
سی ایم رضوان
پاکستان تحریک انصاف کے بانی حال مقیم اڈیالہ جیل کی بہن علیمہ خان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے بھائی کو مصر کے سابق صدر محمد مرسی کی طرح جیل میں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ جمعرات کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’ ایکس ‘‘ پر جاری اپنی ایک پوسٹ میں علیمہ خان نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے خاندان کو قابل اعتماد ذرائع سے اس سازش کی مصدقہ اطلاع ملی ہے۔ علیمہ خان نے کہا کہ ’ ہمارا خاندان اس سازش کے پیچھے والوں سے خطاب کرنا چاہے گا۔ تاریخ پر نظر ڈالیں اور سمجھیں کہ فرعونوں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ کیا ہوا جنہوں نے اسی طرح کی حکمت عملی اختیار کی۔ جنرل باجوہ کے دور میں وزیر آباد میں بانی پی ٹی آئی کی جان پر حملے کی کوشش کی گئی۔ جنرل عاصم منیر کے دور میں آئی ایس آئی نے اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا اور انہیں ختم کرنے کی تیاری کی۔ تو وہ اب تک کیوں زندہ ہے؟ کیونکہ زندگی اور موت کا فیصلہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے‘۔ علیمہ خان نے پاکستان اور عالمی سطح پر اپنے بھائی کو ملنے والی وسیع حمایت پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ’ لاکھوں پاکستانی اور دنیا بھر کے مسلمان ہر روز ان کے لئے دعا کرتے ہیں۔ ہم ان سے پیار کرتے ہیں اور پاکستان کو ان کی ضرورت ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے متعدد قانونی چیلنجز کا سامنا کیا ہے لیکن تمام الزامات سے بری ہو چکے ہیں، پھر بھی وہ سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ علیمہ نے الزام لگایا کہ اس وقت اڈیالہ جیل پر آئی ایس آئی کا کنٹرول ہے، جہاں ان کے بھائی کو رکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ کیا آپ ان کی رہائی کے لئے دعا کرنے والے لاکھوں لوگوں کو بتا سکتے ہیں کہ عمران خان کیوں سمجھتے ہیں کہ انہیں جیل میں ختم کرنے کا منصوبہ ہے، جیسا کہ مصر میں مرسی کے ساتھ کیا گیا تھا‘۔ واضح رہے کہ ان الزامات نے پی ٹی آئی کے حامیوں میں تشویش کو جنم دیا ہے، حالانکہ ان دعوں کے حوالے سے تاحال حکام کی جانب سے کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
بانی پی ٹی آئی کے قتل کی سازش یا خدشات کی یہ اطلاع کوئی پہلی بار نہیں دی گئی ہے اس سے قبل بھی پچھلے تین سالوں سے مختلف مواقع اور مراحل پر خود بانی پی ٹی آئی اور ان کی پارٹی کے متعدد قائدین ان کے قتل کی سازش یا خطرات کی اطلاع دے چکے ہیں لیکن مقام شکر کہ ایسا کچھ ہوا نہیں اور نہ ہی کبھی کسی حکومتی ایجنسی نے اس امر کو اہمیّت دی ہے۔ البتہ ان کی سکیورٹی اور حفاظت کے حوالے سے حکومت کی کوئی بھی ایجنسی، ادارہ یا فورس کبھی بھی لاپرواہی اور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر نہیں آئے بلکہ پہلے دن سے لے کر آج تک ان کو پہلے کے تمام حکمرانوں، اسیر رہنماں اور اپوزیشن لیڈروں سے زیادہ تحفظ اور حفاظت فراہم کی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ ڈیڑھ سال قبل جب وہ گرفتار نہیں ہوئے تھے تو ان کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ انہیں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے صاحبزادے میر مرتضیٰ بھٹو کی طرح قتل کیا جا سکتا ہے۔ تب بھی تقریباً تمام سیاسی مبصرین چاہے وہ پی ٹی آئی کے حامی تھے یا مخالف ان سب کا خیال تھا کہ اس ضمن میں کوئی حتمی رائے دینا آسان نہیں ہے۔ بدھ 22مارچ 2023ء کی شام ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے خطاب میں بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد اور ان کے ’’ ہینڈلرز‘‘ نے پلان بنایا ہے جس کے مطابق زمان پارک کے اندر آج یا کل آپریشن کیا جائے گا اور اس دوران مبینہ طور پر ’’ پلانٹڈ لوگ‘‘ پی ٹی آئی کے حامیوں میں شامل ہو کر پولیس والوں کو ماریں گے، اس کے جواب میں وہ سانحہ ماڈل ٹائون کی طرح لوگوں کو قتل کریں گے۔ تب بانی پی ٹی آئی نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ انہیں بھی مرتضیٰ بھٹو کی طرح قتل کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ مرتضیٰ بھٹو کو 20ستمبر 1996ء کو کراچی کے علاقے کلفٹن میں ان کے گھر کے قریب فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کی جان کو واقعی خطرہ ہے؟ جبکہ ان پر اس سے پہلے بھی ایک قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے اور پاکستان اور دنیا کی سیاسی تاریخ میں پاپولر سیاسی لیڈرز کو منظر عام سے ہٹانے کی کئی ایک مثالیں بھی موجود ہیں، اس لئے بانی پی ٹی آئی کے اس خدشے کو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ تاہم ان کا مذکورہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب ان کو کئی مقدمات میں عدالتوں میں پیش ہونے کے لئے دبائو کا سامنا تھا اس لئے وہ کسی قاتلانہ حملے کے خدشات کی بناء پر عدالتوں میں تو پیش نہیں ہوتے تھے مگر چند دن بعد مینار پاکستان کے قریب ہونے والے پارٹی کے جلسے میں انہوں نے شرکت کی جس سے ان کے موقف کو زد پہنچی تھی۔
اس بات میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں کہ بانی پی ٹی کو مکمل سکیورٹی ملنی چاہیے۔ تاہم پاکستان میں حالات خراب ہیں اور ان کی جان کو بھی اتنا ہی خطرہ ہے جتنا ہم سب کو یا دیگر سیاسی لیڈروں کی جان کو ہے۔ جیسا کہ مولانا فضل الرحمان پر متعدد حملے ہو چکے ہیں، نواز شریف کو مارنے کی بھی متعدد کوششیں ہو چکی ہیں لیکن اگر بانی پی ٹی آئی کی جان کو واقعتا سنگین خطرات لاحق ہیں تو پھر ان کی حمایت میں فیصلے صادر کرنے والی عدلیہ کیوں اس بات کا نوٹس نہیں لیتی تاکہ حقائق سامنے آ سکیں کہ یہ سازش ہے بھی یا محض سیاسی بیان بازی۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کو بھرپور سکیورٹی ملنی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس سوال کا جواب بھی ایمانداری سے تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر بانی پی ٹی آئی کی حفاظت کے لئے ان کو ان کے اطمینان کے مطابق اڈیالہ جیل میں مزید سکیورٹی مہیا کر دی جائے تو وہ یا ان کی بہن یا کوئی بھی ان کا عزیز یا ان کی پارٹی کا کوئی قائد سکیورٹی اداروں پر ہی یہ الزام لگا دے تو اس الزام کا تدارک یا خدشات سے تحفظ کیسے ہو سکتا ہے۔ خود وفاقی وزارت داخلہ کا یہ موقف ہمیشہ سے رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی سمیت کئی سیاسی لیڈروں کو دہشت گردانہ حملوں کا خطرہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے اس سے پہلے بھی اپنے اوپر حملے کا جو خدشہ ظاہر کیا تھا وہ اسی طرح وقوع پذیر ہوا تھا ان کے خیال میں ان کے ارد گرد اکٹھے ہونے والے ہجوم میں نامعلوم افراد کی موجودگی ان کے لئے پریشانی کا باعث تھی، اس لئے اس وقت کی پی ڈی ایم حکومت نے بانی پی ٹی آئی کے خدشات پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی حفاظت کو یقینی بنایا۔
قتل کے ایسے خدشات کے اظہار سے ایک سوال یہ بھی جنم لیتا ہے کہ کیا دہشت گرد اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ موجودہ دور میں جب کہ امن و امان کے حوالے سے حالات خراب ہیں اس لئے نہایت احتیاط کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے دشمن ممالک کی ایجنسیاں اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتی ہیں۔ ملک کو پہلے ہی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ اگر اس نازک صورتحال میں ہوش کے ناخن نہ لئے گئے اور اسی طرح جو منہ میں آیا بولتے گئے تو پھر ملک شدید بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے توسط سے ان کی بہن کے خدشات درست بھی ہو سکتے ہیں اور ان خدشات کے اظہار سے انہیں گو کہ سیاسی طور پر ہمدردیاں مل رہی ہیں، عدالتیں بھی ان کی بات سن رہی ہیں، حکومت پر بھی دبائو بڑھ رہا ہے اور عالمی رائے عامہ
بھی ملک کی بزعم خود سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے مقبول ترین لیڈر کے ساتھ ہونے والے سلوک کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔ اس لئے بانی پی ٹی کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جانا چاہیے لیکن بعض تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ملک کے اندر بھی خاص طور پر خود پی ٹی آئی میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو صورتحال کو بہتر بنانے کی بجائے خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان پر بھی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر پی ٹی آئی میں گنڈاپور جیسے قدرے بااثر عناصر پر بھی توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں وفاقی حکومت اور سکیورٹی فورسز کو اپنے طرز عمل کو بہتر بناتے ہوئے صرف سکیورٹی تک محدود رہنا ہوگا اور سابقہ دونوں طرف سے کھیلنے کی پالیسیوں سے اجتناب کرنا ہو گا اور پی ٹی آئی قیادت خاص طور پر بانی پی ٹی آئی کی جانب سے پیغامات جاری کرنے والوں کو بھی ایسی بیانات جاری کرنے سے پہلے یہ سوچنا ہو گا کہ ان بیانات سے سیاسی مقاصد اور عوامی اور بین الاقوامی ہمدردیاں تو مل سکتی ہیں لیکن ساتھ ہی ان کے محبوب قائد کی زندگی کو خطرات بھی لاحق ہو جاتے ہیں کہ ایسے بیانات و خدشات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ کوئی دشمن خطرناک قدم نہ اٹھا سکے کیونکہ خدا نخواستہ اگر بانی پی ٹی آئی کو نقصان پہنچا تو یہ پاکستان کی بہت بڑی بدقسمتی ہوگی۔ اس سے پاکستان کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ ایسی صورت میں ملک کو سنبھالنا آسان نہیں ہوگا۔ خاص طور پر کے پی صوبے میں وہی صورتحال ہوگی جو بینظیر کی شہادت کے بعد سندھ میں دیکھی گئی تھی بلکہ اس سے بھی خطرناک ہو گی کیونکہ وہاں تو پاکستان کھپے کا نعرہ لگانے والا بھی کوئی نہ ہو گا۔ بہرحال دنیا کی حساس ترین پاک فوج کی موجودگی میں جیل میں قید بانی پی ٹی آئی کے قتل کی سازش کرنا یا محض سیاسی مقاصد کے لئی فرضی سازش کا پراپیگنڈا کرنا کوئی مذاق نہیں۔