’’ موسمیاتی تبدیلی‘‘ نے الیکشن ہاری ہوئی47لیگ کو مسلط کیا

راجہ شاہد رشید
جناب سہیل وڑائچ عصر حاضر میں ہر کسی کے دل پسند اور سر بلند صحافی ہیں ، منفرد اینکر پرسن و تجزیہ کار ہیں ، ایک معتبر و مدبر مدیر ہیں اور نہایت ہی عمدہ کالم نگار ہیں ۔ موصوف نہ صرف ایک سینئر صحافی ہیں بلکہ بڑے بڑے صحافیوں کے پیر استاد ہیں۔ وہ اس فقیر راقم السطور کے بھی محسن و محترم ہیں، اُستاد ہیں میرے مرشد ہیں۔ بحیثیت شاعر بھی میں نے انہیں منظوم خراج عقیدت پیش کیا تھا۔ بعنوان ’’ بنام مُرشد سہیل وڑائچ‘‘ میں نے اپنی محبت و عقیدت اور فکر و خیالات کو نظم کیا تھا۔ میرے محترم قارئین ! مذکورہ نظم کے چند اشعار حاضر خدمت ہیں آپ بھی ملاحظہ فرمائیے:
تو کٹھن پتھریلے راستوں کا مسافر ہے
و صحافت کے گہرے سمندر کا شناور ہے
تو معتدل اور مدبر بڑا نام ہے ترا
کچھ شک نہیں اس میں بڑا کام ہے ترا
تو توسل اور توکل ہے کل اور آج کا
تو معلم و مرشد ہے صحافت و سماج کا
یہ اذن تجھے اپنے مولا سے ملا ہے
تو صداقت کے پُل صراط سے گزرا ہے
شاہد کی یہ دعا ہے کہ خدا تجھ کو نوازے
علوم کی وہ لے جو دنیا کو ہلا دے
میں مُرشد سہیل وڑائج جی کو ٹی وی پر ضرور سنتا ہوں اور ان کے کالم بھی بغور پڑھتا ہوں ۔ بعنوان ’’ احمقوں کی جنت! ‘‘ اپنے کالم میں وڑائچ صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ آج کی دنیا کی ترقی و تہذیب ہر دور کے عقلمند انسانوں کی دین ہے ، تاریخ دان ٹائن بی کہ بقول ہر دور کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے انسانوں کی تخلیقی اقلیت سامنے آتی رہی ہے ، ان کے نئے اور تخلیقی راستوں سے معاشرے مشکلات سے نکلتے اور ترقی کی طرف سفر کرتے رہے ہیں ، جب یہ تخلیقی اقلیت (creative minority) کوئی حل نکالتی ہے تو پھر معاشرے کی اکثریتی آبادی اس حل کو نقل کر کے بحرانوں سے نکل جاتی ہے ۔ افسوس یہ ہے کہ دنیا کو آگے لے جانے والے عقلمند لوگ تضادستان کے تخت و تاج اور قیادت میں دور دور تک نظر نہیں آتے‘‘۔ محترم سہیل وڑائچ صاحب کی خدمت میں بصد تکریم و تعظیم و احترام التماس کا ہے کہ بھلا مکھیوں کو کون پڑھا سکتا ہے کوئی کیسے یہ سمجھا اور سکھا سکتا ہے کہ آپ گندگی پہ جا کر نہ بیٹھا کریں بلکہ پھولوں پہ آ کر بیٹھا کریں کیونکہ پھول بڑے ہی
خوشبودار اور مزیدار ہوتے ہیں ۔ میرے مُرشد آپ آنکھوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اور اوپر ہاتھ بھی رکھ کر سورج چاند ستاروں کو دیکھیں اور پھر کہیں کہ سورج چڑھا ہی نہیں ، چاند چمکا ہی نہیں اور ستارے تو نکلے ہی نہیں ہیں تو یقینا اس میں قصور آپ کا اور آپ کے دیکھنے کا ہے سورج چاند ستاروں کا نہیں ۔ سب کے سامنے کھڑے ہیں وہ عقلمند انسان اور وہ نئے تخلیقی راستے بھی دکھلا رہے ہیں جن پر چل کر سب اقوام عالم اور معاشرے مشکلات سے نکل کر ترقی کی طرف سفر کرتے ہیں . جی جی میرے محترم وڑائچ صاحب ! تضادستان کی قیادت میں موجود عقلمند لوگوں نے اس تخلیقی اقلیت (creative minority)نے ایک نہیں کئی ایک حل بتلائے ہیں ، اب اگر معاشرے کی اکثریتی آبادی ان راستوں پر چلنا ہی نہ چاہے اور بحرانوں سے نکلنا ہی نہ چاہے تو اس میں تخلیقی اقلیت کا کیا قصور ہے ۔ میرے مسائلستان کے ان ’’ سیانوں‘‘ نے جو انگنت حل بتلائے ہیں اور راستے دکھلائے ہیں ان میں نو مئی کی تکرار و پرچار اور ان حالات میں بھی آئینی ترامیم سب سے نمایاں اور اہم ہیں ۔ اس کے علاوہ اپنے مسائلستان کے مشکل مسائل کے آسان حل کے ضمن میں سب سے حسین بلکہ بہترین راستہ وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب میاں محمد شہباز شریف نے چند دن قبل سمجھایا ہے اور اب وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے بھی یہ فرمایا ہے کہ ’’ پاکستان بہت جلد عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) سے سات ارب ڈالر کے قرضے کا معاہدہ کرنی والا ہے ، ہم معیشت کا ڈی این اے ہی تبدیل کر ڈالیں گے ، اس سے قبل کسی بھی سابق حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ اس قدر اچھی ڈیل نہیں کی اور آئی ایم ایف کے ساتھ قرضے کا یہ معاہدہ ستمبر تک متوقع ہے‘‘۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم صبر فرمائیں اور انتظار فرمائیں ستمبر کی 25تاریخ کا ، یقینا اس
معاہدے کے ثمرات پہلے کی مانند بہت جلد ہی
سامنے آ جائیں گے ۔ نہ صرف بجلی و گیس ، پٹرول و ڈیزل ، آٹا ، چینی ، گھی الغرض روز مرہ کے استعمال کی اشیائے خورد نوش سمیت تمام چیزیں سستی ہو جائیں گی، غریب عوام کی زندگی آسان ہو جائے گی، سرکاری ہسپتالوں میں علاج ، سکولوں میں تعلیم مفت ملے گی اور ہم تمام بحرانوں سے نکلنے میں کامیاب بھی ہو جائیں گے ۔ اس سے قبل اس اتحادی حکومت کو ملک کو سنوارنے اور بحرانوں سے نکالنے کا وقت ہی کہاں ملا تھا لہذا انہیں مزید وقت ملنا چاہیے، اگر اس حکومت کو اور بالخصوص مسلم لیگ نون کو وقت ملتا رہا تو ملک و قوم کے تمام مسائل و مشکلات بہت ہی جلد ختم ہو جائیں گے۔ یہ بات درست ہے کہ ہم نے کچھ کڑوی گولیاں بھی کھائی ہے لیکن اب برا وقت تقریبا بیت گیا ہے، ایک نئی سحر کا طلوع ہونے لگا ہے اور یہ آثار بھی نظر آنے لگے ہیں کہ بہت ہی جلد اچھا وقت آنے والا ہے۔ دراصل بیچ میں تین چار سال پی ٹی آئی کی حکومت آ گئی تھی نا اور انہوں نے سب کچھ خراب کر دیا تھا ، اکانومی کو برباد کر دیا تھا لیکن اس حکومت نے بڑی ہی مشکل سے قوم کو سہارا دیا ہے اور ملک کو سنبھال لیا ہے لہٰذا ہمیں اپوزیشن اور بالخصوص ایک باغی جماعت کی باتوں میں نہیں آنا چاہیے جو نہ صرف اس حکومت کو بلکہ خواہ مخواہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی تنقید نشانہ بنا رہی ہے۔ آپ بغور سنا کریں اور یقین بھی کر لیا کریں جو اس سے قبل بھی فرماتے آئے ہیں اور موجودہ ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل احمد شریف چودھری بھی بار بار فرما رہے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں، فوج اپنی آئینی حدود سے باہر نہیں نکل سکتی، فوج کا سیاست سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے، کوئی مداخلت نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ ۔ پھر تحریک انصاف کے جنونی جو جواباً کہتے ہیں کہ اگر ان کا سیاست سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے تو فارم 47کی اس بے بنیاد، سلیکٹڈ اور الیکشن ہاری ہوئی حکومت کو کیا صرف الیکشن کمیشن، محکمہ زراعت یا وزارت موسمیاتی تبدیلی نے ملک و قوم پر مسلط کر رکھا ہے؟۔
میرے خیال میں انصافیئے صحیح نہیں کہہ رہے، جو کچھ کر رہے ہیں وہ بھی سب غلط ہے اور وقت کا جالب بھی غالب کے رنگ میں درست نہیں کہہ رہا کہ
اندھیرے جتنا زور لگائیں سورج چڑھ کے رہتا ہے
میری آس امید عمران خان ہر پاکستانی کہتا ہے