حماقت دہرانے کی گنجائش؟

تحریر : سیدہ عنبرین
مختلف زمانوں میں قائم بادشاہتوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ایک بات مشترک نظر آتی ہے، ہر دربار میں بادشاہ کے منظور نظر افراد کا ایک گروپ موجود ہوتا تھا، بادشاہ انہی سے مشاورت کرتا، انہی کے مشوروں پر عمل کرتا اور ان مشوروں پر عمل کرتے کرتے اپنے انجام کو پہنچ جاتا، انجام کار کبھی کوئی حملہ آور اس کی سلطنت پر قبضہ کر لیتا اور بادشاہ کی گردن اڑا دیتا، کبھی بادشاہ اپنوں کے ہاتھوں پس دیوار زنداں پہنچ جاتا اس کی آنکھیں نکلوا دی جاتیں، کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈلوا دیا جاتا، بس یہ خیال رکھا جاتا کہ زندہ رہے مگر نشان عبرت بنا رہے، اس کے خاص مشیر سازش کرتے اور نئے بادشاہ کے مصاحب بن جاتے، بادشاہ سے ہمدردیاں رکھنے والے کہتے نظر آتے بادشاہ تو بہت اچھا تھا، اس کے مشیر بہت برے تھے، انہوں نے بادشاہ کو اس انجام سے دوچار کیا، ہمارے جمہوری بادشاہوں کے بارے میں بھی یہی کہانیاں مشہور ہیں، ایسے ہی ایک دربار میں مصاحب بڑھ چڑھ کر مشورے دے رہے، اول اول فیصلہ ہوا کہ تحریک انصاف کو مینار پاکستان پر جلسے کی اجازت دے دی جائے، ایک مصاحب نے پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہو گا، یہ لوگ اس سے قبل وہاں ایک تاریخ ساز جلسہ کر چکے ہیں، وہ اس مرتبہ بھی پنڈال بھرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور ایک کبوتر کی بجائے شاید سیکڑوں، ہزاروں کبوتر اپنے دائیں بائیں بٹھا لیں، یوں ایک نیا ریکارڈ بن جائے گا، عین ممکن ہے یہی پنڈال اس جماعت کو نئی زندگی بخش دے، مصاحب کا مشورہ پسند آیا، دوسرے مشورے کے مطابق چلو پارک میں اجازت دے دی گئی، مصاحب نے بروقت مشورہ دیا جلو پارک پہنچنا قدرے آسان ہے، وہاں ویک اینڈ پر اتنی خلقت ہوتی ہے کہ جلسے کا گمان ہوتا ہے، تھوڑا سا کرائوڈ بھی آ گیا تو جلو پارک بھر جائے گا، لہٰذا یہ جگہ بھی مناسب نہیں، مصاحب کا مشورہ پسند آیا، مشیر با تدبیر نے مشورہ دیا جگہ ایسی ہونی چاہئے جو اہل لاہور کیلئے بھی اجنبی ہو، یوں مویشی منڈی میرٹ پر پوری اتری، جیسے 2کروڑ آبادی والے شہر لاہور کے فقط چند لاکھ افراد نے ہی دیکھا ہو گا، وہ بھی سال میں ایک مرتبہ، جب عید کے موقع پر قربانی کے جانور خریدنے کیلئے ادھر کا رخ کیا جاتا ہے، مزید اہتمام یہ کیا گیا کہ درجنوں سرکاری حربوں کو بروئے کار لاتے ہوئے رات کے 10بجا دیئے گئے، پھر درجنوں شرائط کے ساتھ 3گھنٹے کی اجازت دی گئی، مصاحبوں نے یقین دلایا تھا کہ اتنے کم نوٹس پر انتظامات ہی نہ ہو سکیں گے، پس من کی مراد پوری ہو جائے گی اور بآسانی ڈھنڈورا پیٹا جا سکے گا کہ جلسہ فلاپ ہو گیا، لاہور نے اس جماعت کو مسترد کر دیا، اب کوئی ان کا نام لیوا باقی نہیں، فروری میں ہونے والے انتخابات سے قبل بھی اس قسم کی تیاری کے بعد یہی سوچا جا رہا تھا کہ شاید اب کوئی گھر سے ووٹ ڈالنے بھی نہ نکلے، لیکن لوگ نکلے، انہوں نے نہایت خاموشی سے اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ ڈالا اور رخصت ہو گئے۔ دوسری طرف دن ڈھلنے سے کچھ پہلے ہی وکٹری سپیچ تیار ہو چکی تھی، سپیچ رائٹر خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے، نئے لباس زیب تن کئے خوشبوئوں میں نہائے بادشاہ سلامت قوم سے خطاب کیلئے پہنچے تو انہوں نے احتیاطاً اپنے مشیر خاص سے تازہ ترین پارٹی پوزیشن منگوائی، وہ آیا تو اس کا منہ لٹکا ہوا تھا، اس نے بتایا کہ جناب والا آپ کے شہر نے، آپ کے صوبے نے، آپ کے ووٹرز نے، آپ کو، آپ کی جماعت کے نامور وزیروں، مشیروں کو مسترد کر دیا ہے، آپ کی اور آپ کے اہل خاندان کی نشستیں بھی خطرے میں ہیں، بازی الٹ چکی ہے۔ یہ اطلاع پا کر شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر، اکبر ثانی کا منہ لٹک گیا، وکٹری سپیچ کی بجائے اعتراف شکست کرنا پڑا، اسلام آباد ہاتھ سے نکل گیا تو لاہور بچانے کی تگ و دو شروع ہوئی، پھر کئی بیساکھیاں اکٹھی کر کے کھڑے ہونے کی کوششیں شروع ہوئیں، جب سے اب تک ہر وقت ایک خطرہ رہتا ہے، کوئی بیساکھی نہ کھینچ لے، بادشاہ سلامت کا تجربہ انہیں آگاہ رکھتا ہے بیساکھیاں کتنی کمزور ہیں، پس وہ اپنے آپ کو سنبھالنے میں لگے رہتے ہیں، قدم رکھتے کہیں ہیں، پڑتا کہیں ہے، قدم ڈگمگا رہے ہیں، جان کے لالے پڑے ہیں، قانونی بیساکھی بغل سے نکل گئی تو پھر کیا ہو گا۔ یہ تصور اس قدر خوفناک ہے کہ راتوں کی نیند اجاڑ گیا ہے۔ آئین و قانون کی مالا ہر وقت جپنے والے اسی آئین اور قانون کے سہارے وہ کچھ کرتے نظر آتے ہیں جیسے آئین و قانون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کہنا مناسب ہے، ایک شخص کی کرسی کو بچانے کیلئے پورے ملک کو دائو پر لگا دیا گیا ہے، مصاحب پھر مشورہ دے رہے ہیں کچھ نہیں ہو گا، آپ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں کر گزریں، یہ قوم اب مٹی کا مادھو بن چکی ہے، یونہی چپ چاپ بیٹھی رہے گی۔ یاد رہے کہ جنرل پرویز مشرف کو ان کے مشیروں نے بھی یہی مشورہ دیا تھا، انہوں نے ایک شخص کی کرسی کھینچنے کی کوشش کی تھی، ان کی اپنی کرسی بھی جاتی رہی۔ جنرل مشرف نے اپنے منتخب کردہ پسندیدہ شخص کی سازش کو نہ سمجھ سکے، ان کے کھودے ہوئے گڑھے میں ایسے گرے کہ اٹھ نہ سکے۔
اپوزیشن جماعت کی نشستیں چھیننے والے پہلے بھی بے آبرو ہو چکے ہیں، لیکن ایک نئی کوشش کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں، آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ اگر کوئی سیاسی جماعت کسی بھی وجہ سے اپنی مخصوص نشستیں حاصل نہ کر سکی تو وہ تمام نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں ریوڑیوں کی طرح بانٹ دی جائیں، نہ ہی الیکشن ایکٹ اس بات کی اجازت دیتا ہے، یہ بات حد درجہ لغو ہے کہ چونکہ ہم نے ہائوس مکمل کرنا ہے لہٰذا اس کیلئے ڈکیتی جائز ہے، کہا جا رہا ہے کہ مقدمات کی بھرمار ہے، لہٰذا ایک اور عدالت، ایک اور چیف جسٹس کے آنے سے انصاف بہم پہنچانے کی رفتار تیز ہو جائے گی، اس کے ساتھ ہی انصاف کی رفتار کا گلا گھونٹے کا اہتمام بھی نظر آتا ہے۔ یہ حکم بھی جاری کر دیا گیا ہے کہ نیا مقدمہ لائن میں لگے گا، اسے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑے گا، چاہے یہ باری 10برس بعد آئے، پہلے سے موجود مقدمات کا فیصلہ سماعت پہلے ہو گی۔ انصاف کے تقاضے اس انداز میں پورے کرنے کی منصوبہ بندی کرنے والے چہرے بے نقاب ہو رہے ہیں، وکلا نمائندے اور لیڈر اس جاری غیر اخلاقی طرز عمل پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر چکے ہیں، اس کے خلاف تحریک کا عندیہ دے چکے ہیں، لیکن مشیران سرکار اب بھی آقا کو یقین دلا رہے ہیں کہ کچھ نہیں ہو گا، آپ اپنے وژن کے مطابق قدم بڑھائیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں، کچھ عجب نہیں بادشاہ سلامت اندھیرے میں قدم بڑھائیں، مڑ کے دیکھیں تو کوئی پیچھے نہ ہو، حماقت دہرانے کی گنجائش نہیں ہے، مشیر بھی پرانے ہیں، گڑھا بھی دیکھا بھالا ہے۔