Column

دلیپ کمار فخرِ پشاور

ضیاء الحق سرحدی
ٹریجڈی کِنگ دلیپ کمار صرف ایک اداکار ہی نہیں بلکہ انہوں نے اداکاری میں کئی نئی جہتوں کو تخلیق کیا۔ رومانس کی دُنیا میں ان کی مثال وہی ہے ’’ جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے‘‘، ان کے عہدِ شباب میں اس وقت کی کون سی بڑی اداکارہ تھی جو ان پر فریفتہ نہیں تھی۔ کامنی کوشل ہو یا مدھوبالا، نرگس ہو یا مینا کماری، نمی ہو یا شیاما، وحیدہ رحمان ہو یا وجنتی مالا وہ کون تھی جس نے دلیپ صاحب سے محبت کا دم نہ بھرا ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ خود ان کی نظر انتخاب سائرہ بانو پر پڑی اور وہ شریکِ حیات کی حیثیت سے آج بھی ان کے ہم قدم ہے۔ دلیپ کمار کو اگر رومانس کا شہنشاہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ بڑے بڑے نامور بھارتی فنکار دلیپ کی ذات اور ان کے فن کے بارے کیا کیا کہا؟ امیتابھ بچن اور جیہ بچن کہتی ہیں کہ دلیپ سے بڑا فن کار کوئی ہے ہی نہیں۔ کِنگ خان شاہ رُخ خان کا کہنا ہے کہ دلیپ کی نقل کوئی کر ہی نہیں سکتا جبکہ میرے جیسا بیوقوف یہ کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہتا ہے۔ اس بات پر تو بالی وڈ کے بڑوں کا ایک عرصہ سے اتفاق رائے چلا آ
رہا ہے کہ ہندی فلموں کی تاریخ میں دلیپ کے قد کاٹھ کا کوئی ایکٹر تھا، نہ ہے اور نہ کبھی ہو گا۔ دلیپ کمار کی شہرت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں کس کس نوعیت کے اعزازات اور انعامات سے نوازا گیا۔ پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ وہ گینز بک آف ریکارڈز کے مطابق سب سے زیادہ انعامات اور اعزازات اپنے نام کرنے والے اداکار ہیں۔ انہیں فلم فیئر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا، انہیں اعزازی طور پر بمبئی کا شیرف مقرر کیا گیا۔ بھارتی حکومت نے بھی ان کی اداکارانہ صلاحیتوں کے اعتراف کے طور پر انہیں پدمابھوشن ایوارڈ سے نوازا جو بھارت کا تیسرا سب سے بڑا سول ایوارڈ ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں دادا صاحب پالکے ایوارڈ بھی دیا گیا۔ اندرا پردیش کی حکومت نے انہیں این ٹی آر نیشنل ایوارڈ دیا۔ پاکستان کی حکومت نے انہیں ہلال امتیاز سے نوازا جو سب سے بڑا سول ایوارڈ ہے، پھر انہیں سی این این، آئی بی این نے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ تفویض کیا۔ ان کی ایک باکمال خوبی یہ تھی کہ جو اداکارائیں ان کے بالمقابل بہن، بھابھی یا ماں کا رول کر لیتی تھیں تو پھر وہ کبھی ان کے مقابل کوئی رومانوی رول نہیں کرتے تھے۔ یوں بہت سی فلمیں ان کے ہاتھ سے جاتی رہیں مگر انہوں نے اس کی کبھی پروا نہیں کی تو ثابت یہ ہوا کہ اداکاری ان کا پیشہ نہیں بلکہ جذبہ شوق تھا اور وہ صرف پیسوں کی خاطر اپنے جذبات کا سودا نہیں کرتے تھے۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ 1944ء میں بننے والی فلم ’’ جوار بھاٹا‘‘ دلیپ کی پہلی فلم تھی مگر یہ حقیقت بہت کم لوگ جانتے
