ColumnImtiaz Aasi

ناتواں جمہوریت، عمران کی مزاحمت کی سیاست سے کنارہ کشی

امتیاز عاصی
جمہوری ملکوں میں سیاسی جماعتوں کے جلسے اور جلوس جمہوریت کی روح ہوتے ہیں۔ جن ملکوں میں جمہوریت ہو سیاسی جماعتوں کو جلسے اور جلوس کا انعقاد نہ کرنے دیا جائے ایسے ملکوں کو جمہوری ملک کہنا جمہوریت کی نفی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے جلسوں سے امن عامہ کا مسئلہ پیدا نہ ہو جلسوں کی اجازت دینے میں کیا حرج ہے۔ البتہ حکومت کسی سیاسی جماعت کی مقبولیت اور جلسوں میں عوام کی بڑی تعداد کی شرکت سے خائف ہو کر جلسہ کی اجازت نہ دے تو اسے جمہوریت کا قتل قرار دیا جا سکتا ہے۔ سیاسی تاریخ ان واقعات سے بھری ہے سیاسی جماعت کو جلسہ کرنے کی اجازت نہ دی گئی تو اقتدار میں آنے کے بعد سیاسی انتقام لیتے ہوئے ان شہروں میں تعنیات افسران کو ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ڈپٹی کمشنر سکھر نے جلسہ کی اجازت نہیں دی تو اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو نے جن اعلیٰ افسران کو ملازمت سے نکالا ان میں ڈپٹی کمشنر سکھر بھی شامل تھا۔ یہ علیحدہ بات ہے بھٹو حکومت کی برطرفی کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اس دور میں ملازمت سے نکالے گئے قریبا تمام اعلیٰ افسران کو ملازمت پر بحال کر دیا تھا۔ پی ٹی آئی کے بانی سمیت کئی رہنما اور ورکرز سانحہ نو مئی کے الزام میں جیلوں میں ہیں جن میں خواتین ورکرز بھی شامل
ہیں۔ سانحہ نو مئی کو گزرے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے ان مرد و خواتین کے خلاف مقدمات کی سماعت نہیں ہو سکی ہے۔ قانون کی نظر میں جب تک کسی کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہوتا وہ بے گناہ تصور ہوتا ہے اسی لئے جیلوں میں حوالاتیوں اور قیدیوں کو الگ الگ رکھنے کے ساتھ جیل مینوئل میں ان کے لئے قوانین مختلف ہیں۔ ماسوائے پی ٹی آئی کے تمام سیاسی جماعتوں کو ملک کے کسی شہر میں جلسہ کی آزادی ہے ۔ جماعت اسلامی نے عوامی مسائل کے لئے دھرنے اور جلسوں کا انعقاد کیا جس میں کسی قسم کا امن عامہ کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا جماعت اسلامی کے ارکان نے پرامن طریقہ سے دھرنوں اور جلسوں میں شرکت کی۔ حکومت کو امن عامہ کا کوئی مسئلہ درپیش ہے وہ پی ٹی آئی سے ہے۔ یہ بات لاہور ہائی کورٹ کے ایک معزز جج نے بھی محسوس کی جماعت اسلامی کو جلسوں کی آزادی ہے پی ٹی آئی کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ یہ امر خوش آئند ہے وفاقی دارالحکومت میں کسی سیاسی جماعت کو جلسہ اور دھرنا دینے کی اجازت نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کئی ماہ سے اسلام آباد میں جلسہ کا انعقاد کرنے کی تیاریوں میں تھی عین آخری موقع پر جلسہ کا اجازت نامہ منسوخ کرنا پڑا۔ عجیب تماشا ہے عوام کے ساتھ کیوں کھلواڑ کیا جا رہا ہے ۔ اخبارات میں آیا ہے پنجاب کے مختلف شہروں میں پی ٹی آئی کے سرگرم کارکنوں کی فہرستیں تیار کرکے پولیس کے حوالے کی گئیں ہیں تاکہ پی ٹی آئی کے جلسہ کو کسی طریقہ سے ناکام بنایا جا سکے۔ ایک طرف پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنمائوں اور کارکنوں کو جیلوں میں رکھا گیا ہے دوسری طرف لوگوں کو پی ٹی آئی کے جلسہ میں شرکت سے روکنے کے اقدامات کئے گئے۔ کیا اسی کا نام جمہوریت ہے ۔جس میں ایک سیاسی جماعت کو جلسوں سے روکا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے کسی رہنما پر بھارت سے روابط کا الزام لگایا جا رہاہے اور کسی کو ملک سے غداری کا تمغہ دیا جا رہا ہے۔ سوال ہے پی ٹی آئی کا بانی غدار تھا اسے اقتدار کس نے سونپا تھا یا وہ ازخود وزارت عظمیٰ پر براجمان ہو گیا تھا۔ عجیب تماشا ہے جسے چاہا ملک سے وفاداری کا سرٹیفکیٹ دے دیا جس پر چاہا غداری کا ٹھپہ لگا دیا۔ سیاسی جماعتوں اور اقتدار میں بیٹھے سیاست دانوں سے درخواست ہے ملک کو چلنے دیں اقتدار کی خاطر دوسرے سیاست دانوں کی کردار کشی چھوڑ دیں ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے عوام روایتی سیاست دانوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ اقتدار میں رہ کر ملک و قوم کے ساتھ جو کچھ سیاست دانوں نے کیا عمران خان نے ان کے کارناموں کو عوام ذہنوں میں ڈال دیا ہے اسی لئے غریب عوام کرپشن میں ملوث سیاسی رہنمائوں سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ گو پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز اپنی جماعت کی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے ہاتھ پائوں مار رہی ہے کرپشن کی جو داستانیں عوام کے دلوں میں نقش ہو چکی ہیں انہیں کون صاف کرے گا؟ آج سیاسی جماعتیں سیاست میں اداروں کی مداخلت کا رونا رو رہی ہیں وہ سب کیا دھرا ان کا اپنا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کو مارشل لاء لگانے کے لئے خطوط سیاسی رہنمائوں نے لکھے تھے۔ جمہوریت پر شب خون کی دعوت سیاست دان دیتے ہیں نہ کوئی دوسری مخلوق دیتی ہے۔ دراصل ہمارے سیاست دانوں کی
اکثریت اداروں کی پیداوار ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو ، نواز شریف اور عمران خان کو کون سیاست میں لایا تھا؟، وقت بدلتے دیر نہیں لگتی اداروں کی پیدا وار کو اقتدار سے ہٹایا جائے انہیں جمہوریت یاد آجاتی ہے۔ کوئی سمجھے نہ سمجھے اس حقیقت میں دو آراء نہیں نواز شریف کو جہاں اداروں سے محاذ آرائی کا وصف آتا ہے وہاں اداروں کو رام کرنے کا فن بھی آتا ہے۔ آج وہی نواز شریف جسے اقتدار سے نکالا کیا گیا حکمرانی کا تاج شریف خاندان کے سر پر ہے۔ سیاست دان جب تک جمہوریت کے لئے یکجا نہیں ہوں گے جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکتی ۔ ترنول کا جلسہ ملتوی کرنے پر پی ٹی آئی رہنما بداعتمادی کا شکار ہو گئے۔ متحدہ اپوزیشن کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو اپنی جگہ شکوہ ہے ان سے مشاورت کئے بغیر جلسہ ملتوی کر دیا گیا۔ اچکزئی کا شکوہ اس لئے نہیں بنتا جلسہ متحدہ اپوزیشن کا تو نہیں تھا البتہ پی ٹی آئی رہنمائوں کا شکوہ بجا ہے انہیں اعتماد میں لئے بغیر جلسہ ملتوی کیا گیا۔ درحقیقت عمران خان مزاحمت کی سیاست سے کنارہ کش ہونا چاہتے ہیں انہوں نے دیکھ لیا مزاحمت کی سیاست کا نتیجہ حوصلہ افزاء نہیں ہوتا۔ بہرکیف جمہوریت کو فروغ دنیا مقصود ہے تو تمام سیاسی جماعتوں کو اقتدار کے لالچ سے بالاتر ہو کر جمہوریت کو مضبوط کرنے کی جدوجہد کرنی ہوگی۔

جواب دیں

Back to top button