنے مقدمات بنائے گئے جن کا وہ جواں مردی سے سامنا کر رہا ہے۔ نواز شریف جتنی بار جیل گئے ان کا جیل میں کل عرصہ چند ماہ نہیں بنتا۔ نواز شریف وطن لوٹنے کے بعد کئی بار ملک گیر دوروں کا اعلان کر چکے ہیں اس کے باوجود وہ کسی صوبے کا دورہ نہیں کر سکے۔ پنجاب جسے مسلم لیگ نون اپنا قلعہ سمجھتی تھی کوئی بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ عمران خان کی مقبولیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے پہلے تو پی ٹی آئی کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں ملتی ۔ مل جائے تو بھی عوام کو جلسہ گاہ میں آنے سے روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے۔ لاہور کے جلسہ کی بات کریں تو رات گئے جلسہ کی اجازت دی گئی اور جلسہ کے مقامات تبدیل کئے جاتے رہے۔ پہلے جلو موڑ واہگہ بارڈر کے پاس کچھ گھنٹے بعد سگیاں منڈی مویشیاں یعنی لاہور رنگ روڈ کے دوسری طرف پھر کچھ گھنٹے بعد کاہنہ مویشی منڈی کہ عوام جلسہ گاہ نہ پہنچ سکیں۔ مویشی منڈی رنگ روڈ کے کنارے پر واقع ہے۔ رنگ روڈ کو موٹر وے کی طرح جگہ جگہ سے روکے رکھا گیا اور جی ٹی روڈ پر جگہ جگہ ناکے تھے تاکہ دوسرے شہروں سے لوگ جلسہ گاہ نہ پہنچ سکیں۔ لاہور کے رہنے والوں کو جلسہ گاہ پہنچنے کے لئے جلسہ گاہ سے چھ کلومیٹر دور چیکنگ پوائنٹ بنائے گئے تاکہ لاہور سے گاڑیوں پر آنے والوں کو جلسہ گاہ پہنچنے کے لئے کم از کم چھ کلومیٹر پیدل چل کر آنا پڑے۔ مرد و خواتین اور بچے مویشیاں منڈی کی بدبو کے باوجود جلسہ گاہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ تھی پی ٹی آئی کو جلسہ کرنے کی اجازت کی کہانی۔ عجیب تماشا ہے ماسوائے پی ٹی آئی کے کوئی سیاسی جماعت مینا ر پاکستان میں جلسہ کر سکتی ہے انہیں پتہ ہے عمران خان کے نام پر عوام جوق در جوق جلسوں میں پہنچتے ہیں۔ جلسہ کا وقت ختم ہونے پر لائٹس بجھا
دی جاتی ہیں، اللہ کے بندوں جلسہ ایک دو گھنٹے مقررہ وقت سے زیادہ ہو جائے تو کون سی قیامت آجاتی۔ حکومتی وزراء کا دعویٰ ہے جلسہ میں تین ہزار لوگ تھے۔ ایک اردو معاصر نے لاہور کے جلسہ کے مختلف اعداد و شمار لکھے ہیں۔ اخبار کے مطابق پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے جلسہ میں پچاس ہزار لوگ تھے۔ جب کہ آزاد ذرائع کے مطابق 20یا 22ہزار لوگ تھے۔ خفیہ ایجنسی آئی بی نے تیرہ سے سولہ ہزار بتائے ہیں۔ ایک دوسری رپورٹ میں چودہ سے پندرہ ہزار بتائے گئے۔ پنجاب کی سپشیل برانچ کی رپورٹ ہے حاضرین کی تعداد سترہ سے اٹھارہ ہزار تھی لیکن پنجاب حکومت کا دعویٰ ہے چھ ہزار لوگ تھے۔ اتنی رکاوٹیں کھڑی کرنے کے باوجود اٹھارہ ہزار لوگ تھے اگر رکاوٹیں کھڑی نہ کی جاتیں تو کئی لاکھ افراد شرکت کرتے۔ سیاست دان اقتدار میں آکر جانے کیوں حقائق سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ جلسہ گاہ میں لاکھوں افراد ہوتے تو کیا حکومت گر جاتی؟ بس عمران خان کی جماعت کا خوف طاری ہے۔ تاریخ گواہ ہے جنرل ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو کوڑے مارے گئے اور انہیں برسوں جیلوں میں رکھا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے باوجود پیپلز پارٹی زندہ ہے۔ عوام پیپلز پارٹی کو
بھٹو کے نام پر ووٹ دیتے ہیں۔ بھٹو کو پھانسی نہ دی جاتی تو شائد پیپلز پارٹی سندھ سے آئوٹ ہو چکی ہوتی۔ عمران خان کو جیل میں رکھ کر پی ٹی آئی ختم ہو جائے گی یہ حکمرانوں کی خام خیالی ہے۔ عوامی سمندر کے سامنے کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی۔ پاکستان کے عوام کسی بیرسٹر گوہر، شیر افضل مروت، لطیف کھوسہ، حماد اظہر اور گنڈا پور کو نہیں جانتے وہ عمران خان کے نام پر جلسوں میں آتے ہیں۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ نون کو اپنی مقبولیت کا علم ہو گیا تھا۔ ملک میں جب کبھی شفاف انتخابات ہوئے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو اپنی مقبولیت کا پتہ چل جائے گا۔ حیرت اس پر ہے حکومت کی اپنی ایجنسیاں جلسہ میں شرکت کرنے والوں کی تعداد سترہ سے اٹھارہ ہزار بتا رہی ہیں لیکن حکومتی وزراء تین ہزار کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ تعجب ہے اقتدار میں لانے والوں کے لئے عمران خان ناپسندیدہ ہے۔ کبھی اس کا تعلق اسرائیل سے جوڑتے ہیں کبھی بھارت سے جوڑا جا رہا ہے۔ سوال ہے اگر وہ غیر ملکی ایجنٹ ہوتا اسے اقتدار میں لایا جاتا ؟ دراصل طاقتور حلقوں نے اسے underestimateکیا انہیں اس بات کا ادراک نہیں تھا وہ اقتدار میں آنے کے بعد حاشیہ بردار نہیں بنے گا۔ جلسہ میں عوام کی شرکت بارے ہم نے مختلف حلقوں کی رپورٹس تحریر کر دی ہیں جس کے بعد یہ بات عوام پر چھوڑتے ہیں کون سچا ہے؟

جواب دیں

Back to top button