ColumnTajamul Hussain Hashmi

لفظ ’’توفیق‘‘

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
لفظ ’’توفیق‘‘ کے استعمال پر اختلاف موجود ہے لیکن اختلاف کو کبھی بھی بحث میں تبدیل نہیں ہونے دینا چاہئے۔ خاص کر اسلامی احکامات میں انتہائی احتیاط رکھنی چاہئے۔ اسلامی تعلیمات کے حوالہ سے عام طور پر لوگوں کو دینی مسائل کی کم سمجھ ہے۔ دنیاوی تعلیم کا حال بھی سب کے سامنے ہے۔ ان 77سال میں آج تک سرکاری سکول بحال نہ ہوسکے۔ تعلیمی میدان میں تعلیم تقسیم ہو چکی ہے۔ طاقتور قابض ہوچکے ہیں۔ طاقتور خاندانوں نے ہر اس شعبہ کو اپنی گرفت میں جکڑا ہوا ہے جس میں مال زیادہ ہے۔ انسان کی بہتری کیلئے حکومت کو کوشاں ہونا چاہئے لیکن حکومت ان محرکات کی سپورٹر ہے جو استحصال کا باعث ہیں۔ اسلامی طور پر بھی کمزور ہوچکے ہیں۔ سچ کہنے کی حوصلہ افزائی کرنے سے عام فرد خوفزدہ ہے۔ دوسری طرف لوگ اللہ کے احکامات کو توفیق پر ڈال کر خود کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں۔ ’’توفیق‘‘ کے استعمال کو مثال سے سمجھ لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں جب بھی کسی کو نماز کی دعوت دیں تو آگے سے یہ جواب ملتا ہے کہ اللہ پاک توفیق دیں گے تو نماز بھی ادا ہو جائیگی۔ اس بات کا کسی کے پاس جواب نہیں ہوگا، ایسی سوچ کے حامل افراد کو کیسے سمجھایا جائے کہ توفیق کا مطلب یہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ جب آپ عقل کی بات کریں گے تو بات بحث تک چلی جائیگی اور آخر میں آپ کو یہ بات سننے کو ملے گی کہ بڑا حاجی نمازی بنا ہوا ہے۔ چند دن نماز کیا پڑھ لی ہماری جان کو آ گیا ہے۔ لفظ ’’توفیق‘‘ کو سمجھنے کیلئے میں نے مفتی صاحب سے رابطہ کیا اور اس کو سمجھا ۔ مولانا حضرات نے لفظ ’’توفیق‘‘ کی تشریح اس طرح سے سمجھائی ہے۔ توفیق کا مطلب اسباب ہے۔ اللہ پاک سے اسباب کی دعا ہے۔ جیسے کوئی آپ کو کہے کہ آپ حج کرلو تو یقینا آپ آگے سے یہی کہو گے کہ اللہ پاک توفیق دے گا تو ضرور کریں گے۔ یہ توفیق کا مطلب اسباب ہیں جن کیلئے انسان اللہ سے مانگتا ہے۔ ہمارے ہاں نماز کیلئے اسباب ہونے کے بعد بھی اللہ سے توفیق مانگ رہے ہوتے ہیں۔ اس سوچ کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اور مثال سے سمجھ لیتے ہیں۔ نیکی کرنے کا اجر ہے۔ اس نیکی کے سارے اسباب آپ کے پاس موجود ہوں اور آپ نیک عمل نہ کریں اور پھر یہ کہیں کہ اللہ توفیق دے گا تو کر لیں گے۔ اس سوچ کو آپ کیسا سمجھیں گے؟ مفتی اور مولانا حضرات نے اسکو واضح کیا ہے اسباب اور احکامات اللہ ہونے کے بعد بھی نیکی کی توفیق مانگنا اپنے آپ کو نیک عمل سے دور کرنے کے مترادف ہے۔ دوسرا اہم نکتہ جو ہمارے حکمران جن کی قابل سمجھ بہت کمزور ہے کیوں کہ ان کی نظر میں طاقت ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ لیکن یہ بھی واضح ہے کہ جو توفیق اللہ نے ان کو مہیا کی ہے اس کا حساب ان سے لیا جائیگا۔ ان کے پاس 25کروڑ انسانوں کی ذمہ داری ہے۔ ان کے پاس تمام اسباب بھی ہیں۔ لیکن اس کے بعد بھی لوگ روٹی سے مریں تو پھر ذمہ دار یہی لوگ ہیں۔ جو قوم اپنی چند سو روپے پر ٹیکسز دے اور طاقتور، توفیق رکھنے والے ان کے مال پر اپنے ارمانوں کو پورا کریں گے۔ احتساب کا نعرہ صرف بناوٹی ہو تو پھر خدائی نظام حرکت میں ضرور آئے گا۔ قرآن پاک آپ کو عمل کی ہدایت دیتا ہے لیکن چوروں کے ساتھ ملاپ آپ کا اپنا فعل ہے۔ اسلام نے اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے والوں کو سچ اور افضل کہا ہے۔ اپنے مفادات کے چکر میں دوسروں کو بلی کا بکرا مت بنائیں۔ ان 77سال میں صرف قوم کو بکرا بنایا گیا ہے۔ قوم کو مجبور ثابت کیا جاتا رہا ہے لیکن حقیقت میں پس پردہ پیچیدگیاں کچھ اور ہیں۔ حکمرانوں کے پاس تمام وسائل اسباب موجود ہیں۔ آگے آئیں قوم کو سہولتیں دیں تاکہ حق ادا ہوسکے۔ اللہ پاک میرا اور آپ کا حامی و ناصر ہو ۔ اپنے محبوب حضرت محمدؐ کے روزے مبارک کا دیدار نصیب فرمائی، آمین۔

جواب دیں

Back to top button