ColumnHabib Ullah Qamar

بھارتی مسلمانوں پر تشدد کے بڑھتے واقعات

تحریر : حبیب اللہ قمر
بھارت کی مختلف ریاستوں میں گزشتہ ہفتے کے دوران مسلمانوں پر تشدد کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں۔ حال ہی میں ہندوستانی ریاست اترپردیش میں دو مسلمانوں پر گائے کا گوشت خریدنے کا الزام لگا کر ہندو انتہاپسندوں کی جانب سے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہندو انتہا پسند تنظیم بجرنگ دل کے غنڈوں نے اشرف اور عامر نامی نوجوانوں کو باندھ کر تشدد کا نشانہ بنایا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے سے مسلمانوں میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ بھارتی ریاست مدھیہ پردیش اور بعض دوسرے علاقوں میں بھی ایسے واقعات کا پیش آنا معمول بن چکا ہے۔ بھارت میں پچھلے کچھ عرصہ سے مختلف علاقوں میں مسلم نوجوانوں ، بزرگوں اور خواتین پر تشدد کے مزید کئی واقعات سامنے آئے ہیں خاص طور پر جب سے شہریت کا متنازع قانون منظور ہوا ہے، اس وقت سے ہندو انتہاپسندوں کے حوصلے بڑھ گئے ہیں اور بھارتی مسلمان خود کو بہت زیادہ غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں۔
بھارت میں ہندو دہشت گردی کے بڑھتے واقعات اتفاقیہ نہیں ہیں بلکہ یہ سارا کھیل سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت کھیلا جارہا ہے۔ زیادہ تر واقعات اترپردیش، ہریانہ ، مدھیہ پردیش، جھاڑکھنڈ، راجھستان، بہار اور دوسری ریاستوں کے ان علاقوں میں پیش آرہے ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد کم ہے۔ جب سے انڈیا میں ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی کی حکومت آئی ہے مسلمانوں اور وہاں بسنے والے اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہے اور انہیں سازش کے تحت تعلیم، صحت اور دوسرے تمام شعبہ ہائے زندگی میں پیچھے دھکیلنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ مودی سرکار کے دور حکومت میں ہندو انتہاپسندی کے واقعات جنہیں ہجومی تشدد کا نام دیا جاتا ہے بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں اور ایسی مذموم حرکتوں میں ملوث درندوں کو باقاعدہ سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ہندو انتہا پسند ہتھیاروں سے لیس ہو کر نہتے مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور خود ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہیں تو ہندوستانی عدالتیں کیا کر رہی ہیں؟ نام نہاد قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں غائب ہو جاتے ہیں اور سب کچھ سامنے آنے کے باوجود بھی مجرموں کو گرفتار کر کے سزائیں کیوں نہیں دی جاتیں؟ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بھارتی پولیس، ایجنسیوں اور دوسرے اداروں میں ہندو انتہا پسندوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو فسادات پھیلانے والوں کی موقع پر سرپرستی کرتے نظر آتے ہیں اور اگر کبھی تشدد کا شکار مسلمانوں کو تھانوں میں لایا جائے تو وہاں تڑپنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے اور انہیں بروقت ہسپتالوں تک بھی نہیں پہنچایا جاتا۔ بھارت میں جن انتہاپسندوں کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور وہ سینکڑوں مسلمانوں کا قتل کر چکے ہیں انہیں ہندو انتہا پسند تنظیمیں اپنے جلسوں میں بلاتی ہیں اور سٹیج پر بلا کر گل پاشی کی جاتی ہے۔ جب قبیح جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود ان کی یوں حوصلہ افزائی ہو گی اور سزائیں دینے کی بجائے انہیں ہیرو سمجھا جائے گا تو لازمی بات ہے دوسرے انتہا پسند بھی پھر یہی کام کریں گے۔
بھارت کی مختلف ریاستوں میں ان دنوں مسلمانوں کے قتل اور انہیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی باقاعدہ مہم جاری ہے۔ خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں ہندو انتہا پسند لیڈروں کا زیادہ اثر و رسوخ ہے وہاں بی جے پی کی شہ پر آر ایس ایس، بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد ، شیو سینا اور ہندو واہنی جیسی تنظیموں کے اہلکار کھلے عام مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ کہیں گائے ذبیحہ کے نام پر مسلمانوں کا قتل کر کے فسادات کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی جاتی ہے تو کہیں مسلم نوجوانوں کو پاکستانی قرار دیکر ان کی ڈاڑھیاں مونڈھ دی جاتی ہیں۔ اسی طرح گائے ذبیحہ کے نام پر مسلمانوں کا قتل بھی آئے دن کا معمول بن چکا ہے۔ انتہا پسند بھارتی وزیر اعظم نے اگرچہ دنیا کو دکھانے کیلئے ایک مرتبہ یہ بیان دیاتھا کہ گائے بچانے کے نام پر انسان کا قتل افسوسناک ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ گائے ذبیحہ یا گوشت رکھنے کے الزام میں پیش آنے والے ستانوے فیصد واقعات بی جے پی کے اسی دور حکومت میں پیش آئے ہیں۔ ہندوستانی سپریم کورٹ بھی کہہ چکی ہے کہ ہجومی تشدد کے نتیجہ میں گائے ذبیحہ کے نام پر قتل عام روکا جائے مگر بھارتی معاشرے میں جس طرح معصوم بچیوں کی بے حرمتی کے واقعات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی اسی طرح مذہب کے نام پر مسلمانوں پر بہیمانہ تشدد اور انھیں قتل کرنے کے واقعات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ صرف رواں برس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں پر تشدد کے واقعات میں درجنوں مسلمان شہید اور دو سو کے قریب شدید زخمی کئے گئے ہیں۔ اکثر واقعات ایسے ہیں کہ جن کی کوئی بنیاد نہیں تھی، محض سوشل میڈیا پر منصوبہ بندی کے تحت کوئی افواہ اڑائی گئی اور پھر مسلمانوں کو نشانہ بنا کر فسادات کی آگ بھڑکا دی گئی۔ بی جے پی سرکار کے مرکزی لیڈر، لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے ممبران مسلمانوں اور دلتوں کیخلاف تشدد کو اپنی سیاست پروان چڑھانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں اور ایسی وارداتوں میں ملوث لوگوں کو خاص طور پر تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔ بھارت کی وہ تمام ہندو انتہا پسند تنظیمیں جو آئے دن تشدد، قتل و غارت گری اور فسادات برپا کر کے نہتے مسلمانوں کا خون بہاتی اور ان کی املاک کو برباد کرتی آئی ہیں ان کا اب تک یہی نعرہ رہا ہے کہ ’’ ہندوستان کے ہندو خطرے میں ہیں‘‘ اس لئے ہندو دھرم اور اس کے ماننے والوں پر حملوں کے مقابلہ کیلئے اس خطہ میں بسنے والے سب ہندو ایک ہوجائیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جب سے نریندر مودی کی حکومت آئی ہے یہ سب ہندو انتہا پسند ہندوئوں کے تحفظ کا نعرہ ختم کرکے اب بھارت کو ایک’’ ہندو سٹیٹ‘‘ میں تبدیل کرنے کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ کبھی بہاری مسلمانوں کو بنگلہ دیشی درانداز کہہ کر ان کی عزتوں اور جان و مال پر حملے کئے جاتے ہیں اور انہیں بنگلہ دیش نہ جانے کی صورت میں قتل عام کی دھمکیاں دی جاتی ہیں تو کبھی ہندوستان میں بسنے والے دیگر مسلمانوں کو ان کا مذہب اختیار نہ کرنے اور اپنے آپ کو مکمل ہندو مذہب کے مطابق نہ ڈھالنے کی صورت میں زبردستی پاکستان دھکیلنے کیلئے دھمکایا جاتا ہے۔ آر ایس ایس، شیو سینا، بی جے پی اور وشوا ہندو پریشد جیسی تنظیموں کے اہلکار جہاں چاہتے ہیں بھگوا جھنڈا لگاتے ہیں اور ایک چھوٹی سی مورتی رکھ کر پوجا پاٹ کا آغاز کر دیتے ہیں۔ کسی کی جرات نہیں ہے کہ کوئی انہیں یہاں سے ہٹا سکے بلکہ پولیس بھی مکمل طور پر ان کی سرپرستی کرتی ہے اور ان کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف انتقامی کارروائی کرتے ہوئے جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔
بھارت میں آبادی کے تناسب کے لحاظ سے مسلمان تمام بھارتی جیلوں میں ہندوئوں سے کہیں زیادہ تعداد میں جرم بے گناہی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ بھارتی مسلمانوں بہت زیادہ جرائم میں ملوث ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بغیر کسی وجہ کے ہندو انتہا پسندوں کے دبا پر مسلمانوں پر مقدمات بنا دئیے جاتے ہیں۔ خاص طور پر پڑھے لکھے نوجوان جو آنے والے کل میں مسلمانوں کے لئے کچھ کر سکتے ہیں انہیں خصوصی طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مسلم نوجوانوں کو روزگار میسر ہے اور نہ ہی سرکاری دفاتر میں نوکریاں ملتی ہیں۔ بھارتی تفتیشی ایجنسیاں اور اے ٹی ایس مسلم نوجوانوں کیلئے قاتل ثابت ہوئے ہیں۔ اگرچہ بھارتی عدالتوں میں مسلم نوجوانوں کے خلاف کسی قسم کے کوئی ثبوت نہ ہونے پر ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانا پڑتی ہے لیکن جب تک یہ مرحلہ آتا ہے نوجوانوں کے کچھ کر گزرنے کے دن ہی بیت چکے ہوتے ہیں۔ کئی کئی برسوں تک نوجوانوں کے والدین، ان کی بیویاں اور اہل خانہ ان کی آمد کا انتظار کرتے رہتے ہیں مگر حکومتی اور سیاسی سطح پر ان کی رہائی کیلئے کسی قسم کی کوئی کوششیں نظر نہیں آتیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان بھارت میں نہتے مسلمانوں پر ظلم و دہشت گردی کا معاملہ بھی بین الاقوامی سطح پر اٹھائے اور مسلمان ملکوں اور عالمی اداروں کے ذریعے بھارت پر دبائو بڑھایا جائے کہ وہ سرکاری سرپرستی میں بے گناہ مسلمانوں پر وحشیانہ تشدد ، قتل و غارت گری اور ان کی املاک برباد کرنے جیسے واقعات پر قابو پائے۔ بھارتی مسلمانوں کی زندگیاں اور ان کے جان و مال کے تحفظ کے لیے آواز بلند کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔

جواب دیں

Back to top button