فوجی سربراہ کی تقرری اور لابنگ

علی حسن
حال ہی میں پاکستان کی اہم ترین خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ( ریٹائرڈ) کو حراست میں لئے جانے کے بعد ملک کے سینئر صحافیوں نے یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ فیض حمید کو فوج کا سربراہ بنوانا چاہتے تھے۔ وہ مختلف طریقوں سے لابنگ بھی کر رہے تھے۔ فوج کے سربراہ کی تقرری موجودہ طریقہ کار کے تحت حکومت کے سربراہ یعنی وزیر اعظم کرتے ہیں۔ فوج کے سربراہ کی تقرری کے وقت تک عمران خان کی حکومت ایک تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں ختم ہو چکی تھی۔ نئے وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے جنرل عاصم منیر کو نامزد کر دیا تھا۔ فون میں ابتداء سے ہی فوج کے سربراہ کی تقرری ہو یا پسند کے اعلیٰ افسر کی تقرری ہو، لابنگ کی جاتی ہے۔ ذیل میں مضمون میں ایک جائزہ لیا گیا ہے کہ پاکستان میں سربراہوں کی تقرری کے موقع پر کیا کچھ کہا گیا۔ وزیر اعظم کو مستقبل کے سربراہ کے ناموں کی فہرست روانہ کی جاتی ہے۔ یہ فہرست کئی ناموں پر بھی مشتمل ہوتی ہے، جیسا جنرل ضیاء الحق کی تقرری کے وقت ہوا تھا۔ اس فہرست میں جنرل عبدالمجید ملک کے علاوہ دیگر بھی کئی نام تھے۔ جنرل مجید ملک کہتے ہیں کہ ’’ جنرل ضیاء الحق نے آٹھ نو افراد کو سپر سیڈ کیا تھا۔ میرے اوپر سات افراد تھے۔ میں جنرل ضیا ء سے اوپر تھا۔ سپر سیڈ ہونے والوں میں دیگر افراد میں جنرل اکبر تھے جو سفیر مقرر کئے گئے، جنرل عظمت تھے، جنرل آفتاب تھے۔ جنرل اکرام تھے اور دیگر تھے۔ ایوب خان کے تقرری کے وقت سے ایسا ہونا شروع ہو گیا تھا۔ ایوب خان پہلے پاکستانی سربراہ تھے۔ ان سے قبل انگریز سربراہ جنرل میسروی مقرر تھے۔ جنرل میسروی کو قائد اعظمؒ نے کمانڈر انچیف مقرر کیا تھا کہ وہ پاکستان آرمی کی تنظیم کر سکیں۔ اس لئے وہ چھ ماہ کے لئے کمانڈر انچیف ہو کر آئے تھے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل گریسی کی تقرری ہوئی تھی‘‘۔
میجر جنرل اکبر خان ( راولپنڈی سازش کیس والے) کہتے ہیں ’’ ایوب خان دوستی میں تو برے آدمی نہیں تھے لیکن یہ ضرور تھا کہ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں ایوب خان کو سی این سی کبھی نہ بناتا۔ وہ لوگ ( حکومت) شاید مجھے ہی سی این سی بنا دیتے اگر میں تھوڑی دیر اور ٹھہرتا‘‘۔ یہ بات مجھ سے سکندر مرزا نے میری گرفتاری کے بعد جیل سے ضمانت پر رہا ہونے پر بتائی۔ میں رہائی کے بعد سکندر مرزا سے ملا تھا۔ سکندر مرزا نے مجھ سے کہا تھا کہ حکومت کے خلاف سازش میں تم نے حبیب اللہ خان کو اعتماد میں کیوں لیا تھا۔ تمہیں معلوم نہیں کہ حبیب اللہ خان کا تعلق قلی خان فیملی سے ہے، جن پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ ایوب خان کو جب سی این سی بنایا گیا تو انہوں نے کئی اعلیٰ افسران کو سپر سیڈ کیا تھا۔ جنرل اکبر جو کراچی میں لال کوٹھی پر رہتے تھے وہ ایوب خان سے سینئر جنرل تھے۔ جنرل رضا جواب انتقال کر گئے تھے ایوب خان نے ان دونوں کو سپر سیڈ کیا تھا۔ جنرل رضا وہ ہیں جو وزارت خارجہ سے متعلق رہے اور بھٹو کے دور میں چین میں پاکستان کے سفیر بھی رہے تھے۔ جنرل رضا کو اس لئے سپر سیڈ کیا گیا کیا کہ انہیں incompetent سمجھا جاتا تھا۔ ایوب خان ان جنرلوں سے زیادہ competent تھے۔ وہ حکومت کی نظر میں ان جنرلوں سے زیادہ لائق تھے۔ میرا خیال اس کے بر عکس ہے کہ ایسا نہیں تھا۔ ایوب خان کی جنگ عظیم دوئم میں پیشہ ورانہ کار کردگی اچھی نہ تھی۔ بلکہ انہوں نے تو محاذ پر لڑنے سے گریز کیا تھا۔ اس وجہ سے لوگ بھی انہیں پسند نہیں کرتے تھے۔ ایوب خان کو لیاقت علی خان اور جنرل گریسی نے ترقی دی تھی۔ جنرل گریسی بہت اچھے سپاہی تھے۔ جنرل گریسی جنرل میسروی کے چیف آف سٹاف تھے۔ جب میسروی چلے گئے تو گریسی نے کمانڈر انچیف کا عہد سنبھال لیا۔
گریسی کو لیاقت علی خان نے کمانڈر انچیف مقرر کیا۔ جنرل گریسی 1951ء میں ریٹائر ہوئے۔ میری گرفتاری سے چند روز قبل ایوب خان کی نامزدگی اچانک ہوئی تھی۔ میں ان سے پہلے دسمبر میں چیف آف دی جنرل سٹاف بنا دیا گیا تھا۔ ایوب خان بھی میری طرح میجر جنرل تھے، وہ مجھ سے سروس میں تھوڑے سینئر تھے، تقریباً پانچ سال سینئر۔ میں نے اس تقرری کے خلاف آواز بلند نہیں کی تھی۔ البتہ باقی جو فوجی تھے انہوں نے ایوب خان کو پسند نہیں کیا۔ میں رہائی کے بعد سکندر مرزا سے ملا تھا۔ یہ 1965ء کی بات ہے۔
اس کالم کی تیاری میں میری کتاب ’’ پاکستان ، جرنیل اور سیاست ‘‘ کے لئے کئے گئے انٹرویوز سے مدد لی گئی ہے۔