کی محمدؐ سے وفا تو نے۔۔۔

صفدر علی حیدری
جن کی شان یہ ہو کہ وہ اپنی خواہش سے نہ بولتے ہوں بلکہ وہ صرف وحی ہوتی ہو جو ( اس پر) نازل کی جاتی ہو ۔ ان کی کسی بات پر شک کرنا ، ان سے ان کی کسی بات کی تصدیق چاہتا یا یہ پوچھنا کہ یہ ان کی ذاتی بات ہے یا پیغام الٰہی ہے ، ہرگز روا نہیں ہے ۔ ان کی شان یہ ہو کہ وہ جس بات کا حکم دے دیں ، وہ دین بن جائے ۔ جس کام سے روکیں وہ ممنوع قرار پائے۔ جو کام آپ کے سامنے ہو اور آپ منع نہ فرمائیں مسنون سمجھا جائے ۔ ان کی شان تو یہ ہے کہ ان کی آواز سے آواز بلند کرنا جسارت سمجھا جائے ۔ ان کا کیا ہوا فیصلہ قبول کر لیا جائے اور دل میں تنگی بھی محسوس نہ ہو ۔ ان کی شان تو یہ ہے کہ ان کے بارے ارشاد ہو کہ وہ مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ۔ جن کے بارے یہ باور کروایا جائے کہ ان اپنے اوپر قیاس نہ کرو ۔ سچ کہا ہے کسی نے
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں اور
پھر یہ بھی تو ہے کہ عشق بن یہ ادب نہیں آتا
یہ جہان کیا ہے پیار کا پھیلائو ہے کہ اسی پیار کے لیے اس نے اپنے محبوب کو جیسا چاہا ویسا بنایا اور ایسا بنایا کہ آج تک ایسا کسی ماں نے نہیں جنا۔ آج تک مخلوق انگشت بدنداں ہے۔ محبوب الٰہیؐ سے پیار دین کی اصل ہے ، ان کی اتباع سے ایک مومن محبت الٰہی کا حق دار قرار پاتا ہے۔ یہ وہ ہیں کہ جو آیات الٰہی کی تلاوت کر کے مومنین کے نفوس کا تزکیہ کرتا ۔ ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، ابتداء اسلام سے آج تک اور آج سے قیامت تک ان کی کہی ہوئی بات حکم کا درجہ رکھتی ہے۔ امت اگرچہ گروہوں میں بٹی ہوئی ہے لیکن کسی ایک کو بھی یہ جرات کبھی نہیں ہوئی کہ وہ کہے یہ میں اپنی رائے سے کہہ رہا ہوں۔ ہر عمل کو سمت قرار دیا جاتا ہے اور ذخیرہ احادیث سے ثبوت پیش کیا جاتا ہے تاکہ اس عمل کو قابل قبول گردانا جائے۔ اس ہستی کی شان کیا بیان ہو کہ ان کی ہر ہر قدم پر وحی کا پہرا ہےجن کے حوالے سے صحابہ کرامؓ کا ایمان یہ کہے آپ پر ہمارے ماں باپ قربان اور کبھی یہ قلبی و ایمانی تعلق یہ کہے’’ ہمارے لیے اللہ اور اس کا رسولؐ کافی ہے ‘‘۔
قرآن کریم میں جہاں نبی کریمؐ کی سیرت طیبہ کا بیان ہے، وہیں آنحضرتؐ کی اطاعت و اتباع کا حکم بھی ہے، اسی طرح سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفیٰؐ کے سامنے ادب و احترام کے تقاضے بجا لانے کی تعلیم بھی ملتی ہے۔ بے شمار آیات مبارکہ اس پر شاہد ہیں کہ اہل ایمان پر نبی کریمؐ کا ادب کرنا اور تعظیم نبویؐ کو ہر حال میں ملحوظِ خاطر رکھنا ایمان کی سلامتی کے لئے لازمی اور ضروری ہے۔
جب نبی کریمؐ مجلس میں تشریف فرما ہوں تو کسی در پیش معاملے میں آپؐ سے پہلے کوئی نہ بولے، جب آپؐ چل رہے ہوں تو کوئی آپؐ سے آگے نہ بڑھے ۔ مجلس طعام میں کوئی آپ سے پہلے کھانا شروع نہ کرے۔ نبی کریمؐ کی رائے کو ہر معاملے میں مقدم رکھا جائے ۔ نبی کریم ؐ کے ادب کا ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ کوئی ایسا عمل نہ کیا جائے، جو آنحضرتؐ کے لیے باعث اذیت ہو۔
