Column

رئیس الفقراء حضرت پیر سید مستان شاہ سرکار حق بابا چشتی صابریؒ

تحریر :ضیاء الحق سرحدی
جنوب مشرق ایشیا ء میں بالعموم اور برصغیر پاک و ہند میں بالخصوص اولیا ء کرام صوفیائے عظام اور بزرگان دین نے اسلام کی تبلیغ اشاعت کے لیے نمایاں کردار ادا کیا طریقت کے چاروں سلاسل سے فیض یاب بزرگوں نے اس خطے میں اشاعت دین کے لیے اپنی زندگیاں وقف کیں اللہ تعالیٰ کی ذات ہی یکتا اور واحد لاشریک ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے آسمان کی خوبصورتی کے لیے ستاروں کو تخلیق کیا اور ستاروں کے جھرمٹ میں چاند کو نمایاں کیا اسی طرح زمین کی خوبصورتی کے لئے انسانوں کو تخلیق کیا اور اشرف مخلوقات بنا کر بھیجا جس طرح نظام شمسی کا متحرک ستارہ صرف اس لئے ہے کہ اپنے مدار آفتاب کا طواف کرے اسی طرح انسانوں کے گروہ اور آبادیوں کے ہجوم میں بھی اولیاء کرام تا قیامت چمکتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لئے مختلف زمانوں میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبرٌ بھیجے یہ سلسلہ حضور اکرمؐ تک جاری رہا اور آخر میں حضرت محمدؐ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر یہ سلسلہ بند کر دیا گیا کیونکہ آپؐ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا، صحابہ کرامؓ ، تابعین ، تبع تابعین اور اولیاء کرام مختلف اوقات میں تبلیغ اسلام کے لئے خدمات سر انجام دیتے رہے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک مختصر سے امتحان کے لئے دنیا میں بھیجا ہے اور اسے تمام مخلوقات سے اشرف قرار د ے کر ہر چیز کو اس کے تابع کر دیا ہے اور ہر طرح کی لا متناہی اور لاتعداد نعمتوں سے نوازا ان تمام نوازشات کے ساتھ یہ حکم بھی ملا ہے کہ یہ سب کچھ عارضی ہے اہل اسلام میں صوفیائے کرام نے فروغ اسلام کے عظیم ترین فریضہ کو جہاد سمجھ کر ادا کیا اور صوفیائے عظام نے خود کو کسی ایک طبقہ یا فرقہ کے لیے مخصوص نہیں کیا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے خود کو محض دین کے لئے وقف کئے رکھا برصغیر میں اسلام کی ترویج و ترقی میں بزرگان دین کا کردار بڑا اہم ہے جن کی بدولت یہ خطہ اسلام کی لازوال دولت سے مالا مال ہوا ہے اسی وجہ سے صوفیائے کرام کا بہت زیادہ اثر ہمیں برصغیر پاک و ہند میں نظر آتا ہے انہی بزرگان دین میں پیرانِ پیر حضرت سید شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، خواجہ خواجگان خواجہ معین الدین چشتیؒ سنجری اجمیری ، حضرت بختیار کاکیؒ، حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکرؒ، حضرت علائوالدین احمد صابر کلیریؒ، حضرت نظام الدین اولیائؒ، حضرت داتا گنج بخشؒ، حضرت سید عثمان مرو ندی المعروف حضرت شہباز قلندرؒ، حضرت شاہ عبد الطیف بھٹائیؒ، حضرت بری امام سرکارؒ، حضرت بو علی قلندرؒ پانی پتی، حضرت شاہ قبول اولیائؒ، حضرت پیر و مرشدی پیر سید عبدالرحمان شاہ بابا چشتی صابریؒ تمبر پورہ شریف پشاور، حضرت مولانا سید امیر شاہ گیلانی قادریؒ المعروف مولوی جی یکہ توت شریف پشاور اور پیر و مرشدی رئیس الفقراء حضرت پیر سید مستان شاہ سرکار حق باباؒ تمبر پورہ شریف پشاور کی شب و روز محنتوں کا نتیجہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں بر صغیر کو اولیاء کرام کی سرزمین کہا جاتا ہے جہاں قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے ڈیرے ہیں۔ پیر ومرشد رئیس الفقراء حضرت پیر سید مستان شاہ سرکار حق باباؒ وارد ہوئے تو ان کی آمد کے بعد اس پاک سر زمین کی کا یا پلٹ گئی اور ان کی محنتوں ،کوششوں کی وجہ سے غیر مذہب اپنی موت خود مر گئے اور دین اسلام کا عروج شروع ہو گیا ۔ تاریخ عالم ایسے ان گنت واقعات سے لبریز ہے کہ جو کام سلاطین بزور شمشیر نہ کر سکے وہ کام اولیائے کرام کی نگاہ کرم نے پلک جھپکتے میں کر دیا تمبر پورہ شریف ناصر پور پشاور میں ایک صدی قبل رشد و ہدایت کی جو قندیل روشن ہوئی اس کی ضیاء پاشیوں سے زمانہ آج تک منور ہو رہا ہے ۔ ان عظیم ہستیوں کا تذکرہ اس مختصر مضمون میں تحریر کر نا نا چیز فقیر اور خاکپائے مرشد کے بس کی بات نہیں یہ میری خوش نصیبی ہے اور میرے پیر و مرشد زینت رئیس الفقراء حضرت پیر سید مستان شاہ سر کار حق با با جی چشتی صابریؒ کی مجھ پر خاص نظر کرم ہے کہ مجھے یہ سعادت نصیب ہو رہی ہے کہ میں اپنے پیر مر شدی حضرت پیر سید مستان شاہ سر کار حق بابا جی چشتی صابریؒ کے بارے میں کچھ تحریر کروں یہ میرے پیر و مرشدی حق باباؒ محترم کا ہی فیض ہے کہ میں تصوف اور اہل تصوف سے گہری عقیدت رکھتا ہوں ۔اس بزرگ ہستی کا نام شیخ المشائخ حضرت پیر سید مستان شاہ سر کار حق با با جی چشتی صابریؒ ہے جن کا شمار صاحب طریقت اور صاحب کشف بزرگوں میں ہوتا ہے۔ آپ کے دادا اور آپ کے پیرو مر شد کا اسم شریف شیخ المشائخ حضرت پیر سیدعبد الرحمان شاہ بابا چشتی صابری ؒ ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب بیالیس واسطوں سے امام المتقین سید الشہداء مظلوم کربلا سید نا امام عالی مقام حضرت اما م حسین علیہ السلام سے ہوتا ہوا امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالبؓ شیرِ خدا سے جا ملتا ہے ۔ جبکہ شجرہ طریقت بھی سرتاج اولیا ء حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکر ؒ سے ہو کرامیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے، گویا کہ آپ حسنی حسینی سید ہیں۔ آپ کے دادا حضرت پیر سیدعبد الرحمان شاہ بابا چشتی صابریؒ ولی کامل اور عارف با اللہ تھے ۔ عمر کا بیشتر حصہ جذب اور سلوک میں گزارہ اور حضرت سیدنا مخدوم علائوالدین احمد صابر ؒ پیرانِ کلیر شریف کے مزار پر کافی عرصہ معتکف رہے اور عشق و مستی سے سر شار رہے۔ شیخ المشائخ پیر طریقت حضرت پیر سیدمستان شاہ حق بابا چشتی صابریؒ خانوادہ چشتیہ صابریہ تمبر پورہ شریف ( جوکہ ناصر پور ریلوے سٹیشن جی ٹی روڈ پشاور شہر سے پانچ ،چھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے) کے جلیل القدر بزرگ تھے جو تصوف ، طریقت اور روحانیت کے اعلیٰ و ارفع مرتبہ پر فائز تھے اور اپنے وقت کے غوث الزمان اور علماء مشائخ سرحد کہلائے ۔
