Column

روٹی کپڑا اور مکان

صفدر علی حیدری

روٹی کپڑا اور مکان ملک کا مقبول عام نعرہ تو ہے ہی ، گمراہ کن بھی ہے ۔ جس پارٹی کا یہ منشور ہے اس کا کرپشن میں پہلا دوسرا نمبر ہے ۔ آج بھی اس کے پاس یہی نعرہ ہے یا ’’ آج بھی بھٹو زندہ ہے، اور وزیر اعظم بے نظیر‘‘ ۔۔۔
کس قدر دکھ کا مقام ہے کہ اس نعرے سے آج بھی سادہ لوح عوام کو گمراہ کیا جا سکتا اور کیا جا رہا ہے۔
ایک فلاحی ریاست عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتی ہے۔ ملک میں امن عامہ کی بحالی اور عوام کے جان و مال کا تحفظ بھی اس کی ذمہ داری ہے ۔ اس کا بنیادی کام ملک و عدل و انصاف کا قیام اور ایک ایسے پر امن معاشرے کے قیام کو یقینی بنانا ہے کہ عوام اپنے زور بازو سے اپنے پیٹ کے لیے روٹی، تن ڈھانپنے کو کپڑا اور سر چھپانے کو مکان حاصل کر سکے ۔
حکومتی وزرا ، وزارت خزانہ اور حکومتی ترجمان روزانہ مختلف ٹیلی ویژن پروگراموں میں بڑے فخریہ انداز سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اُنہوں تے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے ، ملکی معیشت کو سہارا دیا ہے ، اُن کے معاشی ماہرین دن رات کام کر رہے ہیں ، پاکستان نے آئی ایم ایف سے آزادی حاصل کر لی ہے، کشکول نہیں اٹھائیں گے ۔ عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کریں گے ، عوام کے لیے ترقی کے دروازے کھول دئیے ہیں ۔
دوسری طرف اپوزیشن جماعت کے اراکین فرما رہے ہوتے ہیں کہ اُن سے حکومت نہ لی جاتی تو آج باہر کے ممالک سے لوگ نوکریاں کرنے پاکستان آ رہے ہوتے ، اگر حکومت تبدیل نہ ہوتی تو آج ریاست مدینہ تعمیر ہو چکی ہوتی ۔
خدا کے لیے اب بس کر دیں بس، سب نے مل کر میرے ملک کو برباد کر دیا ہے۔ کر دو بس، سب نے مل کر ملک کو برباد کر دیا ہے۔ سب نے اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ سو ملک کی بربادی کا کریڈٹ کسی فرد واحد یا کسی اکلوتی جماعت کو نہیں دیا جا سکتا۔
انرجی ٹیرف اور مارک اپ میں اضافے کے باعث پیداواری لاگت بڑھنے سے فیصل آباد کی اولین ٹیکسٹائل ملز میں شامل ستارہ ٹیکسٹائل ملز سمیت سو سے زائد چھوٹی بڑی فیکٹریاں بند ہو گئی ہیں ۔ برآمدات بڑھانے کیلئے عالمی حالات نہایت سازگار مگر یہاں اگلے ماہ تک باقی ملز بھی بند ہو جائیں گی ۔
حکومت ریفنڈز ادا ،بجلی، گیس سستی، مارک اپ ریٹ سنگل ڈیٹ پر لائے سب ٹھیک ہو جائے گا ، علاوہ ازیں جن ٹیکسٹائل ملز میں پیداواری عمل جاری ہے وہاں بھی پیداوار کو 40فیصد تک محدود کر دیا گیا ہے۔ ستارہ ٹیکسٹائل کا ایک یونٹ کچھ عرصہ قبل بند ہو چکا ہے جبکہ گزشتہ روز بند ہونے والے یونٹ سے مزید 900ملازمین بے روزگار ہو گئے ہیں ۔ ٹیکسٹائل یونٹس کی بندش سے مجموعی طور پر شہر میں ڈیڑھ سے دو لاکھ مزدور بے روزگار ہوئے ہیں ۔ حکومت بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی کرکے مارک اپ ریٹ کو سنگل ڈیجٹ پر نہ لائی تو جو انڈسٹری چل رہی ہے وہ بھی بند ہو جائے گی ۔ اس وقت زیادہ تر فیکٹریوں کو ایکسپورٹ آرڈرز ملنا بند ہو چکے ہیں اور وہ پہلے سے بک کئے گئے آرڈرز کی تیاری تک محدود ہیں ، جس کے بعد اگلے ماہ تک مزید انڈسٹری بند ہو جائے گی ۔
برآمدات بڑھانے کے لئے اس وقت عالمی سطح پر حالات نہایت سازگار ہیں ۔ کیونکہ بہت سے امریکی اور یورپی برانڈز چین چھوڑ کر جا رہے ہیں جبکہ بنگلہ دیشن کے حالات کی وجہ سے بھی پاکستان کو برآمدی آرڈرز میں اضافے کی توقع ہے ۔
