
سی ایم رضوران
پاکستان میں جب سے عمران پراجیکٹ لانچ کیا گیا ہے تب سے یوں لگتا ہے کہ ہم من حیث القوم حماقت کے آخری درجے پر پہنچ چکے ہیں۔ سرکاری وقت، عوامی استعداد اور سرکاری خزانوں کا بے دریغ، بلا ضرورت اور بغیرِ کسی مقصد کے حصول کے استعمال اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ملک چند سال میں ڈیفالٹ ہونے کے قریب پہنچ گیا ہے مگر حکومت اور سرکاری خزانوں پر بیٹھے ہوئے بڑے بڑے دماغوں اور عمران پراجیکٹ کے سرکاری و غیر سرکاری سہولت کاروں کو یہ احساس تک نہیں ہو رہا کہ اس جھوٹے انقلاب کے خلاف جعلی لا اینڈ آرڈر کے نفاذ کے نام پر قوم کا کتنا بڑا نقصان ہو رہا ہے اور اس سب کو روکنے کی بجائے آئے روز حماقتوں اور فضولیات کو مزید ہوا دی جا رہی ہے اور قومی صلاحیت، وقت اور خزانہ کے ضیاع کے نت نئے طریقے اور بہانے تراشے جا رہے ہیں۔ اسی طرح کی ایک تازہ قومی حماقت کے طور پر پی ٹی آئی کو ضلعی انتظامیہ لاہور نے عدالتی احکامات کے روبرو مجبور ہو کر 43شرائط و ضوابط کے ساتھ 21ستمبر کو کاہنہ رنگ روڈ پر جلسے کی اجازت دینا پڑ گئی تھی۔ ڈپٹی کمشنر کی طرف سے اجازت کے نوٹیفکیشن کے مطابق جلسے کا وقت 3بجے سے 6بجے تک تھا۔ منتظمین سٹیج، خواتین اور مردوں کے انکلوژر کی سکیورٹی یقینی بنانے، بھگدڑ روکنے، مناسب پارکنگ کے انتظام کے لئے پرائیویٹ سکیورٹی اور رضاکاروں کے ذریعے یقینی بنانے کے پابند تھے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو 8ستمبر کو اسلام آباد میں کی گئی تقریر پر معافی مانگنا تھی۔ شہر سے باہر سے آنے والے جتھوں کو روزمرہ کے معمولات میں خلل ڈالنے کی ہر گز اجازت نہ تھی اور جلسے کے دوران ریاست یا اداروں کے خلاف نعروں اور بیانات سے بھی اجتناب کرنا تھا۔ کسی اشتہاری مجرم کو جلسے میں شرکت یا اسٹیج پر نظر نہ آئے کا پابند بنایا گیا تھا بصورت دیگر اشتہاری مجرم کی گرفتاری میں تعاون جلسہ انتظامیہ کی ذمہ داری تھی اور ناکامی کی صورت میں انتظامیہ پر معاونت کا مقدمہ درج کرنے کی شرط عائد تھی۔ جلسے میں کوئی افغان پرچم نہ لہرانے کی شرط عائد تھی۔ جلسہ منتظمین نے فوکل پرسنز نامزد کرنا تھے، متعلقہ سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ایس پی ٹریفک پولیس سے فوکل پرسن کا رابطہ ضروری تھا۔ منتظمین ایس پی ماڈل ٹائون اور ایس پی سکیورٹی لاہور سے تعاون کرنے کے پابند تھے، ٹریفک پولیس نے جلسے کے لئے تفصیلی ٹریفک پلان اور ایڈوائزری جاری کرنے تھے۔ منتظمین نے ضلعی پولیس کے ساتھ مل کر لاہور رنگ روڈ، کاہنہ میں اور جلسے کے گرد بیرونی دیوار پر خاردار تار اور قنات نصب کرنا تھے۔ کسی کو بھی زبردستی اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور نہیں کیا جانا تھا۔ کسی کو بھی ڈنڈے لے کر جلسے کے مقام پر داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی، اسلحے کی نمائش سختی سے منع تھی اور آتشبازی کا استعمال، اشتعال انگیز، گستاخانہ نعرے لگانے کی اجازت نہ تھی، کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت یا کسی ملک سے تعلق رکھنے والے فرد کا پتلا یا جھنڈا جلانے کی اجازت نہ تھی۔ جلسے کے احاطے اور اردگرد کا سکیورٹی انتظام منتظمین کی ذمہ داری تھی، کسی بھی ناگہانی واقعے کی صورت میں منتظمین ذمہ دار ٹھہرائے جانا تھے۔ مجموعی سکیورٹی صورتحال اور مختلف ذرائع سے موصول ہونے والے خطرے کی اطلاعات کے پیش نظر، منتظمین کو دوبارہ خبردار کیا گیا کہ شرکا اور عوام کی حفاظت کے لئے جلسے کے مقام کے اندر اور باہر تمام ضروری احتیاطی تدابیر کریں۔ یاد رہے کہ یہ تمام شرائط اس پارٹی سے منوانے کی ناکام کوشش کی گئی جس نے آج تک امن و امان کی پروا نہیں کی بلکہ اس کی اٹھان ہی سول نافرمانی کے اعلان سے ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ اس پارٹی کو ان شرائط کے ساتھ جلسہ کرنے کی اجازت اس ملک میں دی گئی تھی جس ملک کی انتظامیہ اور عدلیہ میں اس پارٹی کے معاون، ہمدرد اور سہولت کار کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ اس پارٹی نے سسٹم کو اس قدر مشکلات سے دو چار کیا ہوا ہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی سے آئینی ترامیم کروانے میں ناکامی کے بعد صدر مملکت کی جانب سے پروسیجر آرڈیننس محض اس لئے پاس کیا گیا کہ موجودہ چیف جسٹس کی رائے کو اقلیت سے اکثریت میں بدلا جا سکے۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے اس لاہور جلسے کے لئے خیبر پختونخوا اور پنجاب سمیت وفاق کے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔
کل پاکستان سمیت دنیا بھر میں امن کا عالمی دن کل منایا گیا۔ ہر سال اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں جنگ و جدل اور نفرتوں کو ختم کر کے محبت کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ عالمی یوم امن کے حوالے سے ملک بھر میں سیاسی و سماجی تنظیموں کے زیر اہتمام تقاریب کا اہتمام کیا گیا۔ جن میں عدم تشدد اور امن کی سوچ کو فروغ دینے کے لئے مختلف پروگرام ترتیب دینے اور تجاویز مرتب کرنے کی جانب توجہ دلائی گئی۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1981میں ایک قرارداد منظور کی تھی جبکہ دوسری بار 2001میں بھاری اکثریت سے قرارداد منظور کی گئی کہ ہر سال 21ستمبر کو امن کا عالمی دن منایا جائے گا جس کے بعد ہر برس دنیا بھر میں امن کا یہ عالمی دن منایا جاتا ہے۔ لیکن خوبصورت اتفاق یہ ہے کہ پاکستان کے شہر لاہور کے علاقہ کاہنہ رنگ روڈ پر پی ٹی آئی کا جلسہ بھی اسی روز یعنی گزری کل کو منعقد ہوا۔ اس سے قبل جلسے کی تیاریوں میں ایک طرف منتظمین اور مامورین کی جانب سے روایتی اور گزشتہ سے پیوستہ پھرتیاں، قلابازیاں اور نظام روک دینے کی دھمکیاں سامنے آتی رہیں جبکہ دوسری طرف لاہور جلسے سے قبل پی ٹی آئی کے مفرور رہنمائوں کی گرفتاریاں تیز کر دی گئیں، 4ہزار افراد کو پکڑنے کا مبینہ منصوبہ سننے میں آیا لیکن گرفتاریاں سو کا ہندسہ بھی نہ عبور کر سکیں۔ البتہ جلسہ کے راستوں میں جابجا کنٹینرز لگ گئے، گلبرگ میں پی ٹی آئی کارنر میٹنگ پر دھاوے کی اطلاعات بھی سننے کو ملتی رہیں۔ پولیس نے متعدد کارکنان کو گرفتار کر لیا۔ جلسے کے پیش نظر انتظامیہ نے ضروری انتظامی اقدامات بھی کئے۔ پنجاب پولیس نے 9مئی کے مفرور 37سو افراد کو لاہور جلسے کے موقع پر گرفتار کرنے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔ جس پر عملدر آمد شروع کر دیا گیا۔ گلبرک میں پولیس نے پی ٹی آئی کی کارنر میٹنگ پر دھاوا بول دیا، پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان میں تصادم ہوا۔ پی ٹی آئی کارکنان نے پتھرا کیا تو پولیس نے بھی ہوائی فائرنگ کی۔ جس کے بعد پی ٹی آئی کے 20سے زائد کارکنان کو حراست میں لے لیا گیا اور پریزن وین میں ڈال کر تھانے منتقل کر دیا گیا۔ ساتھی کارکنان کی گرفتاری کے بعد مشتعل مظاہرین نے منی مارکیٹ سڑک بلاک کرکے ٹائروں کو آگ لگا دی۔ جس سے شہریوں کو آمدورفت میں مشکلات کا سامنا رہا۔ ادھر وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے پی ٹی آئی کے لوگوں کی جانب سے راستے بلاک کرنے کی ویڈیو شیئر کر دی۔ عظمیٰ بخاری نے لکھا کہ تحریک فساد کے غنڈوں نے ابھی سے سڑکیں بند کر کے جلائو گھیرائو شروع کر دیا ہے، یہ ان کا اصل چہرہ ہے ان کے نام نہاد لیڈروں کے پرامن رہنے کے
بھاشن سنیں۔ دوسری طرف وہاڑی میں بھی آئی ایس ایف کے ضلعی صدر رانا محسن منہاس سمیت 4افراد کو گرفتار کر کے 30دن کے لئے ڈسٹرکٹ جیل منتقل کر دیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وہاڑی میں موجود دیگر پی ٹی آئی رہنماں کے گھروں پر بھی چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ 9مئی کے مفرور 4ہزار افراد کی گرفتاری کے حوالے سے بھی پنجاب حکومت کا اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں پنجاب پولیس کی جانب سے گرفتاری کے لئے ٹیمیں بھی تشکیل دے دی گئیں۔ پنجاب حکومت کے ذرائع کے مطابق 9مئی کے مفرور 3700افراد کو لاہور جلسے کے موقع پر گرفتار کیا جانا تھا۔ علاوہ ازیں اس جلسے سے قبل پی ٹی آئی کے مزید5رہنمائوں کے نظربندی کے احکامات۔ ذرائع کا بتانا تھا کہ مفرور افراد کی گرفتاریاں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے عمل میں لائی جائیں گی جس کے لئے پنجاب پولیس کی جانب سے ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔ علاوہ ازیں پی ٹی آئی جلسے کے سٹیج کیلئے آنے والا کنٹینر پل کے نیچے پھنس گیا۔ ایک اور اہم خبر اس ضمن میں یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی درخواست ضمانت قبل از گرفتاری خارج کر دی اور گنڈاپور سمیت دیگر دو ملزمان واثق قیوم اور راشد کے خلاف زیر سماعت جوڈیشل کمپلیکس حملہ کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے یہ کہہ کر ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے کہ سابقہ سماعت پر علی امین گنڈا پور کی پیشی سے استثنیٰ کی درخواست ان کی مبینہ بیماری کی وجہ سے کی گئی۔ استثنیٰ تو دے دیا گیا جبکہ اس کے چار روز بعد پی ٹی آئی کے پنڈی جلسے میں شرکت کے دوران ملزم چنگا بھلا تھا۔ القصہ دنیا بھر میں عالمی یوم امن عافیت اور سکون کے ساتھ منایا گیا جبکہ لاہور میں خوب ہلا گلا مار دھاڑ اور بدامنی کا راج رہا۔ یہ ہے ہماری قومی حماقتوں کی ایک عمدہ اور تازہ مثال۔