Column

آپریشن، آپریشن ہر طرف آپریشن

تحریر : سیدہ عنبرین
کوئٹہ اور کرکٹ دونوں طرف سے افسوسناک خبریں ہیں، بلوچستان میں 7مختلف جگہوں پر دہشت گردوں کے حملوں میں 70سے زائد افراد شہید کر دیئے ہیں، جن میں پاکستان آرمی کے 14جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، فورسز کی جوابی کارروائی میں 21دہشت گرد ہلاک کر دیئے گئے جبکہ متعدد اپنے خفیہ ٹھکانوں کی طرف بھاگ گئے۔ موسیٰ خیل میں مسلح دہشت گردوں نے بسوں سے مسافروں کو اتارا ان کے شناختی کارڈ چیک کر کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے 23افراد پر فائر کھول دیا ان سب کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا، قلات بستی، پنجگور، مستونگ بیلہ، گوادر اور کوئٹہ میں بھی دہشت گردانہ کارروائیاں ہوئی ہیں۔
بلوچستان میں عرصہ دراز سے دل جیتنے کی پالیسی پر کام ہو رہا ہے جیسے کمزوری سمجھ کر دہشت گردوں نے اپنی کارروائیوں کا دائرہ بڑھا دیا ہے، دہشت گردانہ کارروائیاں گزشتہ 25برس سے کسی نہ کسی انداز میں جاری ہیں، ان میں کئی سو افراد شہید ہو چکے ہیں، بلوچستان اور بالخصوص کوئٹہ کے ہزارہ قبیلہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے، یہ قبیلہ انتہائی پرامن اور تعلیم یافتہ افراد کا قبیلہ ہے، جنہوں نے تمام تر مظالم کے باوجود صبر کا دامن ساتھ نہ چھوڑا، وہ قانون اور آئین کے دائرے میں رہ کر انصاف تلاش کرتے رہے۔ بعد ازاں دہشت گردوں نے شیعہ کمیونٹی کو نشانہ بنانا شروع کر دیا، اب تیسرے فیز میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے ان کی زد پر ہیں۔ دہشت گردوں کی کارروائیوں کا مطلب بآسانی سمجھ میں آتا ہے، پہلے انہوں نے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی منصوبہ بندی کی، ان کا یہ منصوبہ ناکام رہا، جس کے بعد اب پاکستان کے سب سے بڑے صوبے سے تعلق رکھنے والوں کا قتل عام کر کے 2صوبوں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کی جا رہی ہے، دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو اس میں بھی ناکامی ہو گی، کیونکہ اہل پنجاب ہوش مند ہیں، وہ ان چالوں کو ناکام بنائیں گے، دہشت گردوں کی چال میں نہیں آئیں گے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والا ہر شخص پنجاب میں اتنا ہی مضبوط ہے جتنا وہ اپنے گھر میں ہے۔
وزیر دفاع حکومت پاکستان نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں بھارت ملوث ہے، ہم اسے پوری قوت سے جواب دیں گے، مگر اہل پاکستانی جاننا چاہتے ہیں کہ وہ بھرپور قوت سے جواب کب دیا جائے گا، مزید کتنی جانیں ضائع ہونے کا انتظار ہے یا مزید کتنے درجن ایسے اور واقعات کا انتظار ہے۔ اطلاعا عرض ہے بلوچستان میں دہشت گردی کے بڑے واقعات کی سینچری تو عرصہ دراز قبل مکمل ہو چکی ہے، کیا اب ڈبل سینچری کا انتظار ہے، دہشت گردی کی حالیہ بڑی واردات کے بعد اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کا اجلاس تھا، یہ اجلاس دو تین گھنٹے میں ختم ہو جانا تھا، وزیر داخلہ اس میں شریک ہونا چاہتے تھے لیکن جناب وزیراعظم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اجلاس میں شرکت نہ کریں اور بلوچستان روانہ ہو جائیں، اس حکم سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام آباد میں کیا ہو رہا ہے، ضروری تھا کہ وزیر داخلہ اس اجلاس میں شریک ہوتے۔ واقعے کی تفصیلات سامنے آ چکی تھیں، کابینہ اجلاس میں اس پر غور کے بعد دو ٹوک فیصلہ کیا جاتا کہ اب حکومت کو کیا قدم اٹھانا ہے، وزیر داخلہ کوئٹہ پہنچے، انہوں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب شروع کیا، ان کا اظہار افسوس ختم ہی ہوا تھا کہ صحافیوں نے سوالات کے بوچھاڑ کر دی۔ وزیر داخلہ سادات خاندان سے ہیں، سید دل کا نرم ہوتا ہے، پس وزیر داخلہ نے نرم زبان اور نرم لہجے میں گفتگو کی، جس پر مقامی صحافی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے، اتنی بہیمانہ کارروائی جس میں 70سے زائد افراد شہید کر دیئے گئے، اس کے حوالے سے وزیر داخلہ نے فرمایا کہ دہشت گردوں کو نہیں چھوڑا جائے گا، یہ سب تو ایک ایس ایچ او کی مار ہے۔ انہوں نے بعد ازاں وضاحت کی کہ انہوں نے یہ مثال کے طور پر کہا ہے۔ وہاں یہ بھی سوال اٹھا کہ اگر یہ معاملہ اتنا ہی سیدھا اور سادہ ہے تو پھر 25برس میں وہ ایس ایچ او کیوں نہ تلاش کر لیا گیا جو دہشت گردوں کو ٹھکانے لگا سکتا۔ صورتحال دنیا کے سامنے ہے یہ معاملہ ایک ایس ایچ او تو کیا پورے صوبہ بلوچستان کی پولیس اور کانسٹیبلری کے بس سے باہر ہے۔ ایس ایچ او کسی بھی صوبے کا ہو وہ منشیات کے اڈے قحبہ خانے اور جوئے کے اڈے بند نہیں کرا سکتا، دہشت گردوں سے کیسے نمٹے گا۔ کوئی بھی ایس ایچ او جعلی پولیس مقابلے میں ہتھکڑیوں میں جکڑے ملزمان کو پار ضرور کر سکتا ہے، ایسے مقابلوں میں ایک بھی پولیس اہلکار یا افسر ہلاک یا زخمی نہیں ہوتا جبکہ اصل پولیس مقابلے میں حال ہی میں دیکھا گیا جب کچے کے علاقے میں 14پولیس اہلکار شہید ہو گئے، بعض کو یرغمال بنا لیا گیا، جنہیں چھڑانے کیلئے جیل میں بند ایک ملزم کو رہا کرا کے اپنے سپاہیوں کو رہا کرایا گیا۔
وزیر داخلہ سے سوال و جواب کا نرم نرم سلسلہ جاری تھا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جناب سرفراز بگٹی خالص مردانہ انداز میں ریسکیو کیلئے پریس کانفرنس میں شامل ہوئے انہوں نے دو ٹوک موقف اختیار کیا نوجوان فوجی کیپٹن کی شہادت پر اسے خراج تحسین پیش کیا اور بتایا کہ مختلف ملکوں کے ساتھ ملے ہوئے 4ہزار کلو میٹر کے علاقے میں فوجی کس طرح اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا اعلان ہوا پھر یہ ارادہ ملتوی کر دیا۔ صوبہ بلوچستان میں بھی آپریشن کے حوالے سے سوال ہوا تو بتایا گیا کہ یہاں آپریشن کی ضرورت نہیں ہے۔ اس اعلان کے بعد یقیناً دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوئے ہوں گے، اب وہ مزید کارروائیاں کریں گے، ہم ٹھیک چند روز، چند ہفتے بعد کسی ایسے ہی سانحے پر ماتم کناں ہونگے، بیانات آئیں گے کہ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے، انہیں کسی قیمت پر نہیں چھوڑا جائے گا انہیں پوری قوت سے جواب دیں گے، قوم وقتی طور پر ایک مرتبہ پھر مطمئن ہو جائے گی مگر یہ واقعات نہیں رکیں گے، تاوقتکہ کے دہشت گردوں کے خلاف اس طرح کا آپریشن نہ کیا جائے جس میں ان کا نام و نشان مٹ جائے، پھر ان کا نام لینے والا کوئی نہ بچے، اندرا گاندھی نے معصوم اور بے قصور سکھوں کے خلاف آپریشن بلیو سٹار کیا تھا، کیا ہم سیکڑوں بے قصور پاکستانیوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں کے خلاف اس قسم کا آپریشن نہیں کر سکتے۔
دہشت گردی کا کیسز میٹھی گولیوں سے ٹھیک نہ ہو گا اس کا پہلا اور آخری علاج آپریشن ہے۔ ضروری نہیں کہ دھوم دھڑکے سے اعلان ہو، آپریشن نہایت خاموشی سے شروع کیا جا سکتا ہے دہشت گردوں کے صفائے کے بعد اس کا اعلان کریں پھر چاہئے جشن منائیں لیکن پہلے یہ اعلان کریں دہشت گردوں کی معاونت کرنی والے بھارت سے تجارت نہیں ہو سکتی، ایک طرف دوستی کی پینگیں ہیں جواب میں دہشت گردی مل رہی ہے، بنگلہ دیش سے چھترول بھی مبارک ہو دل جیتنا چھوڑیں میچ جیتنا شروع کریں۔ آپریشن آپریشن ہر طرف آپریشن کریں۔

جواب دیں

Back to top button