ان حالات سے فائدہ اٹھانے کے لئے حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر انرجی ٹیرف کم کرے اور مارک اپ ریٹ کو بھی کم از کم 14فیصد کیا جائے ۔
کیا ہماری حکومت کو یہ احساس ہے کہ اِس وقت ’’ ایشین ٹائیگر ‘‘ پاکستان کی انڈسٹری کس حال میں ہے ؟ پاکستان کے مانچسٹر فیصل آباد کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو تالے لگ گئے ہیں، لاکھوں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں ، ان کے بچے فاقوں کا شکار ہیں، تقریباً 150ٹیکسٹائل ملیں بشمول نشاط ملز جبکہ ٹیوٹا ،انڈس موٹرز ، سوزوکی ، کیا موٹرز ، پاکستان آٹو پارٹس مارکیٹ ، فوجی فرٹیلائزر اور سیکڑوں کی تعداد میں چھوٹی صنعتیں بند ہو گئی ہیں ۔ وہ آپ کی بہترین معاشی پالیسیوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں اور ہار گئی ہیں ۔
حکومت اِن ہزاروں فیکٹریوں کی بندش کا جواب دے گی ؟ اگر یونہی فیکٹریاں بند ہوتی رہی تو فیصل آباد، سیالکوٹ، لاہور، کراچی اور پاکستان کے تمام شہروں کے مزدور کہاں جائیں گے ؟ اپنے بچوں کو کیا کھلائیں گے، مکان کا کرایہ ، بجلی کے بل ، دکاندار کے پیسے کہاں سے دیں گے ؟
حکومت نے یہ جاننے کی کوشش تو ضرور کی ہو گی کہ فیکٹریاں کیوں بند ہو رہی ہیں؟ پاکستانی روپے کی گرتی ہوئی قدر ، ڈالر بحران ، مہنگی بجلی ، گیس کی لوڈ شیڈنگ ، ٹیکس میں اضافہ ہی وہ وجوہات ہیں جو فیصل آبادی عوام کی خوشیوں کو کھا گئیں ہیں۔ معاشی صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے بلائی گئی کانفرنس میں  فیصل آباد کی دم توڑتی انڈسٹری کے لئے بھی کوئی حل نکلا ؟
ہمارے معاشی ماہرین کی ٹیم اِس  عدم استحکام کے لیے کوئی فیصلہ کن حل نہیں نکال پا رہی تو کیوں نہ چین کے معاشی امور کے ماہرین کی کوئی کانفرنس بلائی جائے یا پھر ہمارے معاشی ماہرین کی ٹیم کو ٹریننگ کے لئے چین بھیج دیا جائے ، اُس  کے ساتھ ٹیکسٹائل انڈسٹری  کے ٹیکس کو ختم کردیا جائے ۔ انڈسٹریل یونٹ کی قیمت میں رعایت دے دی جائے اور اُنہیں آسان قسطوں پر سولر انرجی پر منتقل کرنے کا کام شروع کر دیا جائے ۔ قطر سے آنے والی ایل این جی میں سے ایک لائن فیصل آباد کو دے کر اُنہیں گیس لوڈ شیڈنگ سے آزاد کر دیا جائے تو ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بحالی ممکن ہوسکتی ہے ، اُس کے ساتھ ساتھ لازم ہو چکا ہے کہ پاکستان کی برآمدات کو فل الفور بڑھایا جائے تاکہ ڈالر کی آمد اور روانگی کا سلسلہ برابر ہو سکے ۔ چین ، روس، قطر اور یو اے ای سے اپنی انڈسٹری کا کچھ حصہ پاکستان منتقل کرنے پر دوبارہ سے بات کی جائے ، اگر یہ ممکن ہو جائے تو ملائیشیا کی طرح ہماری معیشت بھی مضبوط ہونا شروع ہو جائے گی۔
فیصل آبادی معاشی بدحالی کی وجہ سے جگتیں کرنا اور ہنسنا بھول گئے ہیں لیکن آپ کی توجہ اُن کی مسکراہٹ  واپس لا سکتی ہے ۔ براہ کرم توجہ دیں تا کہ فیصل آباد کی خوشیاں اور رونقیں بحال ہو سکیں ۔
اس وقت پورا ملک معاشی بحران کی زد میں ہے۔ حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ اس جانب توجہ دے ۔ اپنے تجربے کو بروئے کار لائے تاکہ ملک کا معاشی بحران ٹل جائے۔

جواب دیں

Back to top button