گھیرائو

محمد مبشر انوار(ریاض)
چشم فلک،کرہ ارض پر ہونے والی تمام کارروائیوں کو اپنے دامن میں محفوظ کر رہی ہے اور اگر کسی کے وہم و گمان میں ہے کہ اس کا محاسبہ آخرت میں نہیں ہوگا ،تو انتہائی غلط فہمی کا شکار ہے کہ کرہ ارض پر تو دھوکہ دہی ممکن ہے، حق تلفی ممکن ہے ،دھونس دھاندلی،جبر و ستم ،چیرہ دستی ،ظلم و ناانصافی کرکے خود کودنیا کی نظروں سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے لیکن آخرت میں رب عظیم کے محاسبہ سے خود کو نہیں بچایا جا سکتا،کہ یہی قانون فطرت اور رب العزت کے قادر مطلق ہونے کی نشانی ہے۔انفرادی و اجتماعی طور پر ،اللہ رب العزت کے احکامات کی پیروی کرنے میں ہی بنی نوع انسان کی نجات ہے لیکن اس کے باوجود ایسے نافرمانوں کی بھی کمی نہیں جو نہ صرف یہ کہ اللہ رب العزت کے مقابلے دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ایسے بھی ہیں،جو اللہ کی وحدانیت و موجودگی سے بھی منکر ہیں لیکن خالق کائنات کی منصف مزاجی اوربطور خالق کردار کتنا خوبصورت ہے کہ اس بنیادی شرط کی نفی کے باوجود اپنی خلق کی ضروریات کماحقہ پوری کر رہا ہے اور صرف وہی ذات بابرکات ہے،جو نہ صرف بنی نوع انسان بلکہ دیگر کروڑہا مخلوق کی ضروریات زندگی پوری کرتا ہے۔اسے اس سے قطعا کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون اس کی حاکمیت کو تسلیم کرتا ہے اور کون اس سے انکاری ہے،البتہ اسے اس سے فرق پڑتا ہے کہ اس کی مخلوق ،جس کا وہ بلا شرکت غیرے خالق ہے،اس کی ضروریات زندگی پورا کرنے میں کوئی کوتاہی ہو۔تاہم اس کے باوجود ،اگر کسی کو ضروریات زندگی کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے تو وہ بھی اللہ رب العزت کی حکمت کے تحت ہے کہ اللہ اپنی مخلوق کو ہر طرح سے آزماتا ہے کہ کہیں اس کی مخلوق اس سے شکوے و شکائتیں تو نہیں کرتی یا ہر حال میں اس کا صبر و شکر ادا کرتی ہے،صبر و شکر ادا کرنے والوں کے لئے ،خزانہ غیب سے امداد ہوتی ہے جبکہ شکوے شکائتوں کرنے والوں کو بھی بہرطور زندگی گزارنے کے لئے لوح محفوظ میں رقم ان کا حصہ مل جاتا ہے۔
گزشتہ گیارہ مہینوں سے ،غزہ کے مسلمانوں پر اسرائیل نے جو زمین تنگ کررکھی ہے،اس کا حساب یقینا لیا جائے گا لیکن اس سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ امت مسلمہ کے لئے جو احکامات اللہ رب العزت نے دئیے ہیں،ان پر عمل پیرا بھی ہے یا نہیں؟اس کا جواب بارہا اپنی تحریر میں لکھ چکا ہوں کہ اس وقت امت مسلمہ کی حالت نفسا نفسی کی سی ہے اور کماحقہ جو کردار امت مسلمہ کا ہونا چاہئے یا ماضی میں ان حالات میں رہا ہے،وہ اب نہیں ہے اور مستقبل قریب میں ایسا کچھ ہوتا دکھائی بھی نہیں دے تاوقتیکہ غیر مسلمین جنگ مسلط کردیں اور اس کے نتیجہ میں امت مسلمہ متحد ہو جائے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا امت مسلمہ متحد ہو کر بھی اس یلغار کا مقابلہ کامیابی سے کرپائے گی کہ دفاعی صلاحیت اتنی ہے کہ غیر مسلموں کو جارحیت کا سامنا کرپائے؟