(باقی صفحہ5پر ملاحظہ کیجئے )
تصوف و طریقت کی عظیم الشان دنیا میں تمبر پورہ شریف کے معتقد روحانی سلسلہ خاندان چشتیہ صابریہ کو منفرد مقام حاصل ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس خانوادے کوایسی بے مثال بر گزیدہ ہستیوں سے نوازا جنہوں نے اسلام اور شریعت کے فروغ کے لئے کارہائے نمایاں سر انجام دیئے اور اپنے روحانی فیوض و کرامات کی برکت سے ایک عالم کو تصوف کی روشنی سے منور کیاآپ کے دادا پیر طریقت حضرت پیر سید عبد الرحمان شاہ با با چشتی صا بری ؒ تصوف کے چار طریقوں کے عامل اور مجاز تھے ۔آپ ان چاروں طریقوں سے فیض عطا کرتے اور اکثر فر ما تے کہ وہ کیسا فقیر ہے کہ ایک ہی طریقے کو چلائے ،تاہم آپ مریدین کو عموماً چشتیہ سلسلہ میں بیعت کرتے ۔ ابو الحسن نوری ؒ کا مشہور قول ہے کہ تصوف ایک اخلاقی شے ہے جو اللہ تعالیٰ کے اخلاق و عادات اختیار کرنے سے حاصل ہو تا ہے ۔ ’’ دنیا دشمنی ‘‘ اور ’’ خدا دوستی ‘‘کا نام تصوف ہے ۔ صوفیاء کی روحیں غلاظت بشریٰ سے آزاد ،کدورت نفسانی سے صاف اور خواہشات سے مبرا ہوتی ہیں ۔ تصوف نہ تو رسم ہے اور نہ علم کیونکہ اگر رسم ہوتا تو مجاہدات سے اور علم ہوتا تو تعلیمات سے حاصل ہو جاتا حق تعالیٰ نے مرد مومن کی شان اس طرح بیان کی ہے کہ ’’ ہم اس کے کان بن جاتے ہیں ،اس کی آنکھ بن جاتے ہیں اور اس کی زبان بن جاتے ہیں‘‘۔
تمبر پورہ شریف کی ان مبارک ہستیوںکے دست حق پرست پر ہزاروں بے دین ،دولت ِ ایمان سے بہرہ مند ہوئے پیر مرشدی پیرحضرت سیدمستان شاہ سرکار حق باباؒ چشتی صابری ، حضرت پیر سجاد شاہ بادشاہ اور حضرت پیر عنایت شاہ بادشاہ موتیاں والی سرکار کے والد بزرگوار تھے جنھوں نے اپنی پوری زندگی خلقِ خدا کو راہ حق دکھانے اور انہیں شریعت و طریقت کے اسرارورموز سے آگاہ کرنے کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ پیر حضرت سیدمستان شاہ سرکار حق باباؒ چشتی صابری نے حلقہ ارادت سے منسلک افراد کی روحانی اصلاح پر ہمیشہ بھر پور توجہ دی روحانیت میں آپ کا پتہ اس بات سے چلتا ہے کہ آپ کے تربیت یافتہ مریدوں اور خلفاء کی زندگیاں بھی خالص اسلامی سانچے میں ڈھلی ہوئی تھیں ، سینکڑوں لا علاج مریضوں کو آپ کی روحانی نگاہ سے شفاء کاملہ نصیب ہوئیں آپ نے سلسلہ چشتیہ صابریہ کی ترویج و اشاعت میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی ،با قا عدہ اپنے مشائخ کے اعراس پر ختم خواجگان منعقد فر ماتے اور خصوصاً ہر مہینہ کی چٹھی تاریخ کو خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیری ؒکی یاد میں محفل سماع منعقد فر ماتے یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔آپ کے درباری مشہور و معروف قوال میراں بخش اور شفیع محمد پشاوری تھے جوکہ ایسی محافل کو اپنی قوالی سے آراستہ کر تے تھے،آپ محفل سماع اور عارفانہ کلام کو پسند فر ما تے تھے کہ یہ اولیاء چشت کو محبوب ہے روایت ہے کہ سماع فیضان حق ہے ( کشف المحجوب ) اور تمام رات صاحب ذوق حضرات ’’ وجد ‘‘ و ’’ حال ‘‘ میں مصروف رہتے اور دوران سماع میں جس شخص پر بھی آپ کی توجہ کاملہ کی نظر پڑجاتی وہ مرغ نیم بِسمل کی طرح گھنٹوں تڑپتا رہتا۔ حضرت پیر سید مستان شاہ حق بابا چشتی ؒ کرامت ولی اللہ تھے۔ آپ کی دعائیں امر کا درجہ رکھتی تھیں اور حق تعالیٰ قبولیت کے دربار میں فوراً قبول ہو جاتی تھیں ۔آپ کی زبان مبارک سے جو الفاظ نکلتے اللہ تعالیٰ ان کی لاج رکھتا آپ جو کہتے وہی ہو جاتا آپ اکثر فرماتے ’’ اللہ کرم کرے‘‘، آپ اپنے دادا گرامی مرتبت حضرت پیر سیدعبدالرحمان شاہ ؒ چشتی صابری سے بیعت ہوئے جنہوں نے حضرت صوفی محمد حسین مراد آباد شریف ( بھارت ) سے کسب فیض کیا تھا۔ آپ حق تعالیٰ اور رسول مقبولؐ کے عشق حقیقی سے سر شار تھے اور آپ کی زندگی قرآن و سنت کا عملی نمونہ تھی ۔ آپ ہر ملنے والے کی دلجوئی فر ما تے اور کسی کو خالی ہاتھ واپس نہ لوٹا تے ۔اپنے مریدین پر آپ کی نظر کرم ہر وقت رہتی اگرچہ آپ روحانی تصوف کے بلند مقام پر فائز تھے لیکن آپ پر فقر کا حقیقی رنگ بہت غالب تھا اور آپ کی زندگی کے کسی پہلو سے یہ ظاہر نہیں ہو تا تھا کہ اللہ کے بندوں میں آپ کو ظاہراً کوئی امتیاز حاصل ہے ۔آپ کی زندگی انتہائی سادہ تھی ، ظاہری نمود و نمائش سے گریز فر ماتے جس کا اندازہ اس امر سے بخوبی ہوتا تھا کہ آپ حلقہ مریدین و تابعین میں بھی اپنے آپ کو نمایاں نہ کرتے آپ مریدوں کو نصیحت فر ما تے کہ اپنے اندر انکساری پیدا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ٔ کو عاجزی پسند ہے اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں آپ کو خوب مقبو لیت عطا فر مائی صوبہ خیبر پختونخوا اور گرد و نواح کے علاوہ دوسرے شہروں سے مخلوق خدا جوق در جوق آتی اور فیوضات و بر کات کی نعمت سے مالامال ہو کر جاتی ۔آپ نہایت ہی منکسر المزاج صاحب علم و کرم تھے بحشش و عطا آپ کا خاصہ تھا۔ آپ اکثر فر مایا کرتے تھے ’’ مادرچے خیالے فلک درچے خیال، کارے کہ خدا کنم فلک درچے مجال ‘‘ ’’ فضل خدا ایک طرف خلق خدا ایک طرف ‘‘ ’’ خدمت کر دی مخدوم شدی، نہ کردی محروم شدی ‘‘ ’’ بہ لباس امیرانہ بہ خیال فقیرانہ ‘‘۔
آپ کی تعلیمات شریعت محمدی ٔ سے لبریز ہیں۔ آپ فر ماتے، پیر کا حکم ماننا ادب سے زیادہ درجہ رکھتا ہے ۔ پیر طریقت حضرت پیر سیدمستان شاہ حق با با ؒ چشتی صابری کو شریعت کے سوا کوئی دوسرا فعل پسند نہ تھا آپ نے ایک بار فر ما یا فقیر جتنی بھی رسائی رکھتا ہو مگر مالک کے دربار میں سنت نبویؐ کے بغیر سخت مجرم ہو گا ۔ آپ اکثر فر ماتے کہ شیخ کی با مرشد کی دل سے عزت اور قدر کی جانی چاہئے ۔مرید کو شیخ کی ذات میں فنا ہو جا نا چاہئے ،با لکل اسی طرح جس طرح شیخ اپنے مرشد وشیخ کی ذات میں فنا ہو کرکچھ حاصل کرتا ہے مریدین جب آپ کی خدمت میں حاضر ہو تے تو آپ بڑی خندہ پیشانی سے پیش آتے اور گفتگو کے دوران شریعت و معرفت کے مختلف پہلو ئوں پر اظہار خیال کر کے ان کی تربیت فر ماتے آپ مریدین کے ظاہر کو شریعت سے آراستہ کر تے اور بعد ازاں باطن کو با لیدگی عطا کرتے ۔