کلہاڑی پر پائوں

تحریر : رفیع صحرائی
جب مقدر یاوری پر ہو تو ہر الٹا قدم بھی سیدھا پڑتا ہے۔ کامیابیاں سمیٹتے سمیٹتے انسان تھک جاتا ہے مگر کامیابیوں کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جاتا ہے۔ یہ سب اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔ جو شخص کامیابی کو سنبھال لے وہ آئندہ کے لیے بھی سرخرو ہوتا رہتا ہے مگر جو کوئی یہ سمجھے کہ ہمیشہ حالات ایسے ہی رہیں گی، ہر وقت صرف وہی عطائوں کا حق دار ٹھہرے گا تو بدلے ہوئے حالات میں وہ مخالف ہوائوں کا سامنا نہیں کر پاتا۔ بیساکھیوں کا عادی جب تک اپنے پائوں پر وزن ڈال کر بیساکھیوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کرے گا وہ ہمیشہ بیساکھیوں کا محتاج رہے گا۔ بیساکھی کے ٹوٹ جانے یا گم ہونے کی صورت میں وہ معذور ہو کر بیٹھ رہے گا۔ ساتھ چلنے والے کچھ دیر تو اس کے اٹھنے کا انتظار کریں گے مگر یہ انتظار زیادہ لمبا نہیں ہو سکتا۔ سنگی ساتھی اسے چھوڑ کر منزل کی طرف روانہ ہو جائیں گے کہ یہی زمانے کا دستور ہے۔
عمران خان ایسے خوش قسمت انسان تھے کہ جب اقتدار کا ہُما ان کے سر پر بٹھایا گیا تو خود انہیں بھی ایسا ہونے کا یقین نہیں تھا۔ محنت ساری دوسروں کی تھی مگر بینیفشری عمران خان تھے۔ جنوبی پنجاب والوں کو الگ صوبی کے نام پر ان کے ساتھ جوڑا گیا، کئی لوگوں کے ٹکٹ عین موقع پر واپس کروا کر عمران خان کی گود میں بٹھایا گیا۔ کئی الیکشن ہار کر سونے والوں کو سوتے سے جگا کر ان کی فتح کی نوید سنائی گئی مگر تمام تر انجنیئرنگ کے باوجود نمبر پورے نہ ہوئے۔ تب جہانگیر ترین کا جہاز چلا اور کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا اٹھا کر بھان متی کا کنبہ جوڑا گیا۔ اس کنبے کی سربراہی کی مسند پر جناب عمران خان کو براجمان کیا گیا۔ اس سے قطع نظر کہ عمران خان کتنے کامیاب رہے اور کتنے ناکام، اپریل 2022ء میں جب انہیں عدمِ اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محروم کیا گیا تو اس وقت عوام میں وہ اپنی مقبولیت کھو چکے تھے۔ بے تحاشہ مہنگائی نے انہیں اپنے لوگوں میں بھی غیر مقبول بنا دیا تھا۔ وہ ایسے خوش قسمت تھے کہ ان کی ساری ناکامیاں آنے والی حکومت کی جھولی میں پڑنے والی تھیں جبکہ ان کی پارٹی آزاد کشمیر، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور پنجاب میں حکمران تھی۔ وہ ملک کے قریباً ساٹھ فیصد حصے پر اب بھی حکمران تھے۔ ان کے لیے یہ آئیڈیل صورتِ حال تھی۔ حکومتیں انجوائے کرتے رہتے، حکمرانوں کو غداری کے فتوے بانٹتے رہتے، امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کو نشانے پر لیے رکھتے اور ایک سال انتظار کرنے کے بعد آئندہ انتخابات میں بھرپور طاقت سے واپس آ جاتے ۔ ان کے ساتھی بجاطور پر وفاقی حکومت کو سولہ کلومیٹر رقبے کی حکومت کہا کرتے تھے۔ مرکز میں اگر عمران خان کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی تو
پنجاب اور کے پی گورنمنٹ کی طرف سے اس کا موثر جواب دیا جاتا۔ یہاں تک کہ وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا ء اللّٰہ کے خلاف مقدمات تک درج کر لیے گئے۔ مگر عمران خان مطمئن نہ تھے۔ وہ چونکہ بذاتِ خود وزارتِ عظمیٰ کے منصبِ جلیلہ پر فائز نہ تھے اس لیے ان کی حالت ماہی بے آب جیسی تھی۔ وہ پارٹی پر اپنی ذات کو ہمیشہ مقدم رکھتے آئے ہیں۔ عمران خان کسی نہ کسی طرح خود وزیرِ اعظم بننے کے لیے بے چین تھے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے انہوں نے اپنے ایم این ایز سے استعفے دلوا کر آئینی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی مگر ان کی پارٹی کے اندر سے ہی بغاوت ہو گئی۔ فارورڈ بلاک کے ذریعے حکومت کو کمزور ہونے سے بچا لیا گیا اور عمران خان قومی اسمبلی میں ایک بھاری اسٹیک سے محروم ہو گئے۔ یہ ان کے ننگے پائوں کا پہلا وار تھا جو انہوں نے تیز دھار کلہاڑی پر کیا۔ اسی اثنا ء میں وفاقی حکومت کی طرف سے کامیاب وار کے ذریعے پنجاب کی حکومت سے انہیں محروم کر دیا گیا مگر حیرت انگیز طور پر عدالت نے انہیں یہ اقتدار واپس دلا دیا۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ عمران خان سمجھداری کا مظاہرہ کرتے اور حمزہ شہباز شریف کے چند روزہ اقتدار کے دوران اپنے کارکنوں اور لیڈرشپ پر کی گئی سختیوں کو مدِنظر رکھتے مگر خان صاحب نے پنجاب اور کے پی اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ سب دوستوں اور حلیفوں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔ چودھری پرویز الٰہی نے یہاں تک کہہ دیا کہ پنجاب اسمبلی توڑنے کی صورت میں یہی پولیس جو آپ کی محافظ ہے آپ کو گرفتار کر لے گی مگر وہ عمران ہی کیا جو کسی کی نصیحت پر کان دھرے۔
وہ خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں۔ انہوں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑ کر کلہاڑی پر اپنے پائوں کا دوسرا وار کر دیا۔ انہیں سبھی نے سمجھایا کہ فائدہ ہمیشہ اقتدار میں ہی ہوتا ہے مگر انہیں سمجھنا تھا نہ سمجھے۔ جانے کیوں انہیں اپنی پارٹی کے اقتدار سے چھٹکارا حاصل کرنے کی پڑی ہوئی تھی۔ انہوں نے دونوں اسمبلیاں توڑنے کی جو مضحکہ خیز توجیہہ پیش کی اس پر ان کے ساتھی بھی سر پیٹنے پر مجبور ہو گئے۔ فرمایا کہ ’’ موجودہ حکومت نے کہا تھا کہ اگر الیکشن چاہیے تو پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں توڑ کر الیکشن کروا لو، صدر عارف علوی صاحب کی موجودگی میں جنرل باجوہ نے بھی یہی مشورہ دیا تھا‘‘۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔
وہ باجوہ صاحب جنہوں نے بقول ان کے انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا ان کا مشورہ مان لیا گیا جبکہ اپنوں کے ہر مشورے کو ٹھکرا دیا گیا۔ ایسی غیر سیاسی اور غیر منطقی سوچ کے ساتھ آپ کس طرح سیاست کی شطرنج کے کامیاب کھلاڑی ثابت ہو سکتے ہیں۔ وہی ہوا، الیکشن لیتے لیتے وہ آزاد کشمیر حکومت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ تب قدرے ہوش آیا تو قومی اسمبلی کے استعفوں کی واپسی کے لیے ترلے کرنے لگے۔ پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کی بحالی کی بات بھی شروع کردی ساتھ ہی کبھی 14مئی 2023ء سے پہلے باقی اسمبلیاں توڑ کر الیکشن کروانے کی ضد بھی کرنے لگے۔ درحقیقت یہ الیکشن کے لیے شرائط نہیں تھیں بلکہ عمران خان حکومت سے این آر او مانگ رہے تھے۔ ادھر حکومت ان کی تلملاہٹ اور بے تابیوں سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہی تھی۔
پھر عمران خان عدالت چلے گئے کہ مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں پنجاب میں14 مئی کو الیکشن کروائے جائیں۔ وہ خود بھی یہ بات اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔ مگر انہیں چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جناب عمر عطا بندیال سے بہت سی امیدیں تھیں۔ الیکشن کمیشن نے بھی سپریم کورٹ سے 14مئی کو الیکشن کروانے کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کر دی۔ اس کا موقف تھا کہ نہ الیکشن کمیشن کے پاس الیکشن کے انعقاد کے لیے فنڈز ہیں نہ ہی سیکیورٹی کے انتظامات ہیں۔ سپریم کورٹ تبھی سپریم ہے جب دوسرے سارے ادارے اس کے ساتھ کھڑے ہوں۔ قلم کی طاقت سے کشتوں کے پشتے نہیں لگتے، قلم کے ساتھ بندوق کا ساتھ بھی ضروری ہے۔ خان صاحب آئین کی پاسداری اور بے توقیری کا راگ الاپتے رہیں۔ پتا ان کو بھی تھا کہ حکومت میں رہ کر آئین کی پاسداری کوئی بھی نہیں کرتا۔ وہ تو اقتدار کے ایوانوں سے نکل کر بھی ساٹھ فیصد ملک پر حکمران تھے۔ ان کے مقدر میں ہی ٹھوکریں تھیں تو زبردستی ان کو پھولوں کی سیج پر کیسے بٹھایا جا سکتا تھا۔ وہ خود بھی عدالتوں میں رُل گئے، لیڈرشپ کو بھی جیلوں اور عدالتوں کی بھینٹ چڑھا دیا اور ورکرز کو بھی مسلسل عذاب اور امتحان میں ڈال دیا۔ اقتدار حاصل کرنے کی جلدی میں انہوں نے کلہاڑی پر اس وقت پوری شدت سے پاں دے مارا جب وہ اپنے سہولت کاروں کے اشارے پر ریاست سے ٹکرا گئے اور 9مئی کو انقلاب لانے کی ناکام کوشش کر ڈالی۔
عمران خان گزشتہ تیرہ ماہ سے جیل میں ہیں۔ ان کی پارٹی پر بعض ایسے لوگ قابض ہو گئے ہیں جو بظاہر ان کے ساتھ ہیں مگر دل سے نہیں چاہتے کہ وہ رہا ہوں۔ پارٹی انتشار کا شکار ہو چکی ہے۔ کے پی اور پنجاب میں دھڑے بندیاں واضح ہیں۔ ایڈونچر پسند عمران خان نے بار بار کلہاڑی پر پائوں مار کر کلہاڑی کا تو کچھ نقصان نہیں کیا مگر اپنے پائوں ضرور زخمی اور لہولہان کر لیے۔