Column

محاورے ۔۔۔ حکمتیں ۔۔۔ حماقتیں

تحریر : صفدر علی حیدری
ہم آج تک خطاب اور لقب میں فرق سمجھ نہیں پائے۔ کہ کون سا سرکاری اعزاز ہے کون سا عوامی۔ محاورے اور ضرب المثل کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔۔۔ پھر بھی ہم محاوروں اور ضرب المثال پر بات کرنے سے نہیں رہ پائے ۔۔۔۔ فرض کر لیجئے کہ ہم جو مثالیں دے رہیں ان کا تعلق محاورہ جات سے ہے۔ ہمیں آج محاوروں اور ان میں چھپی حکمتوں اور حماقتوں پر غور کرنا ہے ۔۔۔۔۔
# مرد کی ایک زبان ہوتی ہے #۔۔۔۔ کیا عورتوں کی دو ہوتی ہیں ؟
پھر یہ سنتے تھے کہ ’’ مسلمان کی ایک زبان ہوتی ہے ‘‘، ہمیں کوئی ایسا غیر مسلم نہیں ملا نہ کوئی عورت ملی ہے کہ جس کی ایک سے زیادہ زبانیں ہوں ۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے وہ ایک سے زیادہ زبانوں سے واقف ہوں اور روانی سے بول بھی لیتے ہوں ۔ زبان ایک ہی ہوتی ہے مرد کی ہو عورت کی ہو یا کسی کافر کی ۔۔۔ ایک اور پوری کی پوری ایک ۔۔ نہ کم نہ زیادہ ۔۔۔
اس بے تکے محاورے کے تخلیق کار کا تو معلوم نہیں ہو سکا۔۔۔ ہاں البتہ اس کو لغت سے مٹانے کا جواز معلوم ہو گیا۔ سو اس کو فی الفور لغت سے حرف غلط کی طرح مٹا دینا چاہیے تاکہ اس حماقت کا خاتمہ ہو سکے ۔۔۔
# ہمت مرداں مدد خدا #۔۔۔ اس سے واضح طور صنفی امتیاز کا پہلو نکلتا ہے۔ ناجانے انسانی حقوق کی تنظیموں کی نظر اس پر اب تک کیوں نہیں پڑی۔ اب یہ تو بڑی نا انصافی ہے ہمت کو صرف مردوں سے جوڑ دیا جائے۔ جب کہ ہر مرد ہمت والا ہو یہ ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ ہر عورت پست ہمت ہو۔ یہ کتنی بڑی ناانصافی ہے ان عورتوں کے ساتھ جو مشکل ترین حالات کا بڑی جواں مردی اوہ سوری ’’ جواں عورتی ‘‘ کے ساتھ مقابلہ کرتی ہیں۔ سو ہمت مرداں مدد خدا کا محاورہ بدلنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس سے صنفی امتیاز کی بو آتی ہے۔ سو عورتوں کی ہمت کیلئے ’’ ہمت عورتاں مدد خدا ‘‘ کا استعمال جائز قرار دیا جانا چاہیے، ورنہ یہ حماقت برقرار رہے گی۔
# چندا ماموں#۔۔۔ اب کوئی پوچھے کہ یہ ماموں کیوں ہوتا ہے چاچو کیوں نہیں ہو سکتا ؟، کیا اسے چاچو کہا جائے تو چاند ناراض ہو جائے گا ؟، فی الفور اسے چندا چاچو قرار دیا جائے یا چندا ماموں کے ساتھ چندا چاچو کا استعمال بھی مسنون قرار دیا جائے۔ ورنہ حماقت برقرار رہے گی ۔
#مادری زبان #۔۔۔ یہ مادری ہی کیوں ہوتی ہے ؟فادری ( پدری ) کیوں نہیں ہو سکتی ؟ کیا مرد کے منہ میں زبان نہیں ہوتی ؟ کیا وہ بے زبان ہوتا ہے ؟ شاید مادری زبان کے حامی یہ جواز پیش کریں کہ مرد کو گھر میں بولنے کی اجازت ہو تب ناں ۔۔ تب اسے پدری کہنے میں کوئی حرج نہ ہو گا ، جب تک شوہروں کو گھر میں بات کرنے کی اجازت مل نہیں جاتی زبان مادری ہی رہے گی ۔۔ پدری نہیں ہو سکتی، چچا غالب نے اپنی زبان اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر کچھ غلط تو نہیں کہا تھا، میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں، کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے، سو ہم اس محاورے میں چھپی حکمت کے دل قائل ہیں۔ اسے حماقت کہنے سے گریز بہتر ہے ۔