1۔ نبیؐ خدا کے گھر میں بغیر اجازت داخل نہ ہوں۔
2۔ نبی کریمؐ جب اپنے گھر کھانے پر مدعو فرمائیں تو اول تو مہمان حضرات اس بات کا خیال رکھیں کہ کھانے کی تیاری کے انتظار میں نہ بیٹھیں، جب دعوت دی جائے تو جائیں، اور جب کھانا کھا چکیں تو اپنی اپنی راہ لیں اور باتوں میں جی نہ لگائیں ۔ جب نبی کریمؐ کی ازواج مطہاتؓ سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا جائے۔ نبی کریمؐ کے دنیا سے پردہ فرما لینے کے بعد آپؐ کی ازواج مطہرات ؓ سے نکاح کی ممانعت فرما دی گئی۔
آئیے حبیب کبریاؐ کے بارے قرآنی آیات ورد کرتے ہیں ۔ یاد کرتے ہیں کہ اللہ ہم سے کیا چاہتا ہے۔
’’ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسولؐ کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے‘‘۔ ( سورہ حجرات )۔
’’ اے ایمان والو ! اپنی آوازیں نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو اور نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات نہ کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال ضبط ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو ‘‘۔ ( سورہ حجرات )۔
’’ اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو ( تو بہتر ہے) کیونکہ تم دونوں کے دل ٹیڑھے ہو گئے ہیں اور اگر تم نبیؐ کے خلاف ایک دوسرے کی پشت پناہی کرو گی تو اللہ یقینا اس ( رسول) کا مولا ہے اور جبرائیل اور صالح مومنین اور فرشتے بھی اس کے بعد ان کے پشت پناہ ہیں ‘‘۔ ( سورہ تحریم )۔
’’ محمدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ہاں وہ اللہ کے رسولؐ اور خاتم النبیّینؐ ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے ‘‘۔ ( سورہ احزاب )۔
’’ جو آپ کو بلند آواز سے پکارتے ہیں ان میں اکثر ایسے ہیں جن کو مطلق عقل اور تمیز نہیں بہتر تھا کہ صبر کرتے اور جب آپ باہر نکلتے تو مل لیتے‘‘۔ ( القرآن)۔
’’ اگر واقعی محبت الٰہی کے مدعی ہو تو رسولؐ کا اتباع کرو؟ خود اللہ تم کو اپنا محبوب بنائے گا اور تمہارے گناہوں کو بخشنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے‘‘۔ ( القرآن )
’’ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کی مخالفت کرتے ہیں وہ اُسی طرح ذلیل و خوار کر دئیے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے کے لوگ ذلیل و خوار کیے جاچکے ہیں‘‘۔ ( المجادل)
’’ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کو تکلیف پہنچاتے ہیں، اللہ نے دنیا اور آخرت میں ان پر لعنت کی ( یعنی ایسے لوگوں کو اپنی رحمت سے دور کر دیا ) ہے اور ان کیلئے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘۔ ( القرآن)۔
