بھٹکائے گئے مسافر

تحریر : روشن لعل
وطن عزیز میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو بے راہ رو ہونے کے باوجود خود کو راہ راست پر ثابت کرنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ خود بے راہ رو ہونے کے باوجود دوسروں کو گمراہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے والے ایسے لوگوں کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ غیر متوقع طور پر کسی بھی جگہ یوٹرن جیسا کوئی بھی موڑ مڑ لیتے ہیں۔ جن لوگوں کا یہاں ذکر کیا جارہا ہے یہ ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی چال چلتے ہیں۔ حقیقت میں ایسے لوگوں کونہ صرف یہ علم ہوتا ہے کہ سفر کی درست سمت کیا ہے بلکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ سفر کے دوران کہاں رکنا ، کیسے آگے بڑھنا اور کہاں سے مڑنا ان کے لیے بہتر ہو سکتا ہے ۔ یہ لوگ سب کچھ جاننے کے باوجود راہ راست پر چلنے کی بجائے ایجنٹ کی حیثیت سے دوسرے مسافروں بھٹکانے اور ان کے ارد گرد بھٹکے ہوئے مسافروں کا جم غفیر جمع کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ذاتی مفادات کے حصول کو ترجیح بنا چکے ان لوگوں کا ظاہر و باطن کسی سے پوشیدہ نہیں ہونا چاہیے مگر ان کا پراپیگنڈا اس قدر مسحور کن ہوتا ہے کہ سادہ اور فہم سے عاری لوگ بڑی تعداد میں ان کی پیروی شروع کر دیتے ہیں۔
مذکورہ لوگوں کی مثالیں اس پرانی کہانی میں تلاش کی جاسکتی ہیں جس میں دو فراڈیئے ایک بادشاہ تک رسائی حاصل کر کے اسے کہتے ہیں کہ وہ اسے سونے، چاندی اور ہیرے جواہرات سے مزین ایک ایسی نایاب پوشاک تیار کر کے دے سکتے ہیں جسے عقلمند لوگ تو دیکھ سکیں گے مگر وہ بیوقوفوں کو نظر نہیں آئے گی۔ بادشاہ ایسا لباس بنوانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور فراڈیوں کو ان کی مانگ کے مطابق سونا ، چاندی، ہیرے ، جواہرات اور ریشم فراہم کرتا ہے۔ فراڈیئے یہ قیمتی چیزیں ہڑپ کر لیتے ہیں اور خالی ہاتھ بادشاہ کے سامنے حاضر ہو کر اس پر یہ ظاہر کرتے ہیں انہوں نے عقلمندوں کو دکھائی دینے بیوقوفوں کو نظر نہ آنے والی پوشاک تیار کر لی ہے جسے بادشاہ زیب تن کر سکتا ہے۔ بادشاہ کو لباس نظر نہیں آتا کیونکہ کوئی لباس تیار ہی نہیں کیا گیا ہوتا مگر پھر بھی اس وجہ سے کہ اسے کہیں بیوقوف نہ سمجھ لیا جائے وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ لباس اسے نظر آرہا ہے۔ فراڈیئے اسے ایک ایسا لباس پہنانے کا تماشا کرتے ہیں جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا اور بادشاہ اس تماشا کا شکار ہو کر بے لباس ہونے کے باوجود یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس نے عظیم الشان لباس پہن لیا ہے۔ یوں بادشاہ برہنہ حالت میں دربار میں آجاتا ہے اور درباریوں سے پوچھتا ہے کہ اس نے کیسا لباس پہن رکھا ہے ۔ بادشاہ کو الف ننگا دیکھنے کے باوجود تمام درباری یک زبان ہو کر بادشاہ سے زیادہ اس پوشاک کے قصیدے بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کہانی کا بقیہ حصہ اگر بیان نہ بھی کیا جائے تو نامکمل قصہ کی روشنی میں ہی وہ سب کچھ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے جو ایک عرصہ سے پاکستان میں ہو رہا ہے۔
