ثمرات

تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض )
علامہ محمد اقبالؒ نے مسلمانوں کے متعلق کیا خوبصورت بات کہی تھی کہ ’ خود کو بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں ۔۔۔ ہوئے کس درجہ بے توفیق! فقیہان حرم‘۔ بنیادی طور پر دیکھا جائے تو یہ حقیقت ہر اس شخص پر منطبق ہوتی ہے جسے اقتدار کی ہوس ہے، اقتدار کا نشہ ہے، خواہ یہ ہوس ؍ نشہ قلیل مقدار میں ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں اس حقیقت کی آفاقیت فقط مسلمانوں تک محدود دکھائی نہیں دیتی بلکہ مذہب، رنگ و نسل سے مبرا ہر ہوس اقتدار کے مریض تک یہ فطرت دکھائی دیتی ہے کہ طاقت کے نشے میں کسی رکاوٹ کو قبول کرنے کے لئے، طاقتور تیار ہی نہیں اور ہر رکاوٹ کو بزور توڑنے کے لئے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف اسلام سے قبل تک کی دنیا، چند ایک مشتثنیات کو چھوڑ کر، دیکھیں تو ایک ہی اصول ’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ دکھائی دیتا ہے جبکہ بعد از اسلام زندگی کے اصول متعین کر دئیے گئے ہیں، بالخصوص امت مسلمہ کے لئے ان اصولوں کی پیروی ہی ان کے امتی ہونے کی دلیل اور ثبوت ہے۔ بدقسمتی دیکھئے کہ اسلام کے نام لیوائوں کی فطری ہوس اقتدار، ان آفاقی اصولوں کو کسی خاطر میں ہی نہیں لاتی کہ ان کے نزدیک اقتدار و اختیار ہی اصل مطمع نظر ہے اور کسی بھی قیمت پر اس کا حصول آرزوئے زندگی نظر آتا ہے۔ زندگی کو اصول و قواعد کے مطابق ڈھالنے کے لئے ہم تیار ہی نظر نہیں آتے، خواہ اس کے لئے ہمیں کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑی، ہم اس کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں حتی کہ انسان کی سب سے قیمتی ترین متاع ’’ عزت نفس‘‘ بھی اس کی خاطر دوسروں کے پائوں میں رکھ دینے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ اسلامی ضابطہ حیات کو تج کئے ہوئے تو حقیقتا عرصہ گزر گیا اور ہم اس ضابطہ حیات کو اپنانے میں بھی کجی دکھانے سے باز نہیں آئے کہ جو درحقیقت اسلامی اصولوں سے ہی کشید کر کے اقوام مغرب نے اپنے معاشروں کے لئے طے کیا اور ترقی کی منازل طے کرتے چلے گئے۔ فقط ایک حقیقت کہ اقوام مغرب نے ترتیب دئیے گئے ضابطہ حیات کو ایمانداری کے ساتھ اپنے معاشروں میں رائج کیا، اس پر عملدرآمد ہر کس و ناکس کے لئے لازم ٹھہرا، کوئی بھی قانون سے مبرا نہیں ٹھہرا، قانون کا احترام سب کے لئے لازم، ریاستی مشینری کی تربیت اور اس کے اختیارات میں کسی کو مداخلت کی اجازت نہیں اور بلاامتیاز کسی بھی سیاسی و سماجی و ریاستی حیثیت، ریاستی اہلکار اور قانون کے سامنے جوابدہ، ریاستی اہلکار بھی اپنے اختیارات سے تجاوز کا سوچ بھی نہیں سکتے کہ اسے ایک امانت کے طور پر دیکھا، سمجھا اور اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ قوانین بناتے وقت، کبھی کسی ایک مخصوص صورتحال، فرد یا گروہ کو سامنے رکھ کر قانون سازی نہیں کی جاتی بلکہ قانون سازی کا مقصد، عوامی فلاح کو مد نظر رکھ کر کیا جاتا ہے اور جہاں یہ شائبہ بھی ہو کہ قانون سازی کرتے وقت کسی مخصوص صورتحال، فرد یا گروہ کو سامنے رکھ کر کی گئی ہے، تو اعلی عدالتوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ایسی قانون سازی، آئین سے متصادم، انسانی حقوق کے خلاف یا شخصی مفاد میں بنے قانون کو کالعدم قرار دے دیں تا کہ معاشرے میں کسی کا استحصال نہ ہو سکے۔
