ColumnTajamul Hussain Hashmi

سرکاری فنڈز اور شاہی داماد

تجمل حسین ہاشمی
تھوڑا سوچیں کہ 2050 میں کیا ہوگا جب آبادی 45کروڑ کے لگ بھگ ہوگی۔ ابھی 25کروڑ آبادی کے مسائل سب کے سامنے ہیں، حکومتی کارکردگی بھی سب کے سامنے عیاں ہے۔ معاشی صورتحال انتہائی خراب، لوگوں کے پاس روزگار نہیں، 6۔2کروڑ بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں، تعلیم کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالہ کیا جا رہا ہے، ان تمام سرگرمیوں کے باوجود ملک کی حالت خراب ہے۔ "اسحاق خان خاکوانی نے 2006میں وزیراعظم شوکت عزیز سے مطالبہ کیا کہ چولستان میں بھوک اور پیاس سے موت کا شکار 32بچوں اور ان کی مائوں کا مقدمہ چیئرمین پلاننگ ڈویژن اکرم شیخ، خوشحالی پروگرام کے پروجیکٹ ڈائریکٹر محمد انور اور دیگر سٹاف کیخلاف درج کیا جائے، جنہوں نے چولستان کے فنڈز میں سے کروڑوں کی نئی گاڑیاں خریدیں اور اپنے دفتر اور باتھ روم میں ان فنڈ سے ٹائلیں لگوائیں۔ لیکن وزیراعظم صاحب نے الٹا ان سے ناراضی کا اظہار کیا اور بیان واپس لینے پر زور ڈالا۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ تبھی تو ملک کی تشویشناک حالت ہے۔ جن نوجوان پر تکیہ کیا جارہا ہے، جو ملک کے معمار ہیں ان کے مستقبل کو تاریک کیا جارہا ہے۔ آج بھی کئی علاقے بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ساری ساری رات بجلی کے انتظار میں سوتے نہیں ہیں۔ سیاسی بیانیوں اور سیاسی مقدمات سے ملک کو چلایا جارہا ہے۔ دیہی علاقے میں محرومی ناچ رہی ہے۔ تھرپارکر کے ترقیاتی فنڈز وہاں خرچ کرنے کے بجائے لکی مروت کے ٹھیکیداروں کو بیچ دیئے جاتے ہیں۔ بچوں کی محرومی سے کسی کو فرق نہیں پڑتا۔ خود کو جمہوری کہنے والوں نے ملک کو بے دردی سے لوٹا ہے، اس لوٹ مار کی قیمت آج قوم ادا کر رہی ہے۔ یہ تکلیف کئی سالوں تک قوم کو برداشت کرنی ہوگی۔ اربوں ڈالر قرضہ سے نجات ممکن نہیں۔ جناب رئوف کلاسرا اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ملتان سے سینیٹر رفیق رجوانہ کو 1کروڑ کا ترقیاتی فنڈ ملا جو شاہی داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو مانسہرہ بھجوا دیا۔ سینیٹر چودھری جعفر گجر کو معلوم ہوا کہ رجوانہ صاحب نے بازی مار لی ہے تو گجر صاحب نے بھی 1کروڑ داماد صاحب کے حلقے کو ٹرانسفر کر دیا۔ پرویز رشید، اسحاق ڈار، ظفر علی شاہ بھی پیچھے نہیں رہے اور کروڑوں روپے کے فنڈز انہیں بھجوا دیئے۔ بہاولپور شہر کی دو خواتین ایم این اے بھی پیچھے نہیں رہیں اور اپنے فنڈز لیڈر کے داماد کیپٹن صفدر کو تحفے میں بھجوا دیئے۔” ان علاقوں کے لوگوں کا کیا قصور جنہوں ان کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجا ہے تاکہ وہ ہمارے مفادات کا تحفظ کریں لیکن ان کے خیالات میں پارٹی لیڈر کی محبت، وفاداری زیادہ معتبر رہی، اس محبت کے بدلہ میں جھوٹ، فراڈ اور سرکاری لوٹ مار ممکن ہوتی ہے۔ اس لاقانونیت، ناانصافی کیلئے کوئی ترمیم نہیں ہوگی۔ ہمارے ہاں کیسا نظام ہے کہ دہشت گرد کی گولی سے مرنے والے کیلئے مالی گرانٹس، بھوک افلاس سے مرنے والے کو قبر بھی مفت نہیں ملتی ہے۔ سرکار کو ان بچوں کی کوئی فکر نہیں۔ چند سو بچوں کے مرنے سے ان کی صدارت پر کوئی اثر نہیں۔ لکھاری اپنے قلم سے مسائل کو اجاگر کرتے رہیں، کسی کو کوئی فکر نہیں۔ میڈیا کی خبر طوفان ثابت ہوتی ہے اور آج کسی کو پروا نہیں۔ نااہلی سے مسائل میں اتنا اضافہ ہوچکا ہے کہ اداروں میں بیٹھے سرکاری ملازمین بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس ان کو کنٹرول کرنے کیلئے وسائل نہیں۔ صوبائی حکومتیں اپنی سیاست سے زندہ ہیں۔ قانونی اصطلاحات سے بہتری نہیں آسکتی۔ آئینی کورٹ کا قیام ملکی
مسائل میں کیسے تبدیلی کا باعث ہوگا جب کہ قائم عدالتیں بھی اسی آئین کے تحت کام کر رہی ہیں۔ اچھے قوانین اور مضبوط فوج ریاست کی مضبوطی کی ضمانت ہیں، ہمارے ہاں دونوں موجود ہیں لیکن قوانین پر طاقتور اثر انداز ہیں۔ دنیا انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے۔ وہاں حیوانات اور نباتات تک کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں چاروں طرف لاقانونیت ہے، اقتدار اور اختیار کی جنگ کئی برسوں سے جاری ہے، ملکی معیشت مزید کسی قدرتی بحران کو برداشت نہیں کر سکے گی۔ قدرتی بحرانوں سے بچائو کیلئے دنیا آپ کے ساتھ کھڑی تھی لیکن اس امداد سے کسی متاثرہ فرد کو کوئی سہولت میسر نہیں ہوئی۔ اس طرز پر اگر مزید ملک چلایا گیا تو بڑے نقصان کا خدشہ ہے، سیاست دانوں کو طرز حکمرانی تبدیل کرنا ہوگا اور غریب بچے جو ملک کا سرمایہ ہیں ان کے تحفظ کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے۔ بروقت اقدامات ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری لا سکتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button