ہیں کہ اس ہیرے کو ڈھونڈا مسز دیویکارانی نے تھا۔ خود دلیپ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میرا مسز دیویکارانی سے بمبئی ٹاکیز سٹوڈیو میں ایک فیملی فرینڈ نے تعارف کرایا جو مجھے نوکری دلوانے میں میری مدد کر رہا تھا۔ دیویکارانی سے پہلے میں کبھی نہیں ملا تھا۔ انہوں نے 1250روپے ماہوار تنخواہ پر مجھے بحیثیت اداکار ملازمت کی پیشکش کی۔ میں یہ سمجھا کہ یہ تنخواہ سالانہ ہے کیونکہ اتنی رقم ماہانہ کمانا ناقابل یقین تھا لہٰذا میں نے اپنے دوست ڈاکٹر مسانی سے کہا کہ وہ دیویکارانی سے تصدیق کر لے کہ میں نے جو سُنا ہے وہ درست ہے۔ دیویکارانی نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس شخص میں وہ ٹیلنٹ نظر آتا ہے جو ایک کامیاب اداکار میں ہونا ضروری ہے اور میں اسے کھونا نہیں چاہتی۔ دلیپ صاحب بڑے اداکار تو تھے ہی مگر یوں لگتا ہے کہ وہ فلموں میں اپنے رول کے متعلق بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ فلم ’’ مدر انڈیا‘‘ میں انہوں نے نرگس کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ’’ انڈیا ٹو ڈے‘‘ میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق یہ فلم باکس آفس پر انتہائی کامیاب رہی تھی بلکہ اس نے کامیابی کی ایک تاریخ رقم کی تھی۔ اس فلم میں کام نہ کرنے کی دلیپ صاحب کے پاس اپنی وجوہات تھیں۔ رپورٹ کے مطابق دلیپ کمار نے کہا ’’ جب محبوب صاحب نے 1950ء کی دہائی میں فلم ’’ مدر انڈیا‘‘ کے حوالے سے مجھ سے بات کی تو مجھے لگا کہ فلم کا تصور بہت اعلیٰ اور وقت کی ضرورت ہے اور یہ فلم ضرور بننی چاہئے۔ میرا رول اس فلم میں نرگس کے بیٹے کا تھا اور مجھے اس پر سخت اعتراض تھا، میں یہ کردار کیسے کر سکتا تھا کیونکہ میں نے تو نرگس کے ساتھ فلم ’’ میلہ‘‘ 1948ء اور’’ بابل‘‘1950ء میں رومانوی کردار کئے تھے۔ لہٰذا میں نے یہ آفر
مسترد کر دی‘‘ ۔ فلم فیئر میگزین کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے دلیپ کمار نے کہا تھا کہ ’’ میرے اور راج کپور کے درمیان بہت دوستی ہے، میں اور راج بھائیوں کی طرح ہیں، مجھے راج کے ماتونگا میں واقع گھر میں ایک بیٹے جیسی پذیرائی ملتی تھی۔ راج ہی نے یہ مشورہ دیا تھا کہ میں اداکاری کو اپنا کیریئر بنائوں، وہ مجھے کہتا تھا کہ میں ایک خوب صورت انسان ہوں اور سٹار بن سکتا ہوں۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ دلیپ کمار کی شُہرت بحیثیت ٹریجڈی کِنگ ہوئی۔ اس ضمن میں ان کی فلم ’’ دیوداس‘‘ ایک بہت بڑا حوالہ ہے مگر بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ خود دلیپ اس وجہ شُہرت سے پریشان رہتے تھا۔ فلم فیئر جریدے کے ساتھ ایک انٹرویو میں دلیپ نے کہا تھا کہ ’’ میں ٹریجڈی رول بہت ہی کم عمر میں کرنے لگا تھا کیونکہ ٹریجڈی کردار ادا کرنے والوں میں سر جان گائل گڈ اور سرلارنس اولیور نے اپنی عمروں کے درمیانی حصّوں میں ٹریجڈی رولز کئے، انہوں نے جو کام 30برس کی عمر میں کیا وہ مجھے 20سال کی عمر میں کرنا پڑا اور یہ کردار کرنے سے میری ذات پر بہت اثرات مرتّب ہوئے۔ ایسے رولز میں نے ’’ دیوداس‘‘ کے علاوہ بھی کئی فلموں میں کئے‘‘۔ سابق پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب NEITHER A HAWK NOR A DOVE میں لکھا ہے کہ سائرہ بانو نے انہیں بتایا کہ دلیپ صاحب خصوصی طیارے سے دو مرتبہ پاکستان جا چکے ہیں۔ یہ دورے کرنے کی درخواست ان سے بھارتی حکومت نے کی تھی۔ پہلی دفعہ وہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں آئے تھے اور دوسری دفعہ چند سال قبل دلیپ کمار نے اٹل بہاری واجپائی، جو اس وقت بھارت کے وزیراعظم تھے کے کہنے پر وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی اور انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ جب بھی پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی بڑھتی ہے تو ہندوستان میں آباد مسلمانوں کی زندگیاں غیر محفوظ ہو جاتی ہیں اور ان سے درخواست کی کہ وہ حالات پر قابو پانے کی کوشش کریں۔ یاد رہے کہ جب وہ ہلال امتیاز لینے پاکستان آنے والے تھے تو بمبئی میں ایک دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیم کے کارکنوں نے انہیں دھمکیاں دی تھیں۔ دلیپ کمار نے 2014ء میں شائع ہونے والی اپنی سوانح عمری میں اپنی فلم اور
ذاتی مِس نائر کے مطابق کتاب کے 25باب ہیں اور ایک علیحدہ حصّے میں دلیپ صاحب کی کچھ افراد کے حوالے سے یادداشتیں درج ہیں۔ دلیپ نے یہ کتاب اپنے والد محمد سرور خان اور والدہ عائشہ بیگم کے نام منسوب کی ہے۔ اپنی والدہ کے حوالے سے وہ کہتے ہیںکہ میں ان سے دل کی گہرائیوں سے پیار کرتا ہوں کیونکہ مجھ میں اور میرے بہن بھائیوں میں جو میرٹ اور اقدار ہیں ان سب کا منبع وہ ہی تھی لیکن پورے خاندان پر میری دادی کا سکہ چلتا تھا اور وہ مجھ سے خصوصی شفقت کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ ایک دفعہ ایک فقیر ہمارے گھر آیا اور دادی سے کہا کہ یہ بچّہ بڑی کامیابیاں سمیٹے گا۔ لہٰذا اسے شیطانی نظر سے بچا کے رکھو۔ فقیر کے کہنے پر دادی نے میرے سر کے بال منڈوا دیئے اور کاجل سے میرے چہرے کو بدشکل بنا دیا۔ سکول کے سب بچّے مجھے دیکھ کر میرا مذاق اُڑاتے تھے۔ کتاب کے مندرجات سے پتہ چلتا ہے کہ دلیپ اور سائرہ بانو کو خدا نے تخلیق ہی ایک دوسرے کے لئے کیا تھا۔ دلیپ اور سائرہ بانو کے پرستاروں کی ایک بڑی تعداد کا ماننا ہے کہ وہ کبھی اس شادی کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ دونوں کی عمروں میں بہت فرق تھا اور ہمارے ذہنوں میں دلیپ، مدھو بالا عشق کی یادیں ابھی تازہ تھیں۔ کتاب کے مطابق مدھو بالا اور دلیپ کمار دونوں مدھو کے والد عطا اللہ کی سازشوں کا شکار ہوئے۔ سائرہ بانو کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ دلیپ کے ماضی کے بارے میں مثبت انداز فکر رکھتی تھیں جس کی ایک مثال یہ ہے کہ 1966ء میں شادی کے فوراً بعد مدھو بالا نے دلیپ کو فون کرکے ایک ارجنٹ ملاقات کی خواہش کی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مدھو بہت بیمار اور بستر سے لگی ہوئی تھی۔ دلیپ نے سائرہ کو بتایا تو سائرہ نے ضد کرکے دلیپ کو ملاقات کے لئے بھیجا اور کہا کہ شاید وہ کسی مشکل سے دوچار ہے۔لہٰذا دلیپ مدھو کے گھر گئے، مدھو کو کسی معاملے میں مشورہ درکار تھا جو دلیپ نے دیا۔ دلیپ کے مطابق وہ بہت کمزور لگ رہی تھی مگر اس کے باوجود اس نے کوشش کرکے اپنے ہونٹوں پر وہی دلکش مُسکراہٹ سجائی، وہ دلیپ سے مل کر بہت خوش تھی، اس نے کہا کہ ہمارے شہزادے کو آخرکار اس کی شہزادی مل گئی مجھے اس کی بہت خوشی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صرف مدھو بالا کے والد کا کردار ہی واحد وجہ نہیں تھی، دلیپ کی مدھو بالا سے دوری کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دلیپ کو مدھو بالا کے ماضی میں ہونے والے معاشقوں کی بھنک پڑ گئی تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ ایسا ممکن ہے کہ فلمی دُنیا کے دوسرے ہیروز نے بھی مدھو کو متاثر کیا ہو اور وہ ان کی طرف مائل ہوئی ہو۔ معروف اداکارہ نمی نے اپنی یادداشتوں میں اس کی تصدیق بھی کی ہے۔ نمی مدھو بالا اور دلیپ دونوں کو اچھّی طرح سے جانتی اور ان کی باہمی محبت سے بخوبی آگاہ تھی۔ نمی نے 1954ء میں بننے والی فلم ’’ امر ‘‘ میں دلیپ اور مدھو بالا کے ساتھ کام بھی کیا تھا۔ نمی کا دعویٰ تھا کہ’’ امر‘‘ فلم کی شوٹنگ کے اختتام کے قریب ایسا لگنے لگا تھا کہ ان کا رومانس دم توڑ جائے گا۔ نمی کو احساس تھا کہ دلیپ کو مدھو بالا اور پریم ناتھ کے تعلقات کا علم ہو گیا تھا جو دو فلمی ستاروں کے تعلقات سے بہت آگے بڑھ چکے تھے۔ دلیپ کمار کے پرستاروں کی اَن گنت تعداد پاکستان میں بھی ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ دلیپ کا نام ہائوس ہولڈ نیم ہے تو بے جا نہ ہو گا اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کی سرزمین پر11 دسمبر 1922ء کو پیدا ہوئے اور ان کا خاندان 1930ء میں بھارت کے شہر بمبئی کے نواح میں واقع ایک بستی میں منتقل ہوگیا۔ اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے 13 جولائی 2014 ء کو ان کے آبائی گھر کو پاکستانی نیشنل ہیریٹیج مونومنٹ قرار دیا تھا۔ یاد رہے کہ 1988ء میں دلیپ کمار نے پاکستان کا دورہ کیا اور پشاور پہنچ کر زمین کو چوم لیا تھا، وہ اپنے گھر میں کافی دیر تک درو دیوار کو دیکھتے رہے وہ اپنے آبائی گھر محلہ خداداد آئے تھے راقم نے دلیپ کمار سے وہاں ملاقات بھی کی تھی۔ پھر جب وہ 1991ء میں نشان امتیاز وصول کرنے پاکستان آئے تو بے پناہ ہجوم کے باعث اپنے گھر تک نہ پہنچ سکے تھے۔ وہاں سے وہ سیدھا پشاور یونیورسٹی ٹاؤن الحاج مومن خان جو کہ قیمتی و نیم قیمتی پتھروں کے تاجر تھے اور اس کے ساتھ ساتھ آل پاکستان کمرشل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین بھی تھے ان کے گھر قیام کیا تھا اور راقم ضیاء الحق سرحدی اور ان کے بیٹے عمران الحق نے بھی دلپ کمار سے ملاقات کی تھی۔ بالی وڈ میں ہندو فلمسازوں اور ہدایت کاروں نے اکثر اور بے پناہ کوشش کی کہ کوئی دوسرا دلیپ کمار پیدا کیا جائے مگر قدرت نے چونکہ ایک ہی دلیپ پیدا کیا تھا اس لئے کوئی ان کا ثانی نہ بن سکا۔ ان کا انتقال 98برس کی عمر میں 7جولائی 2021ء میں ممبئی ہندوستان میں ہوا۔
ِنَّا لِلّہِ وَِنَّا ِلَیْہِ رَاجِعونَ

جواب دیں

Back to top button