یہاں دو آراء سامنے آتی ہیں کہ جس بے سروسامانی کے عالم میں غزہ کے مسلمان،یہود کے سامنے برسرپیکار ہیں اور اپنی شکست کو تسلیم نہیں کررہے بلکہ مسلسل جانوں کے نذرانے دے کر،اپنے اسلاف کی روایات کو زندہ کررہے ہیں،امت مسلمہ بھی بعینہ اسی طرح بروئے کار آئے اور اللہ اپنے وعدے کے مطابق ان کی نصرت فرمادے کہ بالآخر امت مسلمہ کو ہی غالب آنا ہے لیکن اس سے قبل کیا لمحہ موجود کو امت مسلمہ کا مغلوب ہونا تصور کیا جا سکتا ہے؟بیس لاکھ کی آبادی والے غزہ میں صیہونی اب تک چالیس ہزار سی زائد کو تہ تیغ کر چکے ہیں ،لاکھ سے زیادہ کو زخمی و اپاہج بنا چکے ہیں لیکن مکمل فتح حاصل کرنے سے ابھی بھی کوسوں دور دکھائی دیتے ہیں کہ فلسطینی آج بھی خم ٹھونک کر میدان میں کھڑے ہیں اور مسلسل اپنی جانوں کے نذرانے دے کر،جام شہادت نوش کرکے اسلاف کی روایات کو زندہ کررہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت کی کبریائی کو امت مسلمہ پر آشکار کررہے ہیں،کہ بے شک اللہ حق پرستوں کے ساتھ ہے اگر تم میدان میں ڈٹ کرکھڑ ے ہو۔ اسرائیل کی ہرممکن کوشش ہے کہ کسی طرح غزہ کو مسلمانوں سے خالی کروالے ،خواہ فلسطینیوں کی نسل کشی کرے ،وہ سمندربرد ہو جائیں یا مصر میں جا گھسیں لیکن بدقسمتی دیکھیں کہ صرف مصر وہ واحد ملک ہے جہاں فلسطینی جا سکتے ہیں اور مصر کو اسرائیل کا خوف ،فلسطینیوں کو وہاں جانے سے روک رہا ہے کہ مبادا فلسطینیوں کے تعاقب میں اسرائیل مصر کے ساتھ جنگ چھیڑ سکتا ہے۔تنگ آمد بجنگ آمد،اسرائیل کے لئے جنگ چھیڑنا یا اس جاری جنگ کو پھیلانا کوئی مسئلہ نہیں کہ دہائیوں سے مصر کے کنٹرول میں فلاڈیلفی کوریڈور پر مصری کنٹرول کو تاراج کرتے ہوئے،اس پرقابض ہو چکا لیکن مصر میں اتنی جرآت و ہمت نہیں کہ فلاڈیلفی کوریڈور سے قبضہ ختم کروا سکے، جبکہ اسرائیل نے انگیخت کرنے کی بھرپور کوشش کر لی۔اس پس منظر میں کیا یہ ممکن ہے کہ مصر یا کوئی اور ریاست اسرائیلی جارحانہ کارروائیوں کے خلاف میدان میں اتر سکے؟یا اس مجرمانہ خاموشی یا بزدلی میں اپنے علاقے اسرائیل کی جھولی میں ڈالتے رہیں؟تسلیم کہ ماضی کی شکستوں نے عربوں کو ،جنگ سے خوفزدہ کر رکھا ہے اور وہ کسی بھی صورت اسرائیل سے میدان جنگ میں اترنے کے لئے تیار نہیں کہ انہیں علم ہے کہ ان کی دفاعی صلاحیت درحقیقت اسرائیل کے پشت پناہوں کی مرہون منت ہے،جنگ چھڑنے کی صورت ان کا سارا وزن اسرائیل کے پلڑے میں ہو گا، جس کا اظہار وہ بارہا کر کے عرب ممالک کو میدان جنگ میں اترنے سے روک دیتے ہیں لیکن کیا اس کے باوجود ، موجودہ حالات میں،سرزمین عرب جنگ کی ہولناکی سے بچ پائے گی؟
