ColumnQadir Khan

سیاسی کشیدگی، قومی یکجہتی اور سنگین مسائل

قادر خان یوسف زئی
پاکستان میں اس وقت چومکھی کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ جہاں ایک طرف معاشی بحران، مہنگائی، اور بیروزگاری نے عوام کا جینا مشکل کر رکھا ہے، وہیں دوسری طرف سیاسی محاذ پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری جنگ اور ملکی اداروں کے لئے اصلاحاتی ترامیم نے سیاسی درجہ حرارت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اس امر کو سمجھنا اہم ہے کہ اس صورت حال میں ملکی استحکام اور قومی یکجہتی کے لیے تمام فریق معاملات کو تدبر اور بصیرت سے سنبھالیں تاکہ قوم کو درپیش اصل مسائل پر توجہ دی جا سکے۔ سیاسی مباحث اور اختلافات جمہوری نظام کا حصہ ہیں، لیکن جب یہ اختلافات ذاتیات و فروعی مفادات تک پہنچ جائیں اور بدقسمتی سے اعلیٰ عہدوں پر جب بعض شخصیات ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کریں تو اس سے نہ صرف سیاسی کشیدگی بڑھے گی بلکہ ایک ایک ایسا آئینی بحران بھی جنم دے گا ، جس کا سامنا اس وقت مملکت کر رہی ہے ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں اقتدار کی جنگ نے ملک کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اس وقت بھی ہم اسی خطرے سے دوچار ہیں۔
ملک کے اہم مسائل، جیسے کہ معیشت کی بدحالی، مہنگائی کا عفریت، اور بیروزگاری، کو ختم کرنے کے لئے تمام توجہ ہٹ سی گئی ہے۔ سیاسی ماحول صرف ایک نکاتی ایجنڈے کے گرد گھوم رہاہے اور سب اس کے اطراف چکر لگا رہے ہیں ۔ عوام کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے، اور سیاسی و آئینی محاذ پر جاری کشیدگی ان مسائل کے حل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے اس طرز عمل کا فائدہ صرف ان عناصر کو پہنچے گا جو ملک میں عدم استحکام چاہتے ہیں۔ پاکستان بدستور ایک انتہائی سنگین معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی، قرضوں کے بوجھ، اور عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط کی وجہ سے سخت معاشی فیصلے لئے جاتے ہیں، جس کا براہِ راست اثر عام آدمی کی زندگی پر پڑا ہے۔ معاشی آکڑے جو کچھ بھی دکھائے جا رہے ہیں وہ زمینی حقائق سے کوسوں دور ہیں ۔ مہنگائی کی شرح میں کوئی کمی محسوس نہیں کی جارہی ، بدستور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ عوام کی کمر توڑ رہا ہے، اور بیروزگاری نے لوگوں کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کیا ہوا ہے۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ ایسے میں حکومت اور اپوزیشن عوامی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے سیاسی محاذ آرائی کو کم کرتے اور ملک کو درپیش معاشی مسائل کے حل پر توجہ مرکوز رکھتے۔ لیکن افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا ۔ اقتدار کے لئے فریقین کے درمیان جنگ کا تماشا بہت بھیانک ہوتا جارہا ہے۔
ملک کی موجودہ صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ جمہوریت کے نام پر بیشتر حلقوں نے جمہوریت کی نفی کی ہے اور سیاسی عدم استحکام کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ داخلی سیاسی کشیدگی اور عدم استحکام کی وجہ سے ریاست کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹائی جا رہی ہے ۔ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی، خصوصاً بھارت کے ساتھ تعلقات میں تنا، اور افغانستان کی غیر معاوندانہ صورت حال پاکستان کے لیے سنگین چیلنجز پیدا کر رہی ہے۔ اس وقت قومی یکجہتی اور اتحاد کی فضا ہموار کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ پاکستان عالمی سطح پر اپنے مفادات کا بہتر دفاع کر سکے اور خطے کے امن و استحکام میں مثبت کردار ادا کر سکے۔ لیکن جس قسم کا رویہ اس وقت سیاسی جماعتوں اور آئینی اداروں میں بیٹھے بعض با اثر شخصیات کا بن چکا ہے اور اس کے مظاہر دیکھے جا رہے ہیں اسے خوش آئند قطعی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی قوم میں اتحاد اور یکجہتی پیدا ہوئی، ہم نے نہ صرف داخلی مسائل پر قابو پایا بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنا مثر کردار ادا کیا۔ قومی یکجہتی ہی وہ واحد راستہ ہے جو ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکال سکتا ہے۔ اس وقت سیاسی درجہ حرارت کو نیچے لانا اور تمام فریقین کو مل کر قومی مفاد میں کام کرنا ضروری ہے۔
سیاسی رہنمائوں اور مقتدر و با اثر شخصیات کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ سیاست و حکومت عوام کی خدمت کے لیے کی جاتی ہے، نہ کہ ذاتی مفادات کے لیے۔ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے، لیکن اختلافات کو ذاتیات تک لے جانا اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنا جمہوری اقدار کے منافی ہے۔ آئینی اداروں میں بیٹھی بعض اہم شخصیات کی جانب سے ایسے اقدامات کئے جانا جس کو عقل و دلیل درست نہیں سمجھتی تو سوچا جاسکتا کہ اس کی سنگینی کیا ہوگی ، اس کے لئے نتیجہ بتانے کی ضرورت نہیں بلکہ ماضی ایسی مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ وقت سیاست کے کھیل کا نہیں، بلکہ قوم کو مشکلات سے نکالنے کا ہے۔ طعن و تشنیع کا سلسلہ پاکستانی سیاست میں بدقسمتی سے ایک عام روایت بن چکا ہے۔ یہ رویہ، جو ذاتی حملوں، الزامات، اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی سر توڑ کوششوں پر مبنی ہوتا ہے، سیاسی کشیدگی کو بڑھاتا ہے اور معاشرتی انتشار کو جنم دیتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عوامی مسائل پسِ پشت چلے جاتے ہیں، اور سیاست کا مقصد صرف طاقت کی جنگ اور مخالفین کو نیچا دکھانے تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔
بنیادی فریضہ قوم کی خدمت اور مسائل کا حل ہونا چا ہے، لیکن جب اہم شخصیات طعن و تشنیع کا سہارا لیتے ہیں، تو اس سے ملک میں عدم برداشت اور سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ یہ صورتحال معاشی بحران، انصاف، امن و امان، مہنگائی اور بیروزگاری جیسے سنگین مسائل پر توجہ دینے کے بجائے، سیاسی نفرت اور عدم استحکام کو فروغ دیتی ہے۔ طعن و تشنیع کا کوئی تعمیری مقصد نہیں ہوتا، اور یہ عمل نہ صرف جمہوری اقدار کے منافی ہے بلکہ ملک کی ترقی کی راہ میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ شخصیات کے گرد گھومنے والا یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا ، اس کے لئے پیش گوئیوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ اس کے نتائج کس قدر سبق آموز ہوتے ہیں ، لیکن شارٹ ٹرم میموری کے ساتھ ہم سب بہت جلد سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ یار رکھنے کی صرف ایک بات ہے کہ اس کا نقصان صرف اور صرف عوام کو ہوگا، فائدہ اگر کسی کو پہنچے گا تو اشرافیہ کو۔ موجودہ دور میں سیاست سے نابلد رہنے والا بھی بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ ملک کے اندر چل کیا رہا ہے ، اسے سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ ملک اس وقت درحقیقت ایک نازک دور سے گزر رہا ہے جو آگے جا کر بند گلی میں رکے گا اور واپسی کا راستہ بھی شاید نہ ملے۔

جواب دیں

Back to top button