سیانے کہہ گئے ہیں کہ کوئی کہانی کتنی بھی پرانی اور معروف کیوں نہ ہو اسے ادھورا ہر گز نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ بعض اوقات پرانی کہانیاں بھی نئی باتوں اور تبدیلیوں کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوجاتی ہیں۔ اس کہانی کا بقیہ حصہ اور انجام یہ ہے کہ عقل و دانش کی معراج سمجھے جانے والے بادشاہ کے مشیروں کو صاف نظر آرہا تھا کہ بادشاہ کس حالت میں دربار میں بیٹھا ہے مگر سب کچھ دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود تمام دانا مشیر اور ان کی پیروی میں ہر درباری ایک سے بڑھ کر ایک جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کا ساتھ دیتا ہے ۔ دربار میں موجود ایک بچہ بھی یہ سب کچھ دیکھ رہا ہوتا ہے ۔ ریاکاری، خوشامد ، ذاتی مفاد اور جانتے بوجھتے جھوٹ کو سچ سمجھنے جیسی آلائشوں سے پاک اس بچے سے وہ سب کچھ برداشت نہیں ہو پاتا جو دربار ی کر رہے ہوتے ہیں۔ آخر کار وہ بچہ اٹھتا ہے اور بلاجھجھک کہہ دیتا ہے کہ بادشاہ نے کوئی پوشاک نہیں پہنی ہوئی اور وہ برہنہ حالت میں تخت پر بیٹھا ہے۔ اس پرانی کہانی کا انجام یہ ہے کہ آخر کار اس بچے کے سچ کو ہر جھوٹ بولنے والا سچ مان لیتا ہے۔ آج اگر کوئی اس کہانی کے پلاٹ پر، موجودہ دور کی کہانی لکھنے کی کوشش کرے تو شاید اسے صاف نظر آنے والا سچ تسلیم کروائے بغیر ہی اپنی کہانی کا اختتام کرنا پڑے۔ ہو سکتا ہے کہ جھوٹ کے جبر اور طاقت کے سامنے بے بس ہو کر کوئی کہانی کار آج کے دور کی کہانی کا یہ المناک انجام لکھنے پر مجبور ہو جائے کہ سچائی سامنے آنے کے بعد بھی جھوٹ سچ بن کر عریاں ناچتا رہا اور عیاں سچ اپنا منہ چھپائے پھرتا رہا۔ اگر کسی کو آج کے دور کی کہانی کے مذکورہ اور ممکنہ انجام پر تحفظات ہیں تو کیا وہ یہ وضاحت کر سکتا ہے کہ یہاں عرصہ دراز سے تبدیلی کے خواب دکھانے والے کرداروں کے الف ننگا ہو کے باوجود اگر درباری اپنے گلے پھاڑ پھاڑ کر اور تشہیر کی شعبدہ بازیوں سے جھوٹ کو سچ بنانے کی کامیاب کوششیں کر رہے ہیں تو کیسے مان لیا جائے کہ یہاں جھوٹ کے سامنے سچ کو بے بس نہیں ہونا پڑتا ہے۔
ہمارے ہاں کئی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں جھوٹ کی کہانیوں کے انجام تک پہنچتے پہنچتے کئی ایسے موڑ نمودار ہو گئے کہ کل کے درباری آنے والے دور میں وعدہ معاف گواہ بنتے نظر آئے۔ ان کہانیوں کے تسلسل میں ایسا ہونا عین ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی آج کے درباریوں کی گلا پھاڑنے کی مشق تو برقرار رہے مگر ان کے الفاظ تبدیل جائیں ۔ ایسا ہونا اس لیے بھی ممکن ہے کیونکہ آج کے درباریوں کا گزرا ہوا کل ابھی تک کسی کی بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہو سکا اور اس گزرے ہوئے کل کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کا آنے والا کل کیا ہوسکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آج کے درباری ہمیں کل یہ کہتے ہوئے نظر آئیں کہ انہیں تو بخوبی علم تھا کہ دربار میں کون بے ستر اور کون با ستر ہے مگر وہ تو اس انتظار میں تھے کہ کوئی بچہ اٹھے اور سچ کی آواز لگائے اور وہ اس کی آواز میں آواز ملا سکیں۔
یاد رہے کہ کوئی بچہ چاہے جتنی بھی دانائی کی بات کرے اسے دانا تسلیم کرنے کی بجائے یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے معصومیت میں ایسی بات کردی۔ اسی طرح اگر کوئی بچہ غلطی یا شرارت کرے تو اسے شیطان سمجھنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اس نے شیطانی کی۔ کسی بچے کی جس غلطی یا شرارت کو شیطانی کہا جاتا ہے وہ اگر کسی بڑے سے سر زد ہوجائے تو اس حرکت کو کوئی نام دینے کی بجائے اس کا ارتکاب کرنے والے بڑے کو براہ راست شیطان قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہاں اس بحث کو طول نہیں دیا جاسکتا کہ کون شیطان اور کون معصوم ہے ، ہاں مگر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے ہمیں شیطان سے زیادہ ایسے انسانوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جو کل کسی کے درباری تھے اور آج یو ٹیوبر بن کر سادہ لوح اور کم فہم لوگوں کو بھٹکانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