حیرت تو اس امر پر ہے کہ امریکہ جو دیگر غیر مسلم ممالک ،اپنے ملک اور اپنے حلیفوں پر،میں ہونے والی ایسی جارحیت پرفی الفور کارروائیاں کرنے پر اتر آتی ہے اور ہنستے بستے ملکوں کو تاراج کرنے میں دیر نہیں لگاتی،کیسے اسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہوئے،اسے کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ جب تک چاہو،شکار گاہ میں انسانوں کا شکار کرتے رہو،کہیں بھی انسانی حقوق کی پامالی و نسل کشی و جنگی جرائم اسے نظر نہیں آرہے۔دو مرتبہ یہ امید پیدا ہوئی کہ اس خطے میں جاری جارحیت کو روکنے کے لئے امریکہ اپنا کردار ادا کرے گا لیکن تف ہے ایسی جانبداری پر کہ امریکہ ابھی تک اسرائیل کی بربریت کو رکوانے میں کامیاب نہیں ہوا گزشتہ دنوں یہ امید دوبارہ بنی تھی کہ امریکہ جنگ بندی کروانے میں کامیاب ہو جائیگا اور فلسطینی مسلمانوں کا خون بہنے سے رک جائیگا ،اس کے لئے امریکہ نے ایران کو مذاکرات کے ذریعے ہنوز روک رکھا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بدلہ لینے کے لئے ایران کوئی انتہائی اقدام نہ اٹھائے لیکن ابھی تک امریکہ جنگ بندی کروانے میں ناکام رہا ہے۔ممکنہ طور پر اس سارے کھیل میں کہیں نہ کہیں امریکی خواہش بظاہر یہی دکھائی دے رہی ہے کہ اس خطے کے ممالک اس جنگ میں کود جائیں اور اسرائیل کی براہ راست پشت پناہی کے لئے امریکہ کو جواز مل سکے کہ ابھی تک اسرائیل اپنی بھرپور کوششوں کے باوجود دیگر ممالک کو اس جنگ میں ملوث کرنے میں ناکام رہا ہے۔خطے کے دیگر ممالک کے اس جنگ میں براہ راست نہ کودنے کو دانشمندی کا نام دے یا ان کی کمزوری کہیں،حقیقت یہی ہے کہ اس سے بہت دیر تک نظریں نہیں چرائی جا سکتی کہ اگر اسرائیل یا اس کے پشت بناہ کو اس خطے میں امن عزیز ہوتا تو اب تک جنگ بندی ہو چکی ہوتی لیکن اس روئیے کے یاعث بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ بھی درپردہ یہی چاہتاہے کہ خطے کے ممالک اس جنگ میں کود جائیں تا کہ ایک فیصلہ کن معرکہ بپا ہو سکے۔حال ہی میں امریکہ نے ایک آخری تنبیہ اسرائیل کو پھر کی ہے کہ فوری جنگ بندی کی جائے بصورت دیگر امریکہ اس جنگ سے دستبردار ہو سکتا ہے،یہ ایک پینترہ تو ہو سکتا ہے کہ اس طرح ایران جو ابھی تک خاموش ہے،کھل کر اسرائیل کے مد مقابل آ جائے،گو کہ یمنی حوثی اور لبنان میں حزب اللہ اسرائیل کے خلاف برسرپیکار تو ہیں لیکن ان کے نبردآزما ہونے سے ریاستوں کے جنگ میںکودنے کا تاثر نہیں بن رہا ،جو امریکہ کو کھل کر اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہونے پر مجبور کرے۔اگر صورتحال واقعتا ایسی ہو جائے کہ امریکہ اسرائیل کے سر سے ہاتھ اٹھانے کا اعلان کردے اور حزب اللہ،یمنی حوثی ،شام سے بشار الاسد اور ایران کھل کر مد مقابل آجائیں،جبکہ مصر و سعودی عرب بھی اپنی فوجیں اسرائیل کے خلاف میدان میں اتار کر اسرائیل کا گھیرائو کریں تو کیا امریکہ خاموش رہے گا؟اگر امریکہ خاموش نہیں رہتا تو اسرائیل کے اس گھیرائو کو ختم کرنے کے لئے مسلم ممالک کیا کریں گے؟کیا یہ وہی صورتحال نہیں ہو جائیگی کہ جو عراق و افغانستان میں بپا ہوئی اور امریکہ نے وہاں دو دہائیاں تسلط قائم کرنے میں گزار دی، کیا عرب ممالک گھیرائو کرنے کے بعد،افغانستان جیسی مزاحمت دکھا سکیں گے؟۔