پاکستان میں اداروں کی ناگفتہ بہ حالت کو دیکھتا ہوں تو واضح طور پر پسند و ناپسند کے اشتہارات ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں، خواہ ادارہ کوئی بھی ہو اور بدقسمتی سے یہ رویہ نچلی سطح تک بخوبی دیکھا جا سکتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام کا استحصال ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ عوام کی حالت کا رونا بندہ کیا روئے کہ جہاں خواص تک کو استثنیٰ حاصل نہیں اور بونے حکمران کسی بھی ادارے کی اہم ترین جگہ پر فقط اپنے ہی ’’ وفادار‘‘ کو متعین کرنے کے جتن کرتے دکھائی دے رہے ہوں اور اصولوں کے مطابق کسی بھی شخصیت کے فائز ہونے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بھونڈی کوششوں میں مصروف نظر آئیں، تو ایسے معاشرے، جو ’’ ڈنگ ٹپائو‘‘ پالیسی کے تحت بروئے کار ہوں ، میں ترقی و خوشحالی کیسے اور کیونکر متوقع ہو سکتی ہے۔ ڈنگ ٹپائو پالیسی کا بنیادی مقصد ہی، اپنے مفادات کا کامیاب حصول تصور ہوتا ہے اور اس مقصد کے لئے ماضی قریب میں ہی پاکستانی مقننہ نے عدلیہ کے پر کاٹنے کی خاطر جو پریکٹس اینڈ پروسیجر کا قانون متعارف کروایا تھا، اس کا مقصد تب کے چیف جسٹس عمر عطا بندیا ل کے سامنے بند باندھنے کی کامیاب کوشش کی گئی تھی اور موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور متوقع چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے مقننہ کے حق قانون سازی کو تسلیم کرتے ہوئے، عمر عطا بندیال کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ تاہم شنید یہ ہے کہ اس قانون سازی کے باوجود، حکومت کو لمحہ موجود میں پھر عدلیہ سے مسائل درپیش ہیں اور حکومت یہ چاہتی ہے کہ کسی طرح موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت میں توسیع کی جا سکے لیکن سعی مسلسل میں ناکامی اور میڈیا پر اس مقصد کی دھجیاں اڑنے کے بعد، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے مدت ملازمت میں توسیع سے دستبرداری کے بعد، حکومت پینترہ بدل چکی ہے۔ مخصوص نشستوں کے مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے، جسٹس منصور علی شاہ اور ان کے رفقاء کی اکثریت، حکومت اور الیکشن کمیشن کے موقف کو غلط قرار دے چکی ہے اور بادی النظر میں، عدالت عظمیٰ 13جنوری کو انتخابی نشان چھیننے کے فیصلے سے معاملات کو درست کرنا چاہ رہی ہے تا کہ سیاسی افق پر
چھائی اس گرد کو صاف کیا جا سکے۔ اگر یہ گرد صاف ہو جاتی ہے تو سیاسی میدان کا مطلع نہ صرف صاف ہو جائیگا بلکہ یہ امید بھی کی جا سکتی ہے کہ سیاسی معاملات بہتری کی جانب چل سکتے ہیں لیکن اس میں حکمران جماعت کی دھاندلیاں بلکہ دھاندلے بے نقاب ہو جائیں گے اور ان سے حکومت جانے کا قوی امکان ہے لہذا حکومت نہیں چاہتی کہ آنے والے چیف جسٹس اس حوالے سے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں بلکہ ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح آنے والے چیف جسٹس انصاف سے صرف نظر کرتے ہوئے ’’ سٹیٹس کو‘‘ میں حکومت کا ساتھ دیں، تو ان کے تعیناتی کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔ دوسری صورت میں شنید ہے کہ قومی اسمبلی میں گو کہ دو تہائی اکثریت نہ ہونے کے باوجود حکومت آئینی ترمیم کے لئے ہاتھ پیر مار رہی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ کسی طرح نہ صرف آنے والے بلکہ ان کے بعد بھی قطار میں دو ججز کو اس دوڑ سے باہر کر دیا جائے، جس کے لئے ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار میں ترمیم کر دی جائے، عمر کی حد کم کر دی جائے۔ بظاہر تو حکومت کے پاس عددی اکثریت موجود نہیں لیکن جو وتیرہ ہمارے اراکین پارلیمان کا رہا ہے، اس کے پس منظر میں یہ قرین از قیاس ہے کہ کسی بھی وقت مطلوبہ عددی اکثریت حکومت کو میسر ہو جائے اور یہ ترمیم کر دی جائے گو کہ یہ ترمیم نہ صرف ’’ بد نیتی‘‘ پر مبنی ہو گی بلکہ ’’ ڈنگ ٹپائو‘‘ کی ایک اور گندی ترین مثال ہو گی کہ جس میں حکومت بجائے خود کو قانون کے مطابق ڈھالتی، وہ ایسے قانون کو ہی بدل کر اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے پر تلی ہے۔ جبکہ دوسری طرف یہ بھی شنید ہے کہ تین ہائیکورٹس کے ججز کی جانب سے اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ اگر جسٹس منصور علی شاہ کی تعیناتی میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی یا انہیں چیف جسٹس تعینات نہیں کیا جاتا تو ہائیکورٹ کے ججز احتجاجا مستعفی ہو جائیں گے۔ میری نظر میں یہ ایک جذباتی فیصلہ ہو گا اور حکومت کو کھل کھیلنے کے لئے شاندار موقع ہو گا اور اپنے ماضی کے عین مطابق حکومت اپنے ہم خیال ججز کو تعینات کر کے من پسند فیصلے حاصل کر پائے گی، ہونا تو یہ چاہئے کہ موجودہ ججز کو اپنے مناصب پر رہتے ہوئے، اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے، آزادانہ فیصلے کرتے ہوئے عوام کو انصاف فراہم کرتے رہنا چاہئے اور حکومت کی چال میں نہیں آنا چاہئے، تاہم میری ہی نہیں قوم کی دعائیں جسٹس منصور علی شاہ کے ساتھ ہیں اور حکومت لاکھ برا چاہے تو بھی جو عزت جسٹس منصور علی شاہ کے مقدر میں ہے، اسے چھین نہیں سکتی۔
آج کا موضوع بہر طور 22اگست کے جلسے کے ملتوی ہونے پر تھا کہ عزم استحکام کے عنوان سے گزشتہ تحریر میں لکھا تھا کہ فیصلہ، فیصلہ سازوں اور عوام کو کرنا ہے کہ عزم استحکام کی خاطر کس سیاسی شخصیت نے اپنا آئینی و قانون چھوڑتے ہوئے، قانون پر عمل کیا ہے اور کس فریق نے قانون کو روندتے ہوئے عدم استحکام کو مضبوط کیا ہے۔ جلسہ ملتوی ہونے پر تحریک انصاف کے کارکنان کا احتجاج و غصہ بجا تھا جبکہ حکومت کی طرف سے بھد اڑانے کی کوششیں کرتے ہوئے، یہ دعوی کہ تحریک انصاف ایک جلسہ کرنے کے قابل نہیں رہ گئی، یا باربار جلسہ ملتوی کرنے کے باعث اب عوام، شیر آیا شیر آیا کے مصداق جلسے میں نہیں آئیں گے، مبنی بر حقیقت نہیں ہے کہ عوام نہ صرف جانتی ہے بلکہ نو مئی کے مقدمات کو بھگت رہی ہے لہذا وہ کسی بھی طور قانونی اجازت کے بغیر جلسہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیںکہ اس کا خمیازہ قیادت کو بھگتنا پڑے گا۔ اس لائحہ عمل کو بجا طور ایک قدم پیچھے ہٹ کر لمبی جست کی تیاری کرنا کہا جا سکتا ہے اور اگر حکومت کو اتنا یقین ہے کہ اب تحریک انصاف کا کارکن جلسے کے لئے باہر نہیں نکلے گا، تو اس کیفیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، حکومت کو چاہئے کہ اس غبارے سے ہوا نکالتے ہوئے، نہ صرف جلسے کی اجازت دے بلکہ کسی بھی صوبے میں تحریک انصاف کے کارکنان کے خلاف کریک ڈائون سے گریز کرکے، اس صورتحال کے ’’ ثمرات‘‘ سے فائدہ اٹھائے، کیا حکومت تیار ہے؟؟؟