رئیس الفقراء پیر و مرشدی حضرت پیر سید مستان شاہ سر کار حق با باؒ چشتی صابری اپنے زہدُ و تقویٰ کے لئے مشہور تھے، اورایک سچے عاشق رسولٔ اور عقیدت مند محبت کے سمندر میں ڈوبے ہوئے عاشقِ فرید تھے۔آپ کی با با فرید ؒکے ساتھ نسبت خاص نے صوبہ خیبر پختونخوامیں رنگ فریدی میں ایک ایسا روح پرور نکھار ابھا را تھا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں یہ رنگ پھیلتا ہی جا رہا ہے اور عاشقان فرید کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے ۔ اور ان کی برکتوں کی طفیل ہمیں بھی دنیا و آخرت کی سرخروئی حاصل ہورہی ہے ، بے شک اولیاء اللہ کا قول و فعل سب کا سب رسول ٔ کی تعلیمات کا عملی نمونہ ہے ۔ آستانہ عالیہ تمبر پورہ شریف کے اکابرین علمی سر گرمیوں میں بھی پیش پیش تھے آستا نہ عالیہ میں جامعہ رحمانیہ کی نام سے ایک بہت بڑی درس گاہ قائم ہے جس کی سر پر ستی پیر و مرشدی سید مستان شاہ سر کار حق با باؒ کے فر زند مو لانا سید سجاد شاہ با دشاہ اور سید عنایت شاہ بادشاہ موتیاں والی سرکار کررہے ہیں۔ پیر حضرت سیدمستان شاہ سرکار حق بابا ؒنے وصال سے چند روز قبل حاضرین کو پند و نصائح فر مائیںاور فرمایا کہ میرے لیے قبر کی جگہ کا تعین کریں اور دعائوں ،فیوض و بر کات سے نوازا ۔وصال سے کچھ روز پہلے آپ نے خود قبر شریف پسند فرمائی۔ آپ کی ذات اقدس امت محمد کیلئے سراپا رحمت اور نعمت خدا وندی تھی حق بابا سرکار بروز ہفتہ 17ربیع الاؤل 1438ھ بمطابق 17دسمبر 2016ء کوہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب کو اس دنیائے فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر کے واصل بحق ہوئے ( اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْ نَ )، آپ کی وفات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح گائوں اور پشاور شہر میں پھیل گئی اور لوگوں نے زاروقطارروتے ہوئے جوق درجوق آستانہ عالیہ تمبر پورہ شریف کا رخ کیا اور تمام رات مریدین کا تانتا بندھا رہا، دوسرے روز بروز اتوار 18ربیع الاول 1438ھ بمطابق 18دسمبر2016ء صبح 10بجے نماز جنازہ آپ کے فرزند اور سجادہ نشین حضرت پیر عنایت شاہ بادشاہ موتیاں والی سرکار نے ادا کی۔ ہزاروں کی تعداد میںمریدین اور عشاق جنازہ میں شریک تھے اور ہر کوئی غمزدہ و گریہ بار تھا۔ آپ کی پسند کردہ جگہ پر آسو دہ خاک ہو ئے ۔آپ کا مزار مبارک تمبر پورہ شریف سے ڈیڑھ دو فرلانگ کے فاصلہ پر ایک ٹیلے پر واقع ہے اور ان کاآٹھواں عرس مبارک 18ربیع الاول1446ھ بمطابق23ستمبر2024ء بروز پیر کو منایا جاتا ہے۔ آج بھی آپ کے فیض کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور فیوض وبرکات کا یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔ آپ کا مزار پاک تمبر پورہ شریف پشاور میں عقیدت مندوں کے لئے مرجع خلائق ہے۔
نہ تخت و تاج نہ لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے

جواب دیں

Back to top button