ColumnQadir Khan

افغان عبوری حکومت کی حکمت عملی اور سیاسی مستقبل

قادر خان یوسف زئی
2021 ء میں افغان طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد افغانستان میں ایک نئی حکومت قائم ہوئی جس نے نہ صرف افغان عوام کی زندگیوں کو متاثر کیا بلکہ بین الاقوامی تعلقات اور عالمی سیاست میں بھی ہلچل مچا دی۔ افغان طالبان کی یہ حکومت بظاہر ایک عبوری سیٹ اپ کے طور پر سامنے آئی، جسے 2020ء کے ’ دوحہ معاہدے‘ کی روشنی میں تمام افغان گروہوں پر مشتمل ایک جامع سیاسی نظام کی تشکیل کے لیے قائم کیا جانا تھا۔ دوحہ معاہدہ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان ہوا تھا، جس میں ایک جامع اور متنوع حکومت کے قیام کا وعدہ کیا گیا تھا، تاکہ افغانستان میں استحکام اور امن بحال کیا جا سکے۔ دوحہ معاہدہ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس کے تحت ہی افغان طالبان نے نہ صرف امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کی راہ ہموار کی بلکہ افغانستان میں ایک وسیع البنیاد سیاسی نظام تشکیل دینے کا عہد بھی کیا۔ اس معاہدے کا ایک بڑا مقصد یہ تھا کہ افغانستان میں جمہوری اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے ایک ایسی حکومت بنائی جائے جو تمام افغان عوام کی نمائندہ ہو۔ تاہم، افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اس معاہدے کی روح کے مطابق کوئی ٹھوس پیش رفت نظر نہیں آئی۔ دوحہ معاہدے کی رو سے ایک ’ عبوری حکومت‘ کا قیام ضروری تھا، جس کا مقصد ایک مستقل اور جامع حکومت کی راہ ہموار کرنا تھا، لیکن افغان طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد نہ تو عبوری حکومت کے دورانیے کا کوئی تعین کیا اور نہ ہی کسی جامع سیاسی ڈھانچے کی تشکیل پر توجہ دی۔ اس صورتحال نے افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
افغان طالبان کی جانب سے تشکیل دی گئی عبوری حکومت بظاہر ایک ’ عبوری سیٹ اپ‘ کے طور پر پیش کی جا رہی ہے، لیکن اس کے مقاصد اور مدت ابھی تک غیر واضح ہیں۔ افغان طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کسی انتخابی عمل کا اعلان نہیں کیا اور نہ ہی کسی آئینی کمیٹی کی تشکیل کی گئی ہے جو ملک کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرے۔ اس کے برعکس، افغان طالبان نے اپنے نظریاتی اصولوں کے مطابق حکومت کو جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے، جس میں مذہبی قوانین اور افغان طالبان کی تشریح کے مطابق شریعت کی بنیاد پر حکومتی ڈھانچہ قائم کرنا شامل ہے۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا افغان طالبان واقعی ایک عبوری حکومت کے تحت ملک میں استحکام اور ’ جمہوریت‘ کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں، یا پھر وہ اپنی حکومت کو مستقل بنیادوں پر قائم رکھنا چاہتے ہیں؟ افغان طالبان کی حکومت میں مختلف افغان گروہوں کی شمولیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ خدشہ پیدا ہوا تھا کہ افغانستان میں نظام حکومت کا ویسا نہیں ہوگا جس کا تصور کیا جاتا ہے کہ عوام اپنے منتخب نمائندوں کا انتخاب ویسا کریں گے جیسا کہ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں ہوتا ہے۔ افغان طالبان اب تک اپنی تشریح کے مطابق نظام و انصرام چلا رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا انہیں ان کے اسی رخ کو دیکھتے ہوئے ان کی حکومت کو تسلیم کر لے۔
افغان عبوری حکومت کا ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ جمہوری اصولوں پر مبنی نظام کو قبول کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انتخابی عمل کسی بھی جمہوری حکومت کی بنیاد ہوتا ہے، اور قیادت کا تعین عوامی رائے کے مطابق کیا جاتا ہے، لیکن افغان طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کسی انتخابی عمل کی بات نہیں کی۔ نہ تو پارلیمانی انتخابات کا اعلان کیا گیا اور نہ ہی کوئی ایسی سیاسی حکمت عملی پیش کی گئی جس کے تحت عوامی نمائندگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ انتخابات کی غیر موجودگی افغان عبوری حکومت کی نیت پر سوالات اٹھاتی ہے، کیونکہ جمہوریت کے بغیر کوئی بھی حکومت عوام کی حمایت سے محروم رہتی ہے۔ افغان طالبان کی موجودہ حکومت اگرچہ عبوری حکومت کہلائی جا رہی ہے، لیکن اس میں عوامی رائے یا انتخابی عمل کی کوئی گنجائش نہیں دکھائی دیتی۔ افغان حکومت کو ایک اور بڑا چیلنج آئینی خلا کا سامنا ہے۔ سابق افغان حکومت نے ایک آئین تشکیل دیا تھا جس کے تحت ملک کا سیاسی نظام چلایا جاتا تھا، لیکن افغان طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس آئین کو معطل کر دیا اور اپنی شریعت کی تشریح کے مطابق حکومت کرنے کا اعلان کیا۔ جس سے سیاسی اور قانونی مسائل جنم لے رہے ہیں۔
افغان طالبان نے تاحال کوئی نیا آئین متعارف نہیں کروایا اور نہ ہی کوئی آئینی کمیٹی تشکیل دی ہے جو مستقبل میں آئین سازی کا عمل شروع کرے۔ یہ صورتحال ملک کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی کو بڑھا رہی ہے۔ آئین کسی بھی ملک کے سیاسی اور قانونی نظام کی بنیاد ہوتا ہے، اور اس کی غیر موجودگی میں حکومت کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ اگر فقہ کے حساب سے ان کا اپنے آئین کا تصور ہے تو یہ امر قابل توجہ ہے کہ دوحہ معاہدے کے تحت مسلکی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر افغانستان کا انتظام کسی گروپ کے حوالے نہیں کیا گیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان حکومت کو تسلیم کیے جانے کا مسئلہ عالمی برادری کے لیے ایک حساس معاملہ ہے۔ زیادہ تر ممالک نے اب تک افغان عبوری حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔ اس کی وجہ افغان طالبان کی جانب سے انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، اور جمہوری اقدار پر عمل درآمد میں ناکامی ہے۔ خاص طور پر مغربی ممالک اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ افغان طالبان ایک ایسی حکومت قائم کریں جو عالمی اصولوں اور قوانین کے مطابق ہو۔ افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کئے جانے کا مسئلہ اس وقت تک معلق رہے گا جب تک وہ عالمی برادری کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور نہیں کرتے اور ایک ایسی حکومت قائم نہیں کرتے جو انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کا احترام کرے۔
عالمی برادری کی جانب سے اقتصادی پابندیاں اور مالی امداد کی معطلی افغانستان کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ کر رہی ہیں۔ افغان طالبان کو اگر عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت بننا ہے تو انہیں بین الاقوامی مطالبات کو پورا کرنا ہوگا۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال انتہائی پیچیدہ اور نازک ہے۔ افغان عبوری حکومت کو کئی اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں افغان سر زمین کا شدت پسندوں کی جانب سے پڑوسی ممالک کے خلاف مسلسل استعمال کئے جانا اور دوحہ معاہدے کے مطابق ان کے خلاف کوئی مناسب کاروائی نہ کئے جانا شامل ہے۔ آئے روز پاکستان جیسے ملک ، جس نے افغان مہاجرین کو چار دہائیوں سے پناہ دی ہوئی ہے ، کے خلاف عالمی سرحدی خلاف ورزیاں کرکے تنائو میں اضافے کا بھی موجب بن رہے ہیں ، کئی توجہ طلب امور ایسے بھی ہیں جن کا حل کوئی عالمی تسلیم شدہ مستقل حکومت ہی نکال سکتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button