Column

طلبہ سیاست سے امیدیں

تحریر : روہیل اکبر
بنگلہ دیش میں طلبہ احتجاج کے بعد پاکستان میں بھی بہت سے سیاسی لوگ طلبہ کو جوش دلا رہے ہیں کہ وہ باہر نکلیں اور ملک میں تبدیلی کے لیے جدوجہد کریں، طلبہ کو وہ لوگ اکسا رہے ہیں جو خود سیاسی میدان میں ڈنڈے، سوٹے کھا کر اب احتجاج کی سیاست کو ترک کرکے طالبعلموں سے انقلاب کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ہماری طلبہ سیاست بھی سیاست دانوں کے گرد گھومتی رہی ہے اور اب بھی گھوم رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب طلبہ قیادت موجود ہوتی تھی اور ان میں جوش و ولولہ بھی ہوتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے حکمرانوں نے طلبہ سیاست میں تشدد کا رنگ بھر دیا۔ غنڈوں، رسہ گیروں اور بدمعاشوں کو طلبہ یونین کا صدر بنا دیا گیا، جو خود بھی لوٹ مار کرتے اور اپنے سیاسی رہنمائوں کے کام بھی کرتے۔ طلبہ سیاست میں بڑے بڑے نام سامنے آئے، جنہوں نے ایک عرصہ غنڈہ گردی کی وجہ سے حکمرانوں کے ساتھ ملکر حکمرانی کی، ان کے شر سے کوئی بھی محفوظ نہیں تھا۔ ہوٹلوں سے مفت کھانے اور جگا ٹیکس عام ہونے کی وجہ سے کوئی بھی کاروباری ان سے محفوظ نہیں تھا اور پھر ان طلبہ یونین کے بدمعاشوں کا جو حشر ہوا، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ یہاں تک نوبت اس لیے پہنچی کہ سیاستدانوں نے طلبہ یونین میں اپنے بندے صدر بنائے، جن کا تعلیم کے ساتھ کوئی تعلق
نہیں تھا اور نہ ہی طلبہ مسائل کے ساتھ، وہ جن کے ایجنڈے پر آتے تھے، انہی کے لیے کام کرتے تھے اور پھر جب ان بدمعاشوں نے ’’ ہماری بلی ہمیں ہی میائوں‘‘ والی پالیسی پر عمل شروع کیا تو انہیں پولیس مقابلوں میں مروا دیا گیا، جس کے بعد ایک لمبے عرصے تک طلبہ یونین میں خاموشی چھاگئی اور اس خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف سیاسی جماعتوں نے خانہ پوری کے لیے ان افراد کو طلبہ یونین کا صدر بنا دیا، جن کو تعلیم سے دور ہوئے کئی دہائیاں بیت چکی ہیں اور وہ لوگ ابھی تک طلبہ سیاست پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں ایسے افراد جان بوجھ کر طلبہ سیاست میں لائے گئے تاکہ طالبعلموں کی سیاست میں مکمل شمولیت ختم ہوسکے۔ ہمارے
آج کے بہت سے ایسے سیاسی رہنمائوں جو کئی کئی بار وزیر رہ چکے ہیں کا آغاز طلبہ سیاست سی ہوا تھا اور تو اور قیام پاکستان سے پہلے ایم ایس ایف نے پاکستان کی آزادی میں بھر پور حصہ لیا تھا، لیکن آج دو ایم ایس ایف بنی ہوئی ہیں اور ان کے صدر وہ ہیں جنہیں سکول، کالج اور یونیورسٹی چھوڑے ہوئے کئی سال گزر چکے ہیں، لیکن وہ لوگ آج بھی طلبہ یونین پر قابض ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں کوئی طلبہ یونین اپنا کوئی مقام نہیں رکھتی، بلکہ ان میں بھی قبضہ گروپ ہی قابض ہیں، مگر اب کچھ عرصہ سے پاکستانی کی وہ نوجوان نسل جو کالجز اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہے طلبہ یونینز پر سے پابندی اٹھانے کی باتیں کر رہی ہے۔ پاکستان کی 66%آبادی اس وقت 30سال سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے اور تقریباً صرف 5%آبادی کی عمر 65سال سے زیادہ ہے، جو اپنی زندگی کے دکھ اور سکھ دیکھ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ہر کام میں اللہ کی رضا سمجھ کر خاموشی سے ہر جبر، تکلیف اور دکھ برداشت کرتے آئے ہیں۔ کچھ نے ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی اور آگے سے بھر پور تسلی کے بعد وہ بھی توبہ تائب ہوکر کولہو کے بیل بن گئے، لیکن ہماری آج کی نوجوان نسل اپنے ساتھ ہونے والی ہر زیادتی کا ازالہ چاہتی ہے۔ ظلم اور زیادتی کو برداشت نہیں کرتی، کیونکہ انہیں جو شعور اب آچکا ہے وہ پہلے کبھی نہیں تھا، مگر وہ بھی اس حد تک نہیں پہنچ پایا کہ طلبہ اپنے حقوق کے لیے سامنے آسکیں۔ اس لیے سیاستدانوں کی ان سے امیدیں فی الحال تو پوری ہونے والی نہیں ہیں، کیونکہ اس وقت ہمارے ملک میں جو دھرا نظام تعلیم چل رہا ہے، اس پر آج تک طلبہ نے آواز نہیں اٹھائی، فیسوں میں اضافے پر طلبہ نے خاموشی نہیں توڑی اور تو اور پڑھنے کے بعد جب نوکری کی باری آتی ہے تو وہاں پر سفارشی لوگ آجاتے ہیں اس پر کسی طالبعلم نے آواز نہیں اٹھائی، تو اب مارپیٹ اور ڈنڈے کی سیاست کے سامنے کون سی طلبہ یونین ٹھہر سکے گی، کوئی بھی نہیں۔ اگر ہم اپنے تعلیمی نظام کا جائزہ لیں تو سرکاری تعلیمی نظام کو اس وقت تین بڑے مسائل درپیش ہیں۔ اول ملک کے اندر اساتذہ اور سکولوں کی کمی ہے، پاکستان میں تقریباً 33%بچے سکول نہیں جا رہے ہیں، اور یہاں تک کہ وہ بھی جو کلاس روم میں حقیقی استاد نہیں ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام 30سال سے زیادہ پرانا ہے زیادہ تر سرکاری سکولوں میں استعمال ہونے والی نصابی کتابیں 1980کی دہائی میں لکھی گئی تھیں اور دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی اور ہماری صورتحال یہ ہے کہ ہمارے پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی بانجھ ہیں، جو تخلیقی صلاحیتوں سے فارغ ہیں، ایسے لوگ صرف اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر یا تنخواہ میں اضافہ کے لیے پی ایچ ڈی کر لیتے ہیں۔ ہمارے پاس جتنے بھی پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں آپ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا اندازہ خود لگا سکتے ہیں کہ وہ ملک و قوم کے لیے کتنے فائدہ مند ہیں یا پھر عوام پر بوجھ ہیں۔ تیسرے نمبر پر ہمارے نجی اور سرکاری تعلیمی نظام میں واضح فرق ہے، ملک میں دس فیصد لوگ اپنے بچوں کو اردو کے بجائے انگریزی بولنے والے نجی سکولوں میں بھیجتے ہیں اور نجی تعلیمی نظام سے نکلنے والے زیادہ تر بچے اپنے اردو بولنے والے ہم منصبوں کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ ایک واضح تفریق پیدا ہوچکی ہے، جو نفرت کی دیواریں کھڑی کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر پا رہی، اس کے برعکس ہمارے تعلیمی نظام سے باہر آنے والے طلبا کے لیے پاکستان میں نوکریوں کا برا ہی حال ہے۔ 2008ء میں بے روزگاری کی شرح کا تخمینہ 24.67فیصد تھا، جس میں اب بہت حد تک اضافہ ہوچکا ہے، اس کے علاوہ تقریباً 85%پاکستانی روزانہ صرف 4ڈالر کماتے ہیں، جو کہ پاکستان میں کالج گریجویٹس کے لیے کوئی پرکشش امکان نہیں ہے اور اب رہی سہی کسر انٹرنیٹ کی سست سپیڈ نے پوری کردی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان سے بہت سی کمپنیاں بند ہوگئی ہیں۔ پاکستان کی سٹوڈنٹس فیڈریشنز کو سیاسی، مذہبی، نسلی، قوم پرست اور فرقہ وارانہ اختلافات میں بھی جھونکا گیا، جس کی وجہ سے وہ اپنے اصل مقاصد سے ہٹ کر ختم ہوگئیں، کیونکہ انہی لڑائیوں کی وجہ سے ہر سال کئی طلبا جسمانی تصادم میں مر بھی جاتے تھے۔ ملک میں اس وقت جو طلبہ تنظیمیں کام کر رہی ہیں ان کی تفصیل اگلی قسط میں لکھوں گا کہ کس طلبہ یونین کی بنیاد کب اور کس نے رکھی اور پھر ان کے مقاصد کیا تھے۔

جواب دیں

Back to top button