#ساری خدائی ایک طرف جورو کا بھائی ایک طرف #۔۔۔ اس بات سے بھی صنفی امتیاز کی بو آتی ہے ۔ وہ شوہر کا بھائی کیوں نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔ ؟ سو اس حماقت کا بھی فی الفور خاتمہ ضروری ہے
# غریب کی جورو سب کی بھابھی #۔۔۔ غریب کی جورو سب کی بھابھی ہو سکتی ہے تو غریب کیوں سب کا بھائی نہیں ہو سکتا۔۔۔ کیا اسے بھائی کہنے سے امیروں کی ہتک عزت ہوتی ہے۔ ان حماقتوں کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ یہ لغات اتنی ضخیم کیوں ہوتی ہیں ۔ یقینا ایسی ہی بے شمار حماقتوں سے اسے بھرا گیا ہو گا۔ اگر مل کر کوشش کی جائے تو اس کی ضخامت خاصی کم ہو سکتی ہے ۔ ہم تو اپنے حصے کا پہلا پتھر پھینک دیا ہے ۔ آپ بھی آگے بڑھیے اور اپنا اپنا حصہ ڈالیے ۔
# بھانجے تو شیر کو بھی اچھے لگتے ہیں#۔۔۔ لو کر لو گل ، شیر کو بھتیجے بھی اتنے ہی پسند ہیں ، اگر یقین نہیں آتا تو کسی بھی شیر سے پوچھ سکتے ہیں ۔۔۔ بلی شیر کی خالہ کیوں ہے؟ پھوپھی کیوں نہیں ہو سکتی ۔۔۔ جنات کو بھی نانے مامے کہا جاتا ہے، تایا چاچا نہیں۔۔ جانے کیوں ۔۔۔
# میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے #۔۔۔ لگتا ہے یہ محاورہ قدیم دور کی یادگار ہے کیوں کہ ہم نے کوئی گاڑی ایسی نہیں دیکھی جس کے دو پہیے ہوں ( سائیکل اور موثر سائیکل کو اب گاڑی تو نہیں کہہ سکتے ) گاڑی کی بجائے گدھا گاڑی کہا جائے تو تب اعتراض ختم ہو سکتا ہے ، گدھا گاڑی کا لفظ مناسب ترین اس لیے بھی ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ اسی طرح گھسٹ گھسٹ کر چلتا ہے جیسے گدھا گاڑی یا پھر بیل گاڑی۔
#مردوں والا قول #یہ بھی صنفی امتیاز سے لباب بھرا ہوا ہے، کیا ضروری ہے کہ ہر مرد وعدے کا پکا ہو اور عورت بے وفا۔۔ صورت حال الٹی بھی تو ہو سکتی ہے سو اس بات میں ہمیں حکمت کی بجائے حماقت زیادہ نظر آتی ہے۔ ایک آدمی کو ہم نے عورتوں والا قول لینے کا سنا تو بڑی حیرت ہوئی، وہ صاحب بولے عورت جو وعدہ کرتی ہے پورا ضرور کرتی ہے، ہو سکتا ہے یہ اس کا ذاتی تجربہ ہو، بہرحال یہ ایک بے تکی بات ہے، جس کا لغت میں پایا جانا لغت پر بوجھ کے مترادف ہے۔#جنگ عورتوں کا کھیل نہیں ہوتی #۔۔ یہ بات بھی صنفی امتیاز کے زمرے میں آتی ہے، اب تو فوج میں بھی عورتوں کی خاصی تعداد بھرتی کی جاتی ہے ۔ اور اب امن کے ساتھ ساتھ جنگ میں ںھی ان کا کردار نمایاں ہے۔ فوج میں بھی عورت کی ذمہ داریاں ایک سے زیادہ ہوتی ہیں۔
سو اس پر از حماقت بات کو زبان زد عام بننے سے روکا جائے اور اس کو زبان پر لانے سے پہلے کئی بار سوچا جائے ۔۔۔جاری و ساری ( سوری ) ہے۔

جواب دیں

Back to top button