’’ اے رسولؐ تمہارے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے باہمی تنازعات میں آپ کو منصف نہ بنائیں پھر آپؐ کے فیصلے پر ان کے دلوں میں کوئی رنجش نہ آئے بلکہ وہ ( اسے) بخوشی تسلیم کریں‘‘۔ ( القرآن )۔ احترام نبیؐ کے حوالے سے حضرت ثابت بن قیسؓ کے واقعے کو بڑی اہمیت حاصل ہے کہ وہ بلند پایہ مقرر تھے۔ فطری طور پر ان کی آواز بلند تھی۔ جب اس آیت کا نزول ہوا تو وہ اپنے گھر بیٹھ گئے۔ ندامت اور پریشانی حد درجہ عروج پر تھی۔ گمان تھا کہ سارے اعمال ضائع ہوگئے۔ جب حضور اکرمؐ کو ان کی کیفیت کا علم ہوا تو انہیں بلایا اور ارشاد فرمایا: ’’ تم اہلِ دوزخ سے نہیں اہلِ جنت میں سے ہو ‘‘۔
جس طرح قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ رب تعالیٰ نے لیا ہوا ہے، اسی طرح اپنے نبی پاکؐ کی حرمت کی حفاظت بھی اسی کے ذمے ہے۔ مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ گستاخ رسول کی سزا موت ہے ۔
کس قدر دکھ کا مقام ہے کہ ایک فتنہ پرور ملاں، جو فرقہ پرست ہے۔ جس کی زبان مخالفت فرقے کے لوگوں کے لیے تلوار سے زیادہ کاٹتی ہی۔ جس کا واحد مقصد اپنے چینل پر بیٹھ کر نفرت پھیلانا ہے، وہ اس قدر بے باک ہو گیا کہ کلام الٰہی کے بارے یہ کہے کہ اس میں گرامر کی بہت سی غلطیاں ہیں۔ جو اسے کاتب کی غلطی قرار دے۔ نبی مکرمؐ کو معاذ اللہ، ان پڑھ کہے ( حالاں کہ امی کا مطلب ہے ماں کے پیٹ سے تعلیم یافتہ۔ علم لدنی کا حامل )
کوئی انسان مچھلی کو تیرنا سکھانے کی بات کرے تو اس کی دماغی حالت پر شک ہی کیا جا سکتا ہے۔ جس جاہل کو یہ معلوم نہ ہو کہ اعراب تو آپؐ کے دور میں قرآن مجید پر تھے ہی نہیں۔ وہ تو حجاج بن یوسف کے دور میں لگائے گئے تھے ۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ جب عجمی لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہوئے اور ان کو بغیر اعراب اور نقطوں کے قرآن پڑھنے میں مشقت ہونے لگی، تو حضرت ابو الاسود دئولیؒ نے قرآن پاک پر نقطے اور اعراب ( حرکات) لگانے کی ابتدا فرمائی، اس کے بعد حجاج بن یوسف کے کہنے پر تین حضرات، حسن بصری، یحییٰ بن یعمر اور نصر بن عاصمؒ نے اس کی تکمیل کی ۔
یہ تو ایک مولوی ہے دنیا کے سارے ملاں مل کر اعتراض کریں، ہمارے لیے ان کی حیثیت گرد پا جیسی بھی نہیں ہے۔ قرآن اور حامل قرآن کی شان اعلیٰ و ارفع ہے۔ ان کی عظمت کے آگے ہر بلندی سر نگوں ہے۔ یو ٹیوب کی کمائی کھانا والا بے حمیت ملاں اب معافی تلافی پر اتر آیا ہے۔ اس کی پیٹ پر لات پڑی تو اسےیاد آیا کہ جوش خطابت میں اس کے منہ سے کیسی ہفوات نکلی ہیں ۔
میرا ایمان ہے بنی امیہ کے اس گماشتے کو یہ دن اس وجہ سے دیکھنے پڑا ہے کہ اس بد طینت نے حال ہی میں یزید کی وکالت کی تھی۔ اس نے نہ صرف اسے واقعہ کربلا سے بری الذمہ قرار دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ یزید کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ بدکردار شخص تھا درست نہیں ہے۔
میری آپ سب سے استدعا ہے کہ اس کا چینل رپورٹ کریں تاکہ اس کا چینل بین ہو جائے۔ تاکہ آئندہ کسی فرقہ پرست جاہل ملاں کو ایسا سوچنے کی بھی ہمت نہ ہو۔
آخر میں دو اشعار
دنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ
میں سب کو مانتا ہوں مگر مصطفیٰؐ کے